لداخ: پراسرار اور دیو مالائی کہانیوں کا دیس جس میں خلیفہ ہارون الرشید اور مغل بادشاہوں کی بھی دلچسپی تھی۔ اسد علی (بی بی سی اردو، لندن)

0

اکسائی چِن کا مطلب ہے ’سفید پتھروں کا صحرا‘۔ دنیا کے بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں واقع یہ وہ علاقہ ہے جہاں تبت، لداخ اور سنکیانگ کی سرحدیں ملتی ہیں اور آجکل ایک بار پھر چین اور انڈیا کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انڈیا اور چین جیسے بڑے ممالک کا اس جغرافیائی طور پر دشوار گزار خطے میں مد مقابل آنا انوکھی بات نہیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ’لداخ کی گزشتہ 1500 سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس ویران علاقے میں موجودہ تنازعہ ایک پرانے سلسلے کی کڑی ہے۔ایک ایسا سلسلہ جس کے ابتدا میں چین کے بادشاہ اور اسلامی سلطنت کے خلیفہ بھی آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔اکسائی چِن بلا شک و شبہ دنیا کے سنسان ترین علاقوں میں سے ایک ہے، ایک ایسا علاقہ۔۔۔جس کے بارے میں نہرو نے کہا تھا کہ۔۔۔۔وہاں نہ لوگ رہتے ہیں اور نہ گھاس کا تنکا اگتا ہے۔ پھر بھی مسلح جھڑپیں ہوئی ہیں اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔یہ لائن سنہ 1962 کی انڈیا اور چین کی جنگ کے ایک سال بعد شائع ہونے والی ایک کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ: سائنو انڈیا رائولری اِن لداخ‘(ہمالیائی میدان جنگ: لداخ میں انڈیا چین دشمنی) سے لی گئی ہے۔ کتاب کے مصنفین ماگریٹ ڈبلیو فِشر، لیو ای روز، رابرٹ اے ہٹن بیک نے انڈیا اور چین کے درمیان اس تنازعہ کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ بنیادی طور پر یہ معاملہ ’انڈیا اور چین کی قومی سلامتی اور وسیع تر اقتصادی اور سیاسی مفادات کا ہے۔‘ انھوں نے ان ممالک کی پڑوسی ریاستوں کے دور رس مفادات اور علاقے کی معدنی دولت(سنکیانگ میں تیل کے ذخائر اور مغربی تبت میں سونے اور یورینیم کی موجودگی) کا بھی ذکر کیا۔

لداخ اور خلیفہ ہارون الرشید

مؤرخ سُکھ دیو سنگھ نے اپنی کتاب ’جرنیل زورآور سنگھ‘ میں لکھا ہے کہ گلگت، بلتستان اور لداخ ساتویں اور آٹھویں صدیوں میں چین، تبت اور خلیفہ ہارون الرشید کی قیادت میں عرب سلطنت کے درمیان سیاسی کشمکش کا مرکز بھی رہے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ لداخ جغرافیائی طور پر ہمیشہ ایک الگ خطہ رہا ہے لیکن کئی بار اس کے حکمران اپنے پڑوسیوں کے تابع رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال آٹھویں صدی میں بھی تھی جب اس کی حیثیت اپنے مشرقی ہمسائے تبت کے صوبے کی تھی لیکن اس کا حکمران دنیاوی معاملات میں خودمختار تھا۔ مذہبی معاملات میں وہ لہاسا کے دالائی لامہ کے تابع تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تبت خود اپنے مشرقی ہمسائے چین کے زیر تسلط تھا۔

سُکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں تبت ایک طرف ’چین کے تسلط سے آزادی کے لیے کوشش کر رہا تھا تو دوسری طرف عربوں سے لڑ رہا تھا جو خلیفہ ہارون الرشید کی قیادت میں وسطی ایشیا کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ اس طویل اور غیر فیصلہ کن جدوجہد کا خاتمہ اس وقت ہوا جب سنہ 798 میں بغداد کے خلیفہ نے چین کے بادشاہ کے ساتھ صلح کر لی۔

