باجوڑ ، مہمند کا تنازعہ اور تاریخی حقیقت

0

تحریر: شیخ جہانزادہ ، باجوڑ

تاریخی اوراق اور تاریخی طوفانوں میں دنیا کے ہر قوم اور قبیلہ اپنا ایک حق ملکیت اور تصرف رکھتی ہے۔ کبھی کبھار تو ایک دوسرے پر حملہ آور بھی ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس کا نتیجہ شر و فساد اور نقصان پر مکمل ہوگیاہے، جیسا کہ پشتوکا ایک کہاوت ہے کہ پہاڑ چاہے کتنا بڑا ہو اس کے بلندی پر بھی راہ ہوتی ہے۔ جبکہ تاریخ نے بھی ایسے لوگوں کو ظالم، حملہ آور کے نام سے یاد کیاہے۔پختون کے تاریخ میں بھی ہزاروں سال سے ہر قبیلی کا اپنی زمین اور جگہوں کا تعین اور حدود متعین ہے، ہر چھوٹے بڑے اختلاف، مسائل کے حل کے لئے ہمارے تاریخ کے سینے میں لکھی ہوئی قانون پختون کا رسم ورواج موجود ہے، اسی طرح اس علاقے میں حق و باطل کو معلوم کرنے کیلئے اسلام کا قانون بھی چمکتاہوا سورج کے مانند ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتاہے کہ پختون کبھی بھی بغیر قانون کے نہیں رہے۔ یہاں مظلوم کے فریاد رسی ہوئی ہے جبکہ ظالم کے ہاتھ کو پکڑا گیاہے۔ لیکن پٹھانوں کی بدبختی یہی رہی ہے کہ انہیں خودغرضی، حسد اور جہالت کے اندھیروں میں رکھا گیاہے اور اغیار اور دیگربیرون قوموں نے ان پر پرائی جنگوں کو مسلط کیا، پٹھان انہیں بے فائدہ جنگوں اور حملوں کا ایندھن بنے رہے۔ اگر چہ ان کے سمجھدار اور زیرک بزرگوں نے وقتا فوقتا ان کو سوچ اور فکر سے کام لینے کا کہا ہیں اور ان کو امن و سلامتی کی طرف نصیحت و وصیت کی ہیں۔ لیکن افسوس کہ پختون اکثر کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں، پھر مچھر کی طرح افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے اور کہتے ہیں کہ جو عقل بعدمیں آتی ہے وہ پہلے انی چاہیے تھی۔
باجوڑ اور مہمند کے پٹھان کئی سو سال پہلے سے ایک دوسرے کے ساتھ متصل واقع ہیں۔ ایک مذہب ایک قوم اور متصل ہمسایہ جیسے رہتے ہیں۔ دونوں علاقوں کے باشندوں کوبے روزگاری، کم علمی اور بدامنی اور معاشی بدحالی کی وجہ پچاس فیصد لوگ سفر میں اپنے زندگیاں گذار رہے ہیں۔ کاش یہ دونوں اپنے مشترکہ مسائل کے حل کے لئے ایک ہوئے تھے اور دونوں نے اپنے مشترکہ مسائل کو حل کرتے۔
چند دن پہلے مہند کے بعض عناصر نے بغیر تحقیق اور کچھ خاص مقصد کے اپنے کارندوں کو باجوڑ کے ناوگئی کے جغرافیائی حدود میں داخل کرائے،اور لوگوں کے گھروں کے سامنے انہوں بدامنی اور انتشار پھیلایا، جبکہ باجوڑ پشاور قومی راستے (روڈ) کو تیرہ دن تک مسلسل بند کررکھا جس کی وجہ سے مسافر و بیمار لوگوں کا تکلیف میں سفر طے کرنا پڑا۔ سارا دن مہمند کے اراکین اسمبلی، علماء اور قوم کے بڑے غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے رہے اور لوگوں کو انتشار پر ابھارتے رہے، ان کے تقاریر اور کہنے میں سوا اختلافات تضاداور تذبذب کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ کوئی فائدے کے بات تو تھی نہیں البتہ آگ کے چنگارے کو تیز کرنے کا کام انہوں نے خوب کیا۔