”دہلی میں مسلمانوں پر تشدد۔۔۔پاکستان زندہ باد کے نعرے“ تحریر: حاجی محمد لطیف کھوکھر

0

بھارت کے شہریت سے متعلق نئے متنازعہ قانون کی مخالفت میں دارالحکومت نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں دھرنوں کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور اسی کی مخالفت کے لیے حکمراں جماعت بی جے پی نے اس قانون کی حمایت میں انہی علاقوں میں مظاہرے شروع کیے جہاں پہلے سے دھرنے جاری تھے۔ دراصل یہ احتجاج مودی کے لئے کڑوی گولی ثابت ہو رہے تھے اور دہلی سمیت دیگر شہر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے تھے۔ چنانچہ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے حواس باختہ بھگوا مودی سرکار نے اس نے دارلحکومت کو فرقہ وارانہ بھٹی کی آگ میں دھکیل دیا۔ شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہندو فرقہ پرست بلوائیوں نے مکانات، گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ کی۔واضح رہے کہ دہلی کے ایک مقامی بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے شہریت قانون کی حمایت میں ایک مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے دھرنے کو تین روز کے اندر ختم نہیں کیا تو اسے برداشت نہیں کیا جائیگا اورپھر پولیس کی بھی نہیں سنی جائے گی۔ اسی روز سے دلی میں مسلم قتل عام جاری ہے۔ ان فسادات کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو شناخت کرنے کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا انکشاف ہوا ہے۔ بی بی سی کی بنائی گئی ایک ویڈیو میں مسلمان نوجوان سرفراز علی نے ہندو انتہا پسندوں کے تشدد کے بارے میں بتایا۔زخمی حالت میں نوجوان نے ایمبولینس میں بیان دیا کہ وہ اور اس کے والد ساتھ تھے کہ کچھ لوگوں نے ان سے نام پوچھے، انہیں گھیر لیا اور پھر نعرے لگانے کو کہا۔نوجوان کے مطابق اسے اور اس کے والد کو ہندو انتہا پسندوں نے جے شری رام نعرے لگانے پر مجبور کیا جس کے بعد نوجوان سے شناختی کارڈ مانگا گیا۔نوجوان کے مطابق اس نے اپنا نام کچھ اور بتایا لیکن اسی دوران انتہا پسندوں نے اس پر اور والد پر تشدد شروع کردیا جب کہ ان کی گاڑی جلانے کی بھی کوشش کی گئی۔نوجوان نے بتایا کہ اسے اور اس کے والد کو کافی دیر تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔نوجوان کا کہنا تھا کہ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو نام پوچھ کر اور ان کی شناخت کرکے ان پر حملہ کررہے ہیں جب کہ ہندوں کو شناخت کے بعد جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔سرفراز علی کے مطابق کئی لوگوں کی ہندو شناخت ہونے کے بعد انہیں جانے دیا گیا جب کہ نام پوچھنے پر میں نے فرضی نام بتایا تو انہیں یقین نہیں ہوا جس پر پتلون اتارنے کا کہا گیا۔دہلی کے مسلمانوں پر قیامت کی گھڑی ہے، بلوائیوں اور سرکاری اہلکاروں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے، مسلمانوں کی املاک کو جلایا اور لوٹا گیا۔ مساجد اور درگاہوں کی بھی بے حرمتی کی گئی، اور مسجد کے مینار پر ہنومان کا جھنڈا بھی لہرا دیا گیا۔ زخمیوں کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔اسپتالوں میں ورثا اپنے پیاروں کی لاشیں لینے کے منتظر ہیں جبکہ زخمیوں میں بہت سے لوگوں کی حالت تشویش ناک بنی ہوئی ہے۔حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں اور لوگوں میں بری طرح خوف پایا جارہا ہے -ہنگاموں کی کوریج کے دوران رپورٹرز کو بھی مارا پیٹا گیا اور انہیں روک کر کہا گیا کہ اپنا ہندو ہونا ثابت کرو۔ اس موقع پر پولیس صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کشیدہ صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت تصادم کو روکے اور مظاہرین کو پر امن مظاہرے کی اجازت دے۔واضح رہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد نے ہندوستان کے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک کا دل کہے جانے والے شہر دہلی میں شرپسند عناصر نے جس طرح سے انسانیت کو شرمسار کرنیکا کام کیا اس کی جنتی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے وزیرداخلہ امت شاہ کو ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے – سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ دہلی میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے جس بڑی تعداد میں مسلمان مارے گئے ہیں گھروں اور دوکانوں کو لوٹا گیا ہے اس سے صاف ظاہرہے کہ حکومت پوری طرح سے ناکام رہی ہے – دوسری جانب دہلی ہائی کورٹ کے جج مرلی دھرنے جنھوں نے دہلی پولیس کے خلاف سخت لب ولہجہ اپناتے ہوئے فسادات پرقابو پانے میں اس کو ناکام قراردیا تھا اور کہا کہ وہ دوبارہ انیس سوچوراسی جیسے فسادات دہلی میں نہیں ہونے دیں گے راتوں رات ہریانہ ہائی کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔ یہ تو طے ہے۔ کہ دہلی میں مسلمانوں کے خلاف تشدد باقاعدہ منصوبہ بندی سے شروع کیا گیاتھااوران فسادات میں ہندو دہشت گردوں کو پولیس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دہلی فسادات کے حوالے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسے انتہائی ہولناک انکشافات منظر عام پر آ رہے ہیں جنہیں جان کر مودی حکومت دنیا میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گی۔ دہلی پولیس کے مطابق شرپسند عناصر جنہوں نے قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا وہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ آئے اور شرپسند عناصر کا تعلق بھارتی ریاست اتر پردیش سے ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ اور نریندر مودی کے قریبی ساتھی یوگی آدتیہ ناتھ کی دہشت گردی اور مسلم دشمنی سب پر نمایاں ہے۔ شرپسند عناصر واٹس ایپ پر متحرک تھے۔ فسادات سے قبل واٹس ایپ پر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقریروں اور ویڈیوز کا بھی سہارا لیا گیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بعض ویڈیو میں پولیس بھی بلوائیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ دہلی فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں بھارتی اخبار ”دی ہندو“ کے مطابق دہلی کے مسلم کش فسادات میں اب تک سینکڑوں مسلمان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہنگاموں اور تشدد کے بعد اگرچہ اس وقت حالات پرسکون ہیں لیکن اب بھی پرانی دلّی کے مسلم اکثریتی علاقوں پر خوف اور دہشت کا راج ہے۔بی بی سی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود ان کے نمائندے کو موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے دکھائی دیئے جنہوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور وہ ”جے شری رام“ کے نعرے لگا رہے تھے۔اس کے علاوہ فساد کے چار دن بعد بھی کئی خاندان ہیں جو ابھی تک اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو حاصل کرنے کے لیے شہر کے سپتالوں کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ ان لاشوں کا ابھی تک پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے، اس لیے لاشوں کو گھر والوں کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.