وسطی ایشیا میں خلیفہ کی مہم

کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‘ میں لکھا ہے کہ 7ویں صدی میں وسطی ایشیا میں بالادستی کی کشمکش میں (چین، تبت، کشمیر، لداخ، بلتستان، ترکستان، اور کسی حد تک انڈیا اور نیپال کے بعد) اسلامی عرب سلطنت کی صورت میں ایک نئی طاقت کا اضافہ ہوا۔

اس وقت تبت اور چین کے درمیان ترکستان تک رسائی کے لیے جھگڑا تھا اور اس کا مرکز تھا لداخ اور بلتستان۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ کشمیر اس مسئلے کا براہ راست فریق بن چکا تھا۔

کتاب میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ عربوں کے دباؤ کی وجہ سے چین اور کشمیر کے درمیان ایک طرح کا اتحاد قائم ہو چکا تھا۔ ’سنہ747 میں ایک بڑی فوج جسے شاید کشمیر کی بھی حمایت حاصل تھی بلتستان میں اپنا زور قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ عرب پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے گلگت تک چینی گیریژن قائم کی گئی تھی۔ لیکن چینیوں کی کامیابی عارضی تھی اور انھیں سنہ 751 میں عربوں کے ہاتھوں بڑی شکست ہوئی ۔۔۔۔۔۔اور انھیں مغربی ترکستان کا بڑا حصہ عباسی خلیفہ کے حوالے کرنا پڑا۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ صورتحال اس وقت بدلی جب تبت نے ترکستان میں کامیابی حاصل کی اور چین کی جگہ تبت عباسی خلیفہ کی اسلام کو مشرق میں پھیلانے کی خواہش کے راستے میں کھڑا تھا۔ ’بغداد کے خلیفہ ہارون الرشید نے تبت کے ساتھ سنہ 798 میں معاہدہ ختم کر دیا اور ایک نمائندہ چین بھیج کر اکٹھے ترکستان پر حملے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن سنہ 803 میں بازنطینیوں کے ساتھ دوبارہ لڑائی شروع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کی توجہ بٹ گئی اور پھر جب سنہ 808 میں دوبارہ وسطی ایشیا میں مہم کا آغاز ہوا تو خلیفہ ہارون الرشید کا اس دوران انتقال ہو گیا اور ’ایک بار پھر وسطی ایشیا میں عرب پیش قدمی مؤخر ہو گئی۔

مغل بادشاہوں کی لداخ میں دلچسپی

مؤرخ پرتھوی ناتھ کول بامزئی اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف کشمیر میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1586 میں اکبر بادشاہ کے دور میں جب کشمیر مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا تو لداخ بھی اس سیاسی تبدیلی کے اثر سے نہیں بچ سکا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکبر کے کشمیر کے دوسرے دورے کے دوران انھوں نے لداخ کے اس وقت کے حکمران اجو رائے کو ہٹا کر اپنے نامزد کردہ علی رائے کو وہاں تعینات کر دیا۔

اس کے بعد، 17ویں صدی میں اپنے منگول ہمسائیوں کے حملے سے نمٹنے کے لیے لداخ کے حکمرانوں نے مغل شہنشاہ شاہ جہاں سے مدد طلب کی۔ منگولوں کی شکست کے بعد لداخ نے اعلان کیا کہ وہ اب صرف کشمیر کے ساتھ شالوں کی تجارت کرے گا لیکن، بامزئی لکھتے ہیں کہ، مغل فوج کے لداخ سے نکلتے ہی منگول پھر واپس آ گئے اور مقامی حکمرانوں کو انھیں نذرانہ دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔

مغل بادشاہ اورنگزیب کو اس واقعے کا علم تھا اور وہ لداخ کے بادشاہ کو ’سبق سکھانا چاہتے تھے۔‘ سنہ 1665 میں کشمیر کے دورے کے دوران انھوں نے لداخ پر حملے کا اراداہ بھی ظاہر کیا۔