باجوڑ کے طرف سے ان کے ساتھ کوئی زیادتی بھی نہیں ہوئی ہے لیکن پھر بھی مہمند کے لوگ زبردستی کررہے تھے۔ حالانکہ باجوڑ،مہمند سمیت پوری دنیا میں کرونا کی وبا نے سب کواپنے لپیٹ میں لیا ہے، پھر کیوں مہمند کے بعض لوگ اس حساس وقت میں باجوڑ کے علاقے پر قبضہ کے ناکام کوشش کررہے ہیں۔جبکہ دونوں طرف سے انتظامیہ نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اسی غفلت کی وجہ سے اہلیان باجوڑ بھی ناوگئی کے مقام پر پُرامن جمع ہوئے اور اپنے قوم کو پُرمغز خطابات سے سمجھایا اور مہمند قوم کو خبردار کیا کہ اب بے بنیاد دعوں بے جا الزامات اور زبردستی سے باجوڑ کے حدود کو قبضہ کرنے کا وقت نہیں ہے، اس احتجاج میں باجوڑ کے عوام نے کوئی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا نہ کوئی توڑپھوڑکی اور نہ ہی روڈ کو بند کیا، سیاسی جدوجہد کی وجہ سے کالا قانون ایف سی آر ختم ہوچکاہے اب کوئی اگر کسی اور کے جگہ پر قبضہ کرناچاہتاہے تو عدالت کے راستے سے طویل جدوجہد کرکے لمبی عرصے کے بعد قبضہ کرکے اس جگہ جاسکتاہے۔ کہاجاتاہے کہ جو پرندہ بادمخالف کی طرف جاتاہے وہ اپنے پروں کو توڑوادیتاہے۔
باجوڑاور مہمند کے لوگوں نے مشترکہ انگریزوں کے خلاف نحقی، کڑپہ اور شبقدر کے مقام پر جہاد کرکے اپنے سروں کی قربانی دیکر ایک طرف جہاد جیسا عظیم فریضہ اسلامی کو سر کیا تھا تو دوسرے طرف مہمند کے علاقے کو چالاک انگریزوں کے قبضے سے محفوظ کیا تھا۔ لہذا مہمند کے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ باجوڑ کے قربانی کو یاد رکھے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر شدید وقت میں سخت ترین مقام باجوڑ والے کو حوالہ کیاجاتاتھا۔
جس وقت مہمند کے چند لوگوں نے باجوڑ کے علاقے کو قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا عین اس وقت مہمند کے بعض سنجیدہ اور قابل ترین لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اپنے چھوٹوں کو نہ تو کوئی نصیحت کی اور نہ ان کو اس انتشار اور غلط کام سے روکے رکھا، جبکہ باجوڑ کے بڑوں نے مہمند کے لوگوں کو دعوت دی کہ اپنے پرانے روایات کو یاد کریں اور اگر کچھ دعویٰ ہے آپ کا تو ثبوت کے ساتھ باجوڑ کے جرگے، شریعت یا ملکی قانون کے سامنے لائیں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ چند دن انتظار کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور مہمند کے لوگوں کو زبردستی مین سڑک کو خالی کرایا، اگر مہمند والے باجوڑ کے بڑوں کی بات مانتے تو عزت میں رہ جاتے۔
