ترکی․․․․․تاریخی مسجدآیاصوفیہ کی دوبارہ بحالی :حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

مسلمانانِ عالم پستی اور تنزل کے سیاہ دورسے گزررہے ہیں ہرطرف سے مصائب اور بدحالی نے انہیں گھیررکھاہے ،روزبروزان پریشانیوں اور بدحالیوں میں اضافہ ہوتا جارہاہے،لیکن ان دگرگوں حالات میں ہواکے ایک تازہ جھونکے نے مسلمانوں کے پژمردہ چہروں پرخوشی اور مسرت کے آثار یقیناظاہرکئے ہوں گے ،کہ ترکی میں صدیوں پرانی جامع مسجد ”آیاصوفیہ “کو میوزیم سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے ،صدیاں گزرگئیں عالمی سطح پر مسلمانوں پرغموں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور انہوں نے کوئی خوشی کا موقع نہیں پایا ،اس لئے اس خبرنے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو مسرت بخشی ہے ، یہ تاریخی مسجد جسے ایک سیکولر حکمران نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا آج 86سال بعد وہاں سے تکبیر کی صدائیں گونج اُٹھیں ،اس کا پس منظر یہ ہے کہ پانچویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا دوبڑی سلطنتوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کی دارالحکومت قسطنطنیہ (استنبول)تھی یہاں کا سب سے بڑامذہبی پیشوا بطریرک کہلاتاتھا ،دوسری سلطنت مغرب میں تھی جس کامرکزروم (اٹلی)تھا یہاں کا مذہبی پیشواپوپ یا پاپا کہلاتاتھا دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی فرقہ واریت کی نفرت بھی پائی جاتی تھی ،رومی کیتھولک فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا کلیساکیتھولک چرچ کہلاتاتھا جبکہ مشرقی سلطنت کے کلیسا کو ”دی ہولی آرتھوڈوکس چرچ “کہاجاتاتھا ،آیا صوفیہ کا یہ کلیسا آرتھوڈوکس چرچ کا عالمی مرکزتھا ،اس چرچ کا سربراہ بطریرک یا پیٹریارک کہلاتاتھا ،آدھی عیسائی دنیا اس کلیسا(آیاصوفیہ)کواپنی مقدس ترین عبادت گاہ سمجھاکرتی تھی ،آیا صوفیہ کورومی کلیساپرفوقیت حاصل تھی کیونکہ اِس کی بنیاد ُاس سے قبل تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلاعیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہرکانام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا ،قسطنطین بادشاہ نے اس مقام پر 360ء میں لکڑی کا بناہواایک کلیساتعمیر کیا تھا چھٹی صدی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین نے 532ء میں اسے پختہ تعمیرکرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی ،دس ہزار معمار اس کی تعمیر میں مصروف رہے اور اس پر دس لاکھ پاؤنڈ کا خرچہ آیا اس کی تعمیر میں دنیا بھر سے قیمتی پتھر منگواکر لگائے گئے اس کے علاوہ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادرات نذرانے کے طورپر پیش کئے ،جب بادشاہ جسٹینین تعمیرمکمل ہونے کے بعد اس میں داخل ہوا تو اس نے ایک گستاخانہ جملہ کہاکہ (معاذاللہ)میں سلیمان(علیہ االسلام)سے سبقت لے گیا ، یعنی آیاصوفیہ اپنی شان وشوکت میں بیت المقدس پر بھی بازی لے گیا ،تقریبا ً ایک ہزار سال تک یہ تاریخی عمارت کلیساکے طورپر ہی نہیں ،بلکہ پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکزکے طورپراستعمال ہوتی رہی ،عیسائیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ کلیساکبھی عیسائیوں کے قبضہ سے نہیں نکلے گا ،یہی وجہ تھی کہ جب سلطان محمدفاتح کی فوجیں اس شہر میں داخل ہوئیں اور بازنطینیوں کو شکست ہوگئی توشہرکے لوگوں نے بڑی تعدادمیں اس کلیسامیں اس خیال سے پناہ لی کہ اس عمارت پر دشمن قبضہ نہیں جماسکتا ،ان کا عقیدہ تھا بلکہ انہیں ایک الہامی بشارت دی گئی تھی کہ ایک دن ترک قوم کے لوگ قسطنطنیہ میں داخل ہوجائیں گے اور رومیوں کا تعاقب کرتے ہوئے آیا صوفیہ کے سامنے اس ستون تک پہنچ جائیں گے جوشاہ قسطنطین سے منسوب ہے تویہی سے ان کی تباہی شروع ہوجائے گی کیونکہ اس موقع پر آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کردے گا جواس وقت اس ستون کے پاس بیٹھاہوگا ،فرشتہ اس شخص سے کہے گا ”یہ تلوار پکڑو،اور اس سے اللہ والوں کا انتقام لو “اس حیات آفریں جملوں کو سنتے ہی ترک فوراًبھاگ کھڑے ہوجائیں گے اور رومی فتحیاب ہوکر انہیں بھگادیں گے ،لیکن محمدفاتح کی فوجیں اس ستون سے بھی آگے سینٹ صوفیا کے دروازے تک پہنچ گئیں نہ کوئی فرشتہ نظر آیا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی ،قسطنطنیہ کی فتح ہر ترک حکمران کی تمنارہی اور وہ اس کے لئے موقع بموقع زور آزمائی بھی کرتے رہے مگر یہ سعادت سلطان محمدثانی کی قسمت میں لکھی ہوئی تھی ،سلطان محمدثانی نے سات ہفتوں کے مسلسل گولہ باری کے بعد فتح سے تین دن قبل بادشاہ قسطنطین کو صلح کا پیغام بھیجاتھا مگر بادشاہ نے طاقت کے نشہ میں اس پیغام کوٹھکرادیا تھا جس پر سلطان محمدثانی کی فوجوں نے 20جمادی الاولیٰ 757ھ (29مئی 1453ء)کی رات تسبیح وتہلیل میں گزاری اور نمازفجر کے بعد شہر کے مختلف سمتوں سے حملہ شروع کیا ،سلطان نے اعلان کیا کہ ظہر کی نماز سینٹ صوفیہ میں اداکریں گے چنانچہ ظہر کے قریب سلطان محمد ثانی سلطان محمدفاتح بن کر اپنے وزراء سمیت شہر میں داخل ہوئے، سینٹ صوفیا کے گرجے کے پاس پہنچ کر گھوڑے سے اترے اور اس عالیشان معبد میں داخل ہوکر جس میں گیارہ سوبرس سے تین خداؤں کی پرستش ہوتی آئی تھی اللہ وحدہ لاشریک کی تسبیح وتقدیس کے لئے سربسجدہ ہوئے، موذن کو حکم دیا کہ اللہ کے بندوں کو اس کی عبادت کے لئے آوازدے ،اس کی دیواروں سے تصویریں مٹادی گئیں ،محراب قبلہ رخ کردی گئی ،اس کے میناروں میں بھی اضافہ کردیا گیا اور اس طرح یہ تاریخی کلیسا ”جامع مسجