کیا معصوم بچی کے قاتل قانون کے کٹہرے میں آجائیں گے تحریر:۔ محمد بلال یاسر

0

بچے گھر کی زینت ہوا کرتے ہیں ، بچوں کے بغیر گھر ویرانہ محسوس ہوتا ہے ،ہر انسان اپنے بچوں کیلئے خود کو قربان کردینے ، تکلیف خود سہنے اور بچوں کو حتی الوسع راحت پہچانے کی کوشش ہوتی ہے اور اس مقصد کیلئے وہ گرمی سردی دھوپ سایہ اور بارش کی پرواہ کیے بغیر مسلسل زندگی کی پہیہ گھمانے میں مصروف ہوتا ہے ۔ ملک کے دیگر علاقوں کے بنسبت قبائلی علاقوں میں غربت اپنے عروج پر ہے یہاں مقامی لڑائیوں جھگڑوں اور دشمنیوں کے علاوہ گذشتہ دو دہائیوں میں یہاں دو بڑے بڑے جنگوں سے اس علاقے کو سامنا کرنا پڑا ، 1994 میں پہلی بار جبکہ 2008 میں یہاں ملٹری آپریشن نے یہاں کے معیشت کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ، یہاں کے لوگ دربدر پھررہے ہیں۔ اسی غربت کے نتیجے میں یہاں اب خاندانوں کے سگے رشتوں کے درمیان خونی کی ہولی کھیلی جاچکی ہے ۔ گذشتہ روز تحصیل ماموند کے علاقے میں ہاتھ پاؤں کٹے چہرے پر تیزاب ڈالی گئی لاش برامد ہونے کے بعد علاقے میں کہرام سا مچ گیا ، ہر ایک کو اپنے بچوں کی تحفظ کی فکر لاحق ہوئی۔ آخر یہ بچی کون تھی اور اس کے ساتھ ہوا کیا۔
ملنی والی لاش 9سالہ بچی کی تھی جس کانام محترمہ ہے اس کے والد کا نام عبدالرزاق عرف طوطی ہے جوکہ تحصیل لوئی ماموند کے زرے گاؤں کا رہائشی ہے ، اس کی تین بیویاں ہیں جن سے ان کے 23بچے ہیں ، مقتولہ محترمہ عبدالرزاق کی سب سے چھوٹی بیوی کی بڑی بیٹی ہے ، گذشتہ کافی عرصے سے ان کے گھر میں ناچاقی چلی آرہی تھی ، محترمہ کی والدہ گھر میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث علاقہ لغڑئی ملکان ملک شاطر خان کے گھر رہائش اختیار کی۔ جہاں وہ ملکان کے گھر خدمت کرکے اپنے بچوں کی کفالت کرکے زندگی گذار رہی تھی ، گذشتہ ہفتے 31اگست کو معمول کے مطابق عام بچوں کی طرح گھر سے کھیلنے کیلئے اجازت لیکر نکلی ، رات گئی تک جب محترمہ گھر نہ آئی تو اس کی تلاش شروع ہوئی علاقے کے لوگوں نے مل کر پورا علاقہ چھان مارا لیکن معصومہ نے نہ ملنا تھا اور نہ ملی ، اس بے کس والدہ نے بلآخر سول کالونی خار میں اپنی بچی کی گمشدگی کا ایف آئی آر اپنے سوتیلے بیٹوں کے خلاف کٹوایا کیونکہ انہیں سوتیلے بیٹوں کے وجہ سے ان کو اور ان کے بچوں کو شدید خطرات لاحق تھے۔ بچی کی تلاش پھر بھی جاری کہ گذشتہ روز گھر سے تھوڑے سے فاصلے پرایک کھیت میں محترمہ کی لاش ملی ، درندوں نے قتل کرنے کے بعد معصومہ کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد چہرے پر تیزاب ڈال کر چہرہ بھی مسخ کردیا تھا کہ کہیں کوئی پہچان نہ لیں۔ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ معصوم محترمہ کو قبر میں اتاردیاگیا۔ لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آخر اس معصوم بچی کا قصور کیا تھا اور اس کیوں اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا اور قتل کرنے کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر چہرہ مسخ کرنے کی مذموم کوشش کیوں کی گئی۔ آخر 9سالہ محترمہ نے ان درندوں کا کیا بگاڑا تھا۔رات گئے مقامی انتظامیہ نے شک کے بنیاد پر محترمہ کے ایک سوتیلے بھائی سمیع اللہ اور چچا زاد بھائی عبدالجلیل کو بھی گرفتار کرلیا ، جن سے تفتیش جاری ہے ، اب تک کی معلومات کے مطابق انہوں نے اقبال جرم نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے کو مجرم ٹہرانے کے دعوؤں میں مصروف ہیں۔

واقعہ کے بعد پورے علاقہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے ہر شخص کو اپنے بچوں کے متعلق فکر لاحق ہوگئی ہے ، پورا علاقہ غم و غصے کا شکار ہے سوشل میڈیا پر سوشل ایکٹویسٹ ملک جاوید علی نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آسمان کیوں نہیں پھٹی جب درندے محترمہ کے ہاتھ پاؤں کاٹ رہے تھے ، ایک اور معروف سوشل ایکٹیویسٹ ناصر خان لکھتے ہیں کہ موقع پر پہنچ کو جو کچھ میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا آج تک میں نے اتنی درندگی نہیں دیکھی۔ اس موقع پر پورے باجوڑ کے عوام کا بس یہی ایک مطالبہ ہے کہ محترمہ کے قاتلوں کو ہر حال میں گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچا جائے تاکہ ہمارا او رہمارے بچوں کا کل محفوظ ہوں ورنہ کل کو یہ واقعہ ہمارے ساتھ بھی خدانخواستہ پیش آسکتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.