باجوڑکے جرگے نے یہ اعلان کیا کہ اگر مہمند کے لوگ اپنے بغاوت سے باز نہیں آئے تو ہم اپنے تاریخ دوبارہ زندہ کرکے ایک ایسا حملہ کریں گے کہ دروازگئی کے مقام پر اپنا علاقائی جھنڈا لہرا کر دم لیں گے، لیکن باجوڑ کے بزرگوں نے ان کواس حرکت سے منع کیا اور کہا کہ اقوام باجوڑ اوراقوام مہمند بھائی ہیں اور بھائیوں کے درمیان اس طرح اختلافات اتے رہتے ہیں ہم جرگہ اور اپنے روایات کو برسرکار لاکر یہ مسئلہ حل کریں گے، کسی قسم کے انتشار اور اختلاف کی ضرورت نہیں ہے ہمارے اور ان کے حدود متعین ہے جو اونچ نیچ ہے اس کو جرگے کے ذریعے حل کریں گے۔ کسی قسم کے افراتفری کی ضرورت نہیں ہے۔خوش قسمت قوم کو اسی وقت پختون بھائی شاجی گل کے سربراہی میں آفریدی قوم کا ایک معزز جرگہ پہنچ گیا، جنہوں نے دونوں فریقوں سے مذاکرات کی اور بالآخر یہ بات طے ہوئے کہ دونوں فریقین مذکورہ جرگے کو مکمل اختیار دیں گے اور جو فیصلہ انہوں نے کیا وہ فریقین کو بے چون و چرا کے قبول ہوگا، جرگہ والے ثبوتوں تحقیق اور شریعت کے مطابق حدبندی کری گی تاکہ ہمیشہ کیلئے یہ حسد وکینہ ختم ہوجائے۔ اور دونوں علاقے کے لوگ آرام اور پُرسکون زندگی گذار سکے۔ افسوس کہ دنیا کے لوگ جہازوں کو اڑاتے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔
باجوڑ کے حدود معلوم اور ظاہرہیں، جیسا کہ میدان تروکہ، اسمار، سرکانڑو، سوری تیگہ، سور کمر اور پخہ دروازگئی ظاہری حدود تھے۔ باجوڑ میں نوابی مرکز ناوگئی تھا، شینواری اور صافی قوموں کے مقامات قندہاروں، سوران، کرکنڑوشاہ اور دویزو تک نواب کے زمانے حدود کا پھیلاوتھا۔ مہمند کے بہت سے علاقوں سے عشر لیاجاتاتھا، ناوگئی خان کے ہدایت پر مہمند کے بزرگ اپنے قومی مسائل حل کرتے تھے، خان اور عوام ایک جگہ فرش پر بیٹھتے تھے مثالی دور تھا، مظلوم کی فریاد سنی جاتی تھی، اور ظالم سے بازپرس کیاجاتاتھا۔ نواب صفدرخان اپنے اردگرد لوگوں سے اچھے برتاو رکھتے تھے، سیّد، میاں، مولا کا بڑا احترام کیا جاتاتھا، اور سیرئی کے نام سے ان کو زمین بھی دی جاتی تھی۔ بدقسمتی سے قندہارو کے کریزمقام پر ان کے بیٹے مندالی خان نے ستر لوگوں کو قتل کرڈالا، جس کے بعد مندالی خانی کے نام سے لشکر وجود میں ایا، جس کو بعد میں اردگرد کے لوگوں کے مشورے سے ان کا دوسرا بھائی احمدجان خان کو چہارمنگ سے واپس کیا اور ناوگئی کے خان کے منصب کو احمدجان خان نے سنبھالا، دوسرے طرف خار کے نواب محمدجان خان نے احمدجان خان کے ساتھ پورے تیرہ سال تک اختلاف و جھگڑے جاری رکھے اور بندوق کے طاقت پر لاشوڑئی سے پیوری تک علاقے کو قبضہ کیا، ناوگئی اور خار کے لڑائی غلوغنڈ جنگ کے نام سے یاد کیا جاتاتھا غلوغنڈایک پہاڑہے جو کہ ناوگئی کے کالونی کے اوپرہے۔
ایک پکی اور تاریخی بات یہ بھی ہے کہ خار کے نواب پرینگی یعنی انگریز کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا کہ ناوگئی اور مہمند کا علاقہ میں قبضہ کرکے اپنی ایک ریاست بناؤں گا جس کو انگریز بھی تسلیم کریں گے اور ساتھ ساتھ تعاون بھی کری گی۔ لیکن اس کے مقابلے میں مومند، صافی اور شینواری اقوام کے لوگوں نے خار کے نواب سے بچنے کے لئے علینگار فقیر اور حاجی ترنگزو صاحب کے بیٹے پاچاگل صاحب کے سربراہی میں خار کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور ان کے ساتھ مالی و جانی تعاون جاری رکھااور قربانیاں دی جس کی بدولت خار نواب اور پرینگی کے سازشیں اور منصوبے ناکام ہوئے آخر کا سن 1937؁ء میں سخت ترین جنگ کے بعد سلازرو اور ماموند کے لوگوں نے خار اور ناوگئی کے لے زوربندر کے مقام کو حدبندی مقرر کیا۔ صافی شینواری اور مومند کے لوگ صرف مددگار تھے اس لڑائی اور حدودبندی میں، انہوں نے کبھی بھی خار نواب کے ساتھ زوربندر کے حد کو مقرر نہیں کیا۔
جس دور میں احمدجان خان کے بیٹے معصوم جان خان ناوگئی کے سربراہ تھے اور اپنے حکومت چلارہے تھے تو ناوگئی کے علاوہ شینواری،ساگی، کوزچمرکنڈ، علینگار اور شیخ بابا کے لوگ صافی،مسعود گربزواور مومندکے کوڈاخیل قوم کے ساتھ سفیروں کے ذریعے باقاعدہ تعلقات جاری رکھئے ہوئے تھے، اور حکومت کے ساتھ مشورے کرتے تھے، کسی قسم کا گلہ و شکوہ نہیں تھا، لیکن جب 1960ء میں خار کے جانب سے ناوگئی میں حکومت پاکستان نے اسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ اور ملیشا کے جوانوں کو داخل کیا تو صافی، شینواری اور مومند کے بڑوں کو ناوگئی کے خان سے سخت ناراضگی ہوئی کہ آپ نے حکومت لانے میں ہمارے ساتھ بالکل مشورہ نہیں کیا،تو کہاجاتاہے کہ اسی وجہ سے ناوگئی کے خان اور مامدگٹ تک لوگوں کے تعلقات خراب ہوئے۔چنانچہ حالات اورموقع کے مطابق ناوگئی کے لوگوں کے رائے یہی تھی کہ شکوہ و شکایت اپنوں سے کیا جاتاہے،اور اس کو جرگے کے ذریعے ختم کیا جانا چاہئے اور اسی وجہ سے خزینی ورسک کے مقام پر ایک جرگہ بھی ہوا، کیونکہ ناوگئی اور مہمند کے لوگوں کے درمیان بہت سے قرابتیں اور تعلقات تھے اور لمبی عرصے سے ان دونوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم تھیں۔ سخت ترین حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مدد و تعاون کرتے تھے، دونوں طرف سے لوگ ایک دوسرے سے تعارف، رشتہ داری اور انا جانا رکھتے تھے، اگر چہ مہمند، شینواری ناوگئی کے شریک دار و حصہ دار تو نہیں لیکن ان کے اس اعتراض میں وزن ہے یعنی یہ شکایت سننے کے قابل اور عمل کے قابل ہے۔ اور اسی طرح شکوہ شکایت اپنوں سے کیاجاتاہے نہ کہ پرائیوں سے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ چند بے وقوفوں نے ناوگئی خان کو ورغلالیا کہ اگر آپ ان قوموں کے پاس جائیں گے تو آپ کی عزت کم ہوجائی گی اور آپ کو وہ لوگ کمزور سمجھیں گے۔ اسی وجہ سے معاملہ جوں کے توں رہ گیا۔ موجودہ وقت میں بھی مہمند قوم کے دعؤں اور غصے کا بنیادی وجہ یہی ہے جو حکومت پاکستان کے ناوگئی آتے وقت پیدا ہوئے تھے۔ بہت تحیر سے کہتے ہیں کہ پاکستان کے حکومت بننے کی وجہ سے ناوگئی کے قوموں کو بے تحاشہ طورپر نقصان پہنچا تھا۔ لیکن پھر بھی حکومتی عہدیدار لوگوں کے کسی قسم کا احساس نہیں ہے اور نہ ریکارڈ، کم ازکم آج بھی حکومتی عہدیدار اگر حالات کا صحیح جائزہ لیکر علاقے کو پیش امدہ مسائل کا فوری حل نکالے تو دیرآیددرست آید کے مصداق بنے گا۔

