اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انوارِ سیرت (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کا تذکرہ مسلمانوں کے ایمان کے لئے بمنزلہ پانی ہے جس طرح پانی سے زمین سرسبزوشاداب بن کر مخلوق کے لئے فائدہ مند بن جاتی ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کے تذکرہ سے اہل ایمان کے ایمان کو جِلا ملتی،ایمان میں طاقت آتی ہے،ایمان بڑھتا ہے، جس سے عمل کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،گناہ معاف ہوتے ہیں درجات بلند ہوتے ہیں اور ایسا شخص دوسروں کے لئے بھی باعث خیروبرکت بن جاتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ایمان کی جڑ اور بنیاد ہے،مسلمان اس وقت تک کامیاب رہیں گے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامن سے وابستہ ہوں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ قرآن پاک کی عملی تصویر ہے،قرآن پاک متن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تشریح ہے،قرآن پاک اجمال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کی تفصیل ہے،یہ دنیا کی ایک رسم ہے کہ محبو ب کو اچھے خوبصورت اور پیارے نام والقاب سے پکاراجاتا ہے،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے بڑی محبوب ہستی ہیں،آپ کے نام والقاب بھی اسی قدر محبوب اور پیارے ہیں،قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی خاتم الانبیاء حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کونہایت ہی خوبصورت اور پیارے ناموں سے پکاراہے،قرآن پاک میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشہور نام 7 ہیں (۱)محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲)احمد صلی اللہ علیہ وسلم (۳)یٰس صلی اللہ علیہ وسلم  (۴)طٰہٰ  صلی اللہ علیہ وسلم (۵)مدثر صلی اللہ علیہ وسلم (۶)مزمل صلی اللہ علیہ وسلم (۷)عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم،قاضی عیاض کے مطابق قرآن پاک میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو اسماء الحسنیٰ استعمال ہوئے ہیں ان کی تعداد تیس ہے،مشہور عالم دین اور علم فلکیات کے ماہرمحدث کبیر حضرت مولانا محمدموسیٰ خان روحانی بازیؒ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ سواکیس(521)اسمائے گرامی پر مشتمل منظوم عربی رسالہ ”القصیدۃ الحسنیٰ فی اسماء النبی العظمیٰ ﷺ“کے نام سے لکھ عشق ومحبت کاانوکھا مظاہرہ کیا ہے،سندھ کے مشہور عالم بارھویں صدی ہجری کے محدث مولاناسید محمدہاشم ٹھٹھویؒ نے اپنی کتاب ”حدیقۃ الصفافی اسماء النبی المصطفیٰ ﷺ“میں ایک ہزار ایک ستتر(1077)اسمائے مبارکہ کااحاطہ کرکے ایک نئی مثال قائم کی ہے،دیگر قدیم وجدید اہل علم نے اس موضوع پر گراں قدر تصانیف لکھ کر امت مسلمہ کو قابل قدرسرمایہ فراہم کیا ہے،میرا موضوعِ سخن ”اسماء النبی اور انوار سیرت یعنی سیرت النبی ﷺفی ضوء اسماء النبیﷺ“نامی کتاب ہے جوحال ہی میں منصہئ شہود پر جلوہ افروزہوئی ہے،یہ ہمارے مخدوم مکرم جناب پروفیسر ڈاکٹر نورحبیب صاحب سابق پرنسپل ڈگری کالج اوگی ضلع مانسہرہ کی کاوشوں کا مجموعہ ہے،موصوف اوگئی کے مضافاتی گاؤں پیرپٹہ کے ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،وفاق المدارس العربیہ سے شہادۃ العالمیہ،پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کی ڈگری ہولڈر ہیں 2008ء میں بحرالعلوم سیدامیر علی ملیح آبادی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کی تفسیر”مواہب الرحمن“ پر تحقیقی کام کرکے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرچکے ہیں،1989ء میں خیبرپختونخواہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اسلامیات کے لیکچررکے طورپر تعینات ہوئے اور کمیشن کے تحت مختلف کالجزمیں تدریسی ذمہ داریاں نبھاتے رہے،آخرمیں گورنمنٹ ڈگری کالج اوگی سے پروفیسر اور پرنسپل کی حیثیت سے وابستہ رہے 2018ء میں ریٹائرڈ ہوئے،آپ نے اپنے دورمیں ڈگری کالج اوگی سے ”اگرور“نامی ایک تحقیقی مجلے کا اجراء بھی کیا تھا،موصوف علمی اورتحقیقی ذوق رکھنے والے صاحب قلم مردِ قلندرہیں،حضرت شیخ الہندکے نظرئیے اور فکر سے تعلق رکھتے ہیں،آج کل تصنیف وتالیف پر