قیمتوں کے تعین میں اصلاحات کے مطالبے کے باعث ایندھن کی قلت برقرار رہنے کا امکان
کراچی: صنعت کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر فروخت میں اضافہ اور قیمتوں میں اصلاحات پر جمود برقرار رہا تو ملک میں جون کے مہینے میں ایندھن کی قلت میں کمی کا امکان نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق (پیٹرولیم کی) صنعت میں سب کی نگاہیں پیر( 22 جون) کو ہونے والے اہم اجلاس پر ہیں جس میں ملک میں تیل کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے متعلق تجاویز مرتب کی جائیں گی۔
علاوہ ازیں انڈسٹری قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو آئل مارکیٹنگ سیکٹر میں جوڑ توڑ کے بنیادی عنصر کے طور پر نشاندہی کرنے پر متفق ہیں۔
صنعت کے سینئر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایک پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دوسری کے درمیان ِخلا قلیل المدتی ہیر پھیر پیدا کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کا بحران اور مجموعی صورتحال پر ایک نظر
چنانچہ کل اقتصادی رابطہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں تیل کی قیمتوں میں اصلاحات کے طریقے سے متعلق حکومت کو تجاویز دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ذیلی کمیٹی وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم، مشیر برائے حکومتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد پر مشتمل ہے۔
کمیٹی، انڈسٹری کی جانب سے قیمتوں کے فوری فیصلوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ کرے گی تاکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اتار جڑھاؤ اور ملک میں پمپس پر ایڈجسٹمنٹ کے درمیان خلا میں کمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس وقت پاکستان میں موٹر گیسولین یا موگاس کا ‘ قابل استعمال’ 2 لاکھ 8 ہزار میٹرک ٹن اسٹاک موجود ہے، یہ عام پیٹرول ہے جسے لوگ گاڑیاں چلانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا.
یہ اسٹاک موجودہ کھپت کے اٹھ روز اور کھپت کی سطح میں اضافے کے لیے کافی ہے جس کا تخمینہ صںعتی رہنماؤں نے جون کے مہینے میں یومیہ 25 ہزار میٹرک ٹنز لگایا ہے جبکہ کھپت کی معمول کی سطح 20 ہزار ٹنز یومیہ ہے۔
ڈیزل میں بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے سوائے خیبرپختونخوا کے، ملکی سطح پر اسٹاک 3 لاکھ 13 ہزار میٹرک ٹنز جبکہ اوسط یومیہ فروخت 28 ہزار میٹرک ٹنز ہے، اس وقت ملک میں 11 دن کا ڈیزل کا اسٹاک ہے۔
صنعتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مہینے کے آخر میں پیٹرول کا اسٹاک 8 سے 9 روز اور ڈیزل کا 9 سے 10 روز تک چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں یہ صورتحال کچھ عرصہ تک جاری رہے گی اور اس میں اس وقت تک تیزی سے کمی نہیں آئے گی جو صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب ملک میں سخت لاک ڈاؤن نافذ ہو۔