بدقسمتی سے یہی حالات جوں کے توں جاری تھے، دونوں اقوام کے درمیان تعلقات خراب ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ مہمند کے علاقے میں ناوگئی کے خلاف جرگے اور منصوبے شروع ہوئے اور ان جرگوں اور منصوبوں میں مہمند اقوام کے ساتھ ناوگئی کا ایک فرد بھی شامل تھا، جو دن دہاڑی کھلم کھلا ناوگئی کے لوگوں اور ناوگئی کے زمینوں کو نقصان پہنچاتاتھا، ناوگئی کے عوام اور خان کیسے یہ سنگین غداری بھول جائیں گے۔1969؁ء میں صافی، شینواری اقوام نے ناوگئی کے عام لوگوں کے خلاف جنگ شروع کردیا جس میں ناوگئی کے بڑے کارآمد لوگ قتل ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ بہت سے گھروں کو جھلادیاگیا، غریب لوگوں کے زمینوں کو ناجائز طریقے سے بنجر کیا گیا جو آج بھی مامدگٹ کے اس پاس بنجر پڑی ہے۔ اس کام کے مجرمین دنیا و آخرت میں اس جرم کا جواب دیں گے۔علاقے میں یہ جنگ ناوگئی کے ڈاگ کے جنگ کے نام سے یاد کیا جاتاہے اس جنگ میں صافے قوم کے لوگوں کو بہت سے مالی و جانی نقصانات اٹھانا پڑا۔غرض یہ کہ یہ اختلافات آج تک جاری ہے اور حکومت کے عہدہ دار صرف تماشہ کرتے ہیں۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے مہمند کے سول انتظامیہ اور فوجی افسران نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا کہ مامدگٹ (خکاریزی) کے مقام پر ناوگئی کے لوگوں سے بغیر پوچھ کر ناوگئی کے زمین پر زبردستی کیڈٹ کالج بنایا، ناوگئی کے عوام اور متاثرین جائداد نے سینکڑوں بار سول انتظامیہ اور فوجی افسران کو شکایت کی اور احتجاج ریکارڈ کروایالیکن کسی نے بھی مظلوم کے فریاد نہیں سنی اور ان کے سینکڑوں ایکڑ قیمتی زمین کو کالج نما چھاونی کے نام سے حکومت نے غیر قانونی طریقے پر قبضہ کیا ہے۔ جس کا آج تک نہ کوئی معاوضہ دیا گیا ہے نہ نوکریاں اور مراعات وغیرہ اپنے حقداروں تک پہنچا۔ باجوڑ کے لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ مذکورہ کالج چونکہ باجوڑ کے زمین پر بنایاگیا ہے تو اس کو باجوڑ کے نام سے منسوب کیا جائے اور یا اس کو عظیم مجاہد حاجی ترنگزئی صاحب کے نام سے منسوب کیاجائے۔ اور علاقے کے طلباء کے لے مذکورہ کالج میں ہمیشہ کے لئے تعلیم کو مکمل مفت کیاجائے، اگر ایسا نہ کیاگیا تو سارے اختلافات اور نقصان کا ذمہ دار حکومت ہوگا، لیکن حکومت کے صاحب اختیار لوگ دونوں علاقوں کے عوام کو اختلاف میں پھنساکر خود تماشہ کرتے ہیں۔