تمام ترتوجہ مرکوزکئے ہوئے ہیں، زیرنظرتالیف ”آسماء النبی ﷺاور انوارِ سیرت“ان کی تازہ تالیف ہے،جس میں انہوں نبی کریم ﷺکے 99 اسمائے مبارکہ کے معنی،تشریح اور ان کے متعلق ضروری مباحث کو قلم بند کیا ہے،آنحضرت ﷺکے اسماء مبارکہ علم وعرفان کے بحربے کنار ہے جس میں ماہرین علم ومعرفت نے غوطے لگاکر بیشمار موتی نکال کر قارئین کے سامنے رکھے ہیں،ڈاکٹر صاحب نے بھی اس سمندر میں غوطہ زن ہوکر بے شمار موتی نکال کر صفحہ قرطاس پر منقش کئے ہیں،اسم گرامی ”اُمِّیْﷺ“کے تحت قاضی سلمان منصورپوری کے حوالے سے لکھتے ہیں ”اہل سیرت جانتے ہیں کہ حضورﷺکو النبی الامی،کے لقب سے یاد کیاجاتا،بلایاجاتا،اور حضور ﷺاسی طرزِ خطاب سے خرسندومسرور ہواکرتے تھے،اب اہل زمانہ کا حال دیکھوکہ جونہی کسی شخص کو ذراشُدبُد کہنے کی لیاقت ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو فاضل،اکمل،الوذعی،المعی،علامہ ]اور اب تو گلی گلی میں ہرشخص شیخ القرآن،غزالی دوران،قیوم زمان،خطیب اسلام،مقررشغلہ بیان[وغیرہ الفاظ سننااور کہلاناپسند کرتا ہے اور ہر ایک صاحب قلم وزبان آورکا  فطری خاصہ ساہوگیا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اصلیت سے بڑھ کر اس کے علم وفضل کا اندازہ لگایاجائے لیکن ایک سیدنا حضرت محمدﷺہیں،جن کو ہر وقت ناخواندگی کا اعتراف اور اُمی ہونے کا اقرارہے،اس اعتراف واقرار پر بھی ہزاروں علماء، سینکڑوں  فلاسفرحاضرہوتے،زانوئے ادب تہہ کرتے اور اقرار کرتے کہ ان لوگوں کا علم وفہم اور حضور ﷺکا عرفان قطرہ وقلزم کی مثال رکھتے ہیں،غور کرو کہ جو شخص دنیا میں کسی کا شاگرد نہیں بنا وہ تمام دنیا کااُ ستاذبناہواہے،محاسن اخلاق،محامداعمال،تدبیرمنزل،سیاستِ مدن،اقتصادیات،سیاسیات،عمرانیات کے دروس اور دماغ کو روشن،قلب کو مجلی،روح کو منور بنانے والی تعلیم دے رہاہے،اس کی درسگاہِ اقدس کے دروازے کبھی بندنہیں ہوتے،وہاں داخلہ کی کوئی فیس نہیں ہے،وہاں ایک صحرانشین اور ایک شہری،ایک فلاسفر اور ایک بدوی پہلوبہ پہلو بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک ہی وقت میں اپنی اپنی استعدادوقابلیت کے موافق مستفیض ومستفید ہورہے ہیں.
،اسم گرامی ”کامل ﷺ“کے ذیل میں لکھتے ہیں ”امام الہندمولاناابولکلام آزادؒ کے درج ذیل بیان سے جہاں آپ ﷺکی کاملیت عیاں ہورہی ہے،وہاں انہوں نے مسئلہ حیات النبی کو اشارات وکنایات کے پیرایہ میں ایک منفرد اندازمیں حل کرکے ”عبدِکامل ﷺ“کی اس حیاتِ جاوداں کو انسانیت کے لئے ناگزیر اور اردوادب کے لئے شہ پارہ بنادیاہے ”دنیا اپنی ہدایت کے لئے اگر کسی انسان کے آگے جھک سکتی ہے تو اس انسانیت کبریٰ وعبدیت اعلیٰ وبشریت واحدہ کے سوا اور کون انسان ہے جس پر آنکھوں سے دیکھنے والوں کی طرح ہمیشہ یقین کیا جاسکتا ہے اور جس پر ایمان لانے کے لئے پچھلی امتیں اور نسلیں بھی پہلوں کی طرح قطعی ویقینی روشنی رکھتی ہیں،پھر جس کی سیرت وحیات قیامت تک کے لئے اس طرح محفوظ وثبت کردی گئی ہو،علاوہ ان نقوش غیرفانی کے جوصفحات عالم پرثبت ہیں اور جس کی زندگی کے وقائع طیبہ کو اسی طرح سورج کی دائمی روشنی اور ستاروں کی یکساں سیروحرکت کے دامن سے باندھ دیاہو،کیوں نہ اس خاکدان جسم وزمان میں اس کی موت وحیات یکساں ہو اور کیوں اس کی دائمی حیات وقیام کے عقیدے سے انسان کے تاریک دلوں کو انکار اور غافلوں کو گریز ہو….پھر انسان کامل اور روح اعظم اور نفس واحدہ اور اور قلم الاعلیٰ اور نورالانواراور نفس الکائنہ سے بھی اسے تعبیر کیاگیا کہ بہ لحاظ بقائے ذکر ودوام فیضان وحیات وہی ایک انسان کامل،روح اعظم اور نفس واحدہ والکائنہ ہے،اسم گرامی ”خاتم النبیین ﷺ“کے تحت ختم نبوت کے متعلق مکمل ومدلل بحث کی گئی ہے،کتب حدیث کے تمام حوالہ جات کے ساتھ ساتھ دجالِ قادیاں مرزاقادیانی کے دجل وفریب کاپردہ چاک کرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کے تاریخی تسلسل پر بھی کافی وشافی روشنی ڈالی گئی ہے،الغرض پروفیسر صاحب کی کتاب سیرت نبوی ﷺپرایک اچھی کوشش اور قابل صدمبارکباد کاوش ہے،۸۵۳صفحات پر مشتمل سیرت النبی ﷺکے موضوع پر عشق نبوی ﷺسے لبریز عشاق رسول ﷺکے لئے انتہائی اہم کتاب ہے،دارالنوادر لاہور سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.