اس دورے میں فرانسیسی فزیشن فرانسس بیرنیئر بھی مغل بادشاہ کے قافلے میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنے سفرنامے میں لکھا کہ ’حملے کا خطرہ دیکھتے ہوئے لداخ کے بادشاہ نے اپنا ایک نمائندہ فوراً شہنشاہ اورنگزیب کے سامنے پیش ہونے کے لیے کشمیر روانہ کیا۔ ۔۔۔بہت سے قیمتی تحائف بھی پیش کیے گئے۔۔۔لداخی سفیر نے اپنے بادشاہ کی طرف سے اپنے دارالحکومت میں مسجد بنوانے کا وعدہ کیا۔۔۔۔ایک طرف اورنگزیب کی تصویر والے سکے جاری کرنے کا وعدہ کیا اور سالانہ نذرانے کی بھی پیشکش کی۔

لیکن، بیرنیئر نے مزید لکھا کہ کسی کو کوئی شک نھیں تھا کہ ’جیسے ہی اورنگزیب کی کشمیر سے واپسی ہو گی لداخ کا بادشاہ اس معاہدے کو بھلا دے گا جیسا کہ اس سے پہلے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے ساتھ ہوا تھا۔

بامزئی لکھتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد لداخ کو ایک بار پھر پہلے جیسی آزاد حیثیت حاصل ہو گئی۔ سُکھ دیو سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اورنگزیب کے زمانے سے لداخی دلی کی حکومت کو سالانہ معمولی رقم نذرانے میں ادا کرتے آ رہے تھے اور مغلیہ سلطنت کے بعد جب افغان احمد شاہ ابدالی نے سنہ 1752 میں پنجاب اور کشمیر پر قبضہ کیا تو یہ سلسلہ ان کے دور میں بھی جاری رہا۔ لیکن سکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ سنہ 1819 میں جب کشمیر پر پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیا تو لداخیوں کی طرف سے اس نذرانے کا سلسلہ رک گیا۔ یہ بات کشمیر کے نئے حکمرانوں کو پسند نہیں آئی اور سنہ 1834 میں جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے جرنیل زورآور سنگھ نے لداخ پر حملہ کر دیا۔

مؤرخ پروفیسر سُکھ دیو سنگھ نے اپنی کتاب ’جنرل زورآور‘ میں لکھا ہے کہ سنہ 1834 سے 1841 کے درمیان لاہور کی حکومت کے لیے تبت، لداخ اور بلتستان کو فتح کرنے کا سہرا جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے جرنیل زورآور سنگھ کے سر جاتا ہے۔ سی پال نام گیال لداخ کے آخری بادشاہ تھے جنھیں زورآور سنگھ نے سنہ 1835 میں شکست دی تھی۔

زورآور کی سرد ممالک میں شاندار کامیابیوں کے بارے میں ان کے ہم عصروں اور جموں اور لاہور میں ان کے حکمرانوں کا کہنا تھا کہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔

سکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ دنیا کے لیے برف پوش چوٹیوں، خشک وادیوں اور انتہائی گرم دن اور انتہائی سرد راتوں اور بدھ مت کی خانقاہوں والے اس ملک میں جادوئی کشش تھی۔ دریائے سندھ بھی لداخ سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ لداخ کسی زمانے میں ایک بڑی بادشاہت تھی اور مغربی تبت اور بلتستان بھی اس کا حصہ تھے۔

یہاں کی انتہائی ناموافق آب و ہوا اور خطرناک جغرافیائی خد و خال، میدانوں سے آنے والی کسی بھی فوج کے لیے مشکل چیلنج ہیں اور اس کے سرد صحراؤں میں ایک چھوٹی فوج کے لیے بھی خوراک کی فراہمی ناممکن کام ہے۔

سکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ جنوب مغربی راستے سے جموں سے لیہ کا فاصلہ 600 کلومیٹر تھا اور زیادہ تر جون سے اکتوبر کے درمیان ہی کھلا ملتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک راستہ سرینگر سے لیہ جاتا ہے جو 365 کلومیٹر لمبا ہے اور اس پر مارچ اور نومبر کے درمیان سفر ممکن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس روٹ کا زیادہ تر حصہ زورآور نے 1835 میں لداخ پر قبضے کے بعد بنوایا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ اس راستے پر دریائے سندھ پر ایک بڑا پل اور دوسرے دریاؤں پر کئی چھوٹے پل زورآور سنگھ نے ہی بنوائے تھے۔

سکھ دیو سنگھ نے لکھا ہے کہ جرنیل زورآور سنگھ کا لداخ کے دارالحکومت لیہ پہنچ کر فتح کے بعد پہلا فیصلہ لداخ کے اسی بادشاہ سی پال نام گیال کو جموں کی ریاست کے تابع حکمران کے طور پر دوبارہ تخت پر بٹھانے کا تھا۔ اس طرح لداخ جموں کے ڈوگرا راجوں کے ذریعے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ زورآور سنگھ کے اگلے 5 سال ریاست میں بغاوتیں کچلنے میں گزر گئے۔ اسی طرح کی صورتحال میں سنہ 1840 میں انھوں نے لداخ کے بادشاہ کو پنشن پر بھیج کر لداخ کو جموں میں ضم کر دیا۔ سکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ زورآور سنگھ اس دوران نہ صرف لداخ سے بغاوت کا جذبہ ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انھوں نے بلتستان اور تبت کے خلاف جنگی مہمات میں بھی ان کو ساتھ ملا لیا اور جلد ہی ’لداخ کے لوگ اپنے آپ کو گلاب سنگھ کی ریاست جموں کا اہم حصہ سمجھنا شروع ہو گئے۔زورآور سنگھ لداخ کے بعد مزید علاقے اور تجارتی روٹ اپنے زیر اثر لانے کی کوشش میں دسمبر سنہ 1841 میں تبت کی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔

زورآور سنگھ کے خلاف بغاوتیں صرف باہر سے نہیں ہوئی تھیں۔ سُکھ دیو سنگھ کہتے ہیں کہ جموں کے ڈوگرا جرنیل اور فوجیوں کی کامیابی سے سکھ فوجی حسد کا شکار ہو گئے اور لداخ میں بغاوت شروع کروانے میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک بغاوت کشمیر کے سکھ گورنر میاں سنگھ کی ایما پر بھی ہوئی۔۔۔۔میاں سنگھ کے حسد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لداخ کے ڈوگروں کے ہاتھ آنے کے بعد کشمیر کو ملنے والی شال کی اون کی مقدار کم ہو گئی تھی جو اب لداخ سے جموں اور کشٹوار کے راستے پنجاب بھیجی جا رہی تھی۔

جرنیل زورآور سنگھ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے گلاب سنگھ نے لداخ میں فوری کارروائی کی اور اس کا انجام ایک تاریخی معاہدے کی صورت میں ہوا۔ سنہ 1842۔ پنجابی مہینے اسُو کی دو تاریخ (عیسوی کیلنڈر کے اعتبار سے تقریباً 15 اگست)۔ لداخ کے دارالحکومت لیہ میں جموں اور تبت کے حکمرانوں کے درمیان ایک امن معاہدے پر مہر لگائی گئی، جس کی ضمانت بعد میں چین کے بادشاہ اور لاہور کی حکوت کے حکمران مہاراجہ شیر سنگھ کے نام پر ایک اور معاہدے کے ذریعے دی گئی۔

مؤرخ کے ایم پانیکر نے اپنی کتاب ’گلاب سنگھ: فاؤنڈر آف کشمیر (کشمیر کے بانی)‘ میں اس معاہدے کی تفصیلات بتائی ہیں۔ کتاب میں پیش کیے گئے ان معاہدوں میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ ’چین کے بادشاہ، (تبت کے دارالحکومت) لہاسا کے دالائی لامہ اور کشمیر کے مہاراجہ کی دوستی ازل تک قائم رہے گی‘، اور زور دے کر روایات کے مطابق لداخ کی سرحدوں اور تجارتی سرگرمیوں کا احترام کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کشمیر اور تبت کیونکہ پنجاب اور چین کی تابع ریاستیں تھیں اس لیے ان کے حکمرانوں (مہاراجہ شیر سنگھ اور چین کے بادشاہ کو پابند بنانے کے لیے فوراً ہی ان کے نام پر بھی ایک معاہدہ کیا گیا۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان معاہدوں میں لداخ کی جن روایتی سرحدوں کی بات کی گئی ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعین سنہ 1684 میں لداخ اور تبت کے درمیان جنگ کے بعد ایک معاہدے میں کیا گیا تھا اور اس جنگ میں مغل فوجوں نے لداخ کی مدد کی تھی۔تاریخ میں بار بار دیکھا گیا کہ جو حکمران کشمیر پر قابض ہوئے انھوں نے لداخ کا بھی رخ کیا۔سُکھ دیو سنگھ نے ایک انگریز فوجی افسر میجر ہیئرسے کا حوالہ دیا ہے جنھوں نے کہا تھا کہ ’اگر کوئی دشمن کشمیر پر حملہ کرنا چاہے تو وہ لداخ کے راستے کر سکتا ہے اور سردیوں میں تو یہ کام اور بھی آسان ہو گا۔

سُکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ کشمیر فتح کرنے کے بعد مہاراجہ سنگھ کو بھی احساس تھا کہ اس کے دفاع کے لیے لداخ فتح کرنا ضروری ہے۔

لداخ انڈیا، چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارت کا مرکز

مؤرخ کے وریکوُ نے کتاب ’ہمالین فرنٹیرز آف انڈیا: ہسٹاریکل، جیو پولیٹیکل اینڈ سٹریٹیجک پرسپیکٹیوز‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کمشیر اور لداخ دونوں علاقوں کے شاہراہ ریشم، تبت، وسطی ایشیا، ژنجیانگ کے قریب ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے درمیان مال اور انسانوں کے تبادلے کا بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ لداخ ایک گزرگاہ تھی جہاں کچھ تیار کیا جاتا تھا نہ کسی مال کی زیادہ کھپت تھی۔

انھوں نے لکھا ہے کہ تبت کی لداخ اور کشمیر کے ساتھ تجارت سنہ 1684 کے معاہدہ تنگموسگانگ کے تحت ہوتی تھی جس میں تبت میں تیار ہونے والی شال-اون پر لداخ کو اجارہ داری حاصل تھی اور اس کے بدلے میں تبت والوں کو لداخ کے ساتھ ’برِک-ٹی‘ کی تجارت پر مکمل اجارہ داری دی گئی تھی۔ تبت سے آنے والی اون کشمیر جاتی تھی۔ تبت سے آنے والی چائے لداخ میں ہی استعمال ہو جاتی تھی۔تبتی اور ڈوگرا حکام کے درمیان اوپر ذکر کیے گئے سنہ 1842 کے معاہدے میں ان تجارتی رشتوں اور بندوبست کو قائم رکھنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔انھوں نے سنہ 1842 کے معاہدے کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ لداخی تاجروں کو تبت کے سفر کے لیے مفت ٹرانسپورٹ اور رہائش کا حق حاصل تھا اور بدلے میں یہی سہولیات تبت کے تاجروں کو ملتی تھیں۔

لداخ کے دولت مند کشمیری مسلمان

وریکو کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے تحت وقتاً فوقتاً لداخ سے لہاسا میں دالائی لامہ کے لیے تحائف بھی بھیجنے ضروری تھے۔ اس مذہبی مشن پر جانے والے مزدوروں کو تجارت کا مال لے کر جانے کی بھی اجازت تھی۔ اس کو ’لاپچک‘ مشن بھی کہا جاتا تھا اور سنہ 1842 میں لداخ کے پوری طرح جموں میں ضم ہونے کے بعد اس کی مذہبی اہمیت ختم ہو گئی تھی۔ اسی طرح تبت سے آنے والے کارواں کو ’چبا‘ کہا جاتا تھا۔

لاپچک‘ کی مذہبی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہ تجارت پیشہ ور تاجروں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو زیادہ تر لیہ میں آباد کشمیری مسلمان تھے جو اس کام سے بہت منافع کماتے تھے۔

وریکو نے اپنے مضمون میں ایسے ہی ایک تاجر حاجی نذر شاہ کا ذکر کیا ہے۔ وریکو نے سوین ہیڈن کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب وہ سنہ 1906 میں تبت جاتے ہوئے حاجی نذر شاہ کے گھر رکے تو وہ وہاں ’چاندی اور سونے کے برادے اور اہم پتھروں سے بھرے صندوق دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔‘ یہ سب مال تبت جانا تھا۔

وریکو لکھتے ہیں کہ ہیڈن کو معلوم ہوا کہ نذر شاہ کا لاپچک کی تجارت سے سالانہ منافع 25 ہزار روپے تھا۔ ’نذر شاہ اور ان کے خاندان کے تقریباً ایک سو افراد کو یہ ذمہ داری کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے سونپی گئی تھی اور اس وقت انھیں یہ خفیہ کام کرتے 50 سال ہو گئے تھے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ لیہ کو علاقے کے کارواں روٹوں کے نیٹ ورک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ وسطی ایشیا اور انڈیا سے تاجر اپنے کارواں لے کر گرمیوں میں آتے تھے اور خزاں میں واپسی کا سفر شروع کرتے تھے۔ ان تاجروں میں سب سے مقبول روٹ سرینگر لیہ یارکند روٹ تھا۔

ریکو لکھتے ہیں کہ ڈوگرا حکمرانی کے دوران لداخ اور تبت کے درمیان سالانہ لاکھوں روپے کی تجارت ہوتی تھی۔ ’اس تجارت کو سنہ 1950 میں تبت کے چین کا حصہ بننے کے بعد بڑا دھچکا لگا اور پھر سنہ 1959 میں تبت میں ہنگاموں کے بعد بالکل رک گئی۔

ہمالیائی تجارتی نیٹ ورک اور چین کو افیون کی فروخت

وریکو لکھتے ہیں کہ 19ویں صدی کے وسط میں کشتوار اور بوشہر میں بننے والی افیون مشرقی ترکستان کو ایکسپورٹ کی جانے لگی جہاں چینی تاجر اور سول اور فوجی حکام اس کو استعمال کرتے تھے۔

چین کی طرف سے سنہ 1839 میں افیون پر پابندی کے باوجود 210 من سالانہ تک یہ ڈرگ انڈیا کے تاجروں کی طرف سے چینی کسٹم حکام کے تعاون سے مشرقی ترکستان ایکسپورٹ کی جا رہی تھی۔

بلتستان اور لداخ

یہ وہ زمانہ تھا جب ہر برس بڑی تعداد میں بلتی سارا سال لیہ آتے تھے۔ وریکو لکھتے ہیں کہ یہ بلتی اپنے ساتھ خوبانی، خوبانی کا تیل، مکھن، انگور، بادام، برتن، چائے کے برتن اور گرم کپڑے لاتے تھے۔ واپسی پر یہ لوگ لداخ سے انڈیا کی کاٹن، سونے اور چاندی کے دھاگے، چائے، یارکندی چمڑے کی مصنوعات وغیرہ اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔بلتستان سے ہر سال 400 سے 500 من خوبانی تبت پہنچتی تھی اور سنہ 1870 کے بعد یہ مقدار 1500 من ہو گئی تھی۔بہت سے بلتی کچھ برسوں کے لیے مزدوری کرنے جموں، پنجاب یا یارکند (چینی ترکستان) تک بھی سفر کرتے تھے۔وریکو نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سنہ 1840 کی دہائی میں لداخ میں سالانہ ساڑھے سات لاکھ روپے کی تجارت ہوتی تھی۔انھوں نے اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہوئے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس خوبصورت تاریخ کو یاد کرنے اور ان بھرپور رابطوں کو دوبارہ بحال کرنے کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ’ایک بار پھر ہم اس طرح کے میل ملاپ سے فائدہ اٹھا سکیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.