زوربندر سے مامدگٹ، چینار چلو، کوگ پانڈ اور گونگٹ کے جوہڑ تک زمین ناوگئی کے خان عبدالقیوم خان اور ناوگئی کے عوام کے ملکیت اور تصرف میں کئی سالوں سے ارہی ہے، ناوگئی کے حدود میں شینواری، صافی اور مومند کے اقوام کا ایک بالشت زمین بھی نہیں ہے۔اگر کسی نے ان حدود میں کوئی زمین خریدی ہو قیمت پر وہ ہوگی۔ وہ تو یا ناوگئی کے خان سے یا عوام سے قیمت پر خریداہوگا۔ مامدگٹ کے مقام پر گریڈسٹیشن اور تھوڑے فاصلے پر ملیشا (FC)کیمپ بھی ناوگئی کے زمین پر بنایا گیاہے۔ مامدگٹ سے ناواپاس تک روڈ گونگٹ جھوڑ تک بھی ناوگئی کے زمین پر بنایاگیاہے۔ جس کا آج تک ان کو معاوضہ نہیں دیاگیاہے، حکومت کے عہدیدار کو اس پر خاموش نہیں ہوناچاہے۔ صرف اسٹیٹ بینک سے تنخواہ لینے کے حد تک کھاتہ محدود نہیں ہے۔ عوام کا دیانتداری سے خدمت کرنا اور ان کو ان کے حقوق پہنچانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ اگر باجوڑ کے لوگ دروازگئی کے میشتہ مقام تک لوگوں سے اپنے قبضہ شدہ زمینوں کے بارے میں پوچھے تو کسی کے ساتھ بھی مکان اور جائیداد کا ثبوت نہیں ہے۔ مہمند کے بھائیوں کو چاہے کہ باجوڑ کے لوگوں سے ٹکر نہ لیں اور ان سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ وقت اور حالات پشتونوں کوآپس میں لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔علاقائی اور ملکی امن کو توجہ دیں اور جو لوگ ان کو ناوگئی کے خلاف بھڑکا رہے ہیں ان کو بھی اپنے اس کام سے باز انا چاہئے۔ اس وقت سماجی، سیاسی اور ثقافتی ترقی اور سنجیدہ پن کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ مہمند کے لوگ اپنے تاریخ کو یاد کرکے اپنے روایات کے پاسداری کریں گے اور جو لوگ ان کو بے جا اور فضولیات میں الجھانا چاہتے ہیں ان کے باتوں میں نہیں آئیں گے ان کے اس طرح بے مقصد و بے فائدہ باتوں کو نہیں مانیں گے۔ آپنے آپ کو جنگ اور اختلافات سے بچاکر رکھیں کیونکہ یہ وقت پٹھانوں کے اتحاد و اتفاق کا ہیم بے مقصد کاموں میں الجھنا دانشمندی نہیں ہے۔ باجوڑ کے لوگ شرافت اور فراخ دلی کو کمزوری نہیں سمجھیں۔
یہ بات بھی واضح ہو کہ حکومت نے از خود دربنڑوکے مقام پر پھاٹک بنایا ہے جو نہ ناوگئی کے لوگوں کے مرضی اور نہ ان کے مشورے پر، کیونکہ اس سے آگے مامدگٹ تک باجوڑ کے لوگ اباد ہیں ان کے گھر اور مکانات موجود ہے، ایسا ہی حکومت نے لکڑو کے مقام پربھی اپنے مرضی سے پھاٹک بنایا ہے جبکہ صافی قوم کے زمین اور مکانات مامدگٹ تک موجود ہے۔ جیسا کہ باجوڑکے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہماری زمین دروازگئی کے مقام تک ہے اگر مہمند کے بعض لوگ جو عوام کو اختلافات پر ابھارنا چاہتے ہیں تو اس کام سے باز نہیں آئیے تو یاد رکھیں کہ باجوڑ کاایک فرد بھی اس دعویٰ سے پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑے گا۔
باجوڑ کے تاریخی علاقہ ناوگئی تاریخ میں ایک الگ مقام رکھتاہے یہاں کے لوگ، کیتھی باڑی اور مزدوری کے علاوہ تجارت میں مصروف رہتے ہیں، جبکہ یہاں کے پہاڑیں قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے، جو کہ باقاعدہ ایک منظم سروی کے محتاج ہے ناوگئی کے مخصوص قوم کے بارے میں یہ بات بھی ظاہر کرتے ہیں، کہ جب کسی ظالم یا تخریب کار سے جرمانہ وصول کیاجاتا تھا تو روایات یہ ہیں کہ اس میں شینواری قوم کا ایک حصہ، صافی قوم مسعوداور گریز قوموں قندہاروں تک دوحصے جبکہ چھوتا حصہ ناوگئی کے قوم کا ہوتاتھا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ناوگئی نے اپنا تشخص اپنا حصہ ہر قوم میں برقرار رکھاہے۔ کوئی ان پر کسی قسم کا احسان نہ جتلائے، ناوگئی نہ تو کسی اور پر حملہ آور ہوکر ان کے حق کھاتاہے اور نہ اپنا حق کسی کو مارتے دیتاہے، ناوگئی کے مرد وعورت ہر وقت اپنے زمین و جائیداد کے حفاظت کے لئے تیار ہیں۔کوئی بھی ان کمزور سمجھ کر نظراور دباؤ نہ ڈالیں۔
موجودہ وقت میں آفریدی کے قوم کے جرگے کو مکمل اختیار اور ذمہ داری دی گئی ہے ہماری تجویز یہی ہے کہ باجوڑ اور مہمند کے اقوام ان کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں اور جرگے والے مامدگٹ کو فاصل اور حد بندی کے مقام بنایں اور دونوں اقوام کو مزید اختلافات سے باز رکھیں جبکہ حکومت کو چاہئے کہ مامدگٹ کے مقام پر ایک بڑا دروازہ بنایے جہاں مہمنداور باجوڑ کے لوگ ایک دوسرے کو خوش آمدید اور فی امان اللہ کہہ سکے اس دروازے پر مہمنداور باجوڑ زندہ باد لکھنا چاہئے۔مہمند اور باجوڑ کے عوام کو چاہئے کہ زندگی کو بھائیوں جیسا گزاریں، آج کا دور امن سیاست، معیشت اچھے تعلقات اور ترقی کا ہے، ہمیں چاہئے کہ نفرتوں اور حسدوں کو چھوڑ کر امن و محبت والا زندگی اپنائیں۔ سارے پشتون علاقے اور خصوصا باجوڑ و مہمند کے علاقوں کو جنگ، انتہاپسندی، دہشت گردی اور فوجی آپریشن نے بہت متاثر کیاہے، نظام زندگی مکمل طور پر بیٹھ گئی ہے، جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں اور گھروں، بازاروں، مساجد، مدارس و سکولوں کو تباہ کیاگیاہے، ان سب نقصانات میں بعض غلطیاں ہمارے اور بعض حکومت کے غلط پالیسی کی وجہ سے، جس میں ہمارے بزرگوں سیاسی و مذہبی راہنماؤں کو ایک ایک کرکے بے دردی سے شہید کیاگیاہے۔اب جب حالات ایسے ہو کہ قوموں کے بڑوں کو راستے سے ہٹایاجائے تو پھر اس قوم پر اپنے رائی اپنا تسلط ہر کوئی قائم کرسکتاہے۔
موجودہ وقت میں حکومت کے پاس بھی کوئی خاص منصوبہ برائے ترقی نظر نہیں آرہا، اب ہمیں چاہئے کہ ہم باجوڑ اور مہمند کے لوگ مشترکہ طور پر اپنے اختلافات کو پشت میں ڈال کر اپنے حقوق کے لیے حکومت سے پوچھیں کہ کیوں اس علاقے کو ترقی نہیں دی جاتی، ووٹ حاصل کرنے کے لئے مہمند قوم کو اختلافات پر ابھارنا اچھی بات نہیں ہے۔
اب وقت ایاہے کہ باجوڑ ومہمند کے بڑے اور جرگے کے لوگ جرگے و اتفاق کے ساتھ حدود بندی کرکے دونوں اقوام کو مشکلات سے نکالیں اور ان کے لیے کوئی معقول حل نکالیں۔ اگر ناوگئی باجوڑ کے لئے ماتھے کا جھومرہے تو مہمند کے لئے ارام گاہ ہے، دونوں اقوام کو چاہئے کہ ناوگئی کو زخمی ہاتھ جیسا احتیاط سے رکھے، ناوگئی کا امن مہمندو باجوڑ کے لئے ترقی کا بنیادہے۔ ناوگئی کے لوگ بھی حسب روایات تمام اقوام کا قدر و احترام کرتے رہیں گے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.