ٹرک کی بتی ۔ تحریر: ملک عاطف عطاء ۔

0

کچھ دن پہلے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بہت ساری بحث و گفتگو چلتی رہی ، جس میں سر فہرست ایک معروف ڈرامہ راءٹر اور این جی او سے تعلق رکھنے والی خاتون رہے ، کچھ نجی ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں عورت کی آزادی پر بحث و تکرار ہوتی رہی ، کچھ پروگراموں میں بات کا فی گرما گرمی تک پہنچی، اور ایک یا دو نجی ٹی وی کے ٹاک شوز میں عورت کی آزادی پر بحث کرتے ہوئے بات گالم گلوچ اورمغلظات پہنچ گئی ، سوشل میڈیا پر بھی کافی دھوم مچی اور ایک یا دو ٹی وی اینکرز کو بھی عوام نے آڑے ہاتھوں لیا ، کچھ لوگوں نے عورتوں کی آزادی پر بحث کر کے وقت ضائع کیا اور کچھ نے مردوں کی قربانیوں کو ہائی لاءٹ کیا ، ہمارے بہت سے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے بھی عورت مارچ اور عورتوں کے حقوق کے دن کے حوالے سے بہت ساری گفتگو کی،سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماءوں نے بھی اس ایشو پر دل کھول کر سیاسی بیانا ت دئیے ، علماء دین نے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کے حقوق سے عوام کو آگاہ کیا، عورتوں کے حقوق کا د ن پہلی دفعہ امریکہ میں 1909 میں منایا گیا لیکن 8مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے منانے کا فیصلہ 1913 میں کیا گیا، عورتوں کے عالمی حقوق کے دن کے بارے میں یہ معلومات شاید بہت کم لوگوں کو ہو لیکن دین اسلام نے عورت کے حقوق اور آزادی کی بات سب سے پہلے کی اور دنیا میں عورت کے حقوق بھی سب سے زیادہ اسلام میں ہیں ، یعنی اسلام نے آج سے چودہ سوسال قبل ہی عورت کو عزت اور احترام سے نواز دیا تو اس حساب سے چند دن قبل ہونے والی گفتگو یا بحث و تکرار کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا،زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا شاید یہ آج لوگوں کو یاد نہیں ہے، مغربی معاشرے کی مثالیں دینے والوں کو شاید مغربی عورت کی زندگی اور اس کی آزادی کا صیحی سے اندازہ نہیں ہے جس کا نہ تو گھر اپنا ہوتا ہے اور نہ ہی گھریلوز ندگی اور نہ ہی کوئی خاندان اور نہ ہی خاندانی شناخت ، اگر بات صرف عورت کے حقوق اور اس کے مسائل کے حل کی ہے تو وہ سب کچھ تو ہمارے دین اسلام میں ہے کہیں جانے اور کسی بھی ملک کی عورت یا کسی غیر مسلم معاشرے کی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان اسلامی ملک ہے اور اس کی بنیاد بھی دین اسلام ہی تھی، لیکن کیا ہمارے ملک میں اسلام کا قانون ہے اگر اسلامی قانون کا نفاذ ہوتا تو مسائل ہی نہ ہوتے، دوسری بات عورتوں کو کونسا حق چاہیئے، یہ تو عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں شامل اسی فیصد عورتوں کو معلوم ہی نہیں تھی، ٹی وی چینلز کے بہت سارے اینکرز نے عورت مارچ میں شامل لڑکیوں اور خواتین سے جب سوال کیا کہ اس مارچ میں کس لیئے آئی ہیں تو ایک ہی جواب تھا عورتوں کے حقوق کے لیئے ، دوسرا سوال کیسے حقوق اور کونسے حقوق ہیں جن کے لیئے آپ کو گھروں سے نکل کر مارچ میں شامل ہوئیں تو اکثریت خاموش ہو گئی اور کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں کسی کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا، جب آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ عورتوں کے کونسے حقوق ہیں جن کے لئے ہم مارچ کر رہی ہیں تو پھر کیوں ہیں آپ اس مارچ کا حصہ، کہیں ایسا تونہیں کہ آپ لاعلمی اور معصومیت میں کسی کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی مفاد پرست اپنے ذاتی مفاد کے خاطر پورے معاشرے کے امن کے ساتھ تو نہیں کھیلنے کی کوشش کر رہا کیونکہ مفاد پرستوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا ، تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیئے مذاکرات سے بہتر راستہ کوئی نہیں ہے، امریکہ بھی ایک عرصہ افغانستان میں طالبان سے جنگ لڑ لڑ کر آخر کار معاہدے اور مذاکرات کی طرف ہی آیا، اگر پاکستان میں عورتوں کے مسائل حل نہیں ہورہے تو اس کا ایک طریقہ کار ہے جو خواتین بیہودہ نعروں کے بینرز لیکر مارچ کررہی ہیں اور ٹی وی چینلزپر بیٹھ کر خواتین کے حقوق کی باتیں کر رہی ہیں وہ عورتیں مذاکرات کے ذریعے بھی اپنے مسائل کو حل کرسکتی ہیں ، لازمی نہیں کہ معاشرتی مسائل کے حل کے لیئے معاشرے میں مزید مسائل پیدا کیے جائیں ، عورت مارچ کو لیکر پاکستان میں سیاسی پارٹیوں ، شوبز انڈسٹری سے وابستہ لوگوں سمیت پوری قوم دو حصوں میں بٹ گئی جو کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا اس کو بات چیت اور صبرو تحمل سے بھی حل کیا جاسکتا ہے لیکن کیونکہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اس لیئے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں اور بس ، عورت مارچ کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل سے شروع ہونے والی کہانی کچھ دنوں میں ختم ہوگئی ، نہ جانے کتنے لوگوں نے اس لفظی جنگ میں حصہ لیا اور خوامخواہ اپنے وقت اور الفاظوں کا ضیاع کیا ، کیا نتیجہ نکلا اتنے دنوں کی بحث کا، کیا عورتوں کے مسائل حل ہوگئے یا پھر خلیل الرحمن قمر پر پابندیاں لگ گئیں ۔ پاکستان میں اسوقت نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہی ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے ایک سفید پوش انسان کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے، پاکستان میں کتنے بچے مناسب خوراک نہ ملنے کیوجہ سے دنیا سے چلے جاتے ہیں ، نہ جانے کتنی بچیاں ہماری معاشرے کے درندوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ، نہ جانے کتنے بچے وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے،نہ جانے کتنی غریب بچیوں کی جہیز اور دیگر اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے شادیاں نہیں ہو پاتیں ، کتنے نوجوان بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کرلیتے ہیں یا نشے جیسی لعنت میں ڈوب کر اپنی زندگی تباہ کر لیتے ہیں ، کیا ہم سب معاشرے کے ٹھیکیداروں کو یہ مسائل نظر نہیں آتے، کبھی ہم لوگوں نے اس کی جانب توجہ دی، کوئی مارچ کیا، کبھی مذاکرات کیے، کبھی بحث و تکرار کی، کبھی بھی نہیں کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جن کو ان سارے مسائل سے ہٹا کر ایسی باتوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، یعنی ہ میں ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جو صبح ہوتے ہی بجھ جائے گی اور ہماری منز ل کھو جائے گی ہم بے وقوفوں کی طرح گھومتے رہیں گے، یہی حال ہمارا اب گزشتہ دنوں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پید ا ہو جانے والی صورتحال پر ہوا، پورے پاکستان میں ہر شعبے کے لوگوں نے اس ایشو پر بحث کی ، لیکن صرف وقت کے ضیاع کے علاوہ کسی کو کچھ ملا جب تک ہم لوگ ان فضول باتوں اور چیزوں سے باہر نہیں آئیں گے تب تک ہمارا حال بہتر نہیں ہوگا اور کچھ مفاد پرست ہ میں استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں گے ، اب وہ مقاصد سستی شہرت ہوں یا پھر بین الاقوامی فنڈ حاصل کرنے کی کوشش ، دونوں ہی صورتوں میں فائدہ ا ن مفاد پرستوں کا ہی ہوگا اور عوام صرف ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتی رہیگی ۔ ختم شد

تحریر: ملک عاطف عطاء
atifapb297@gmail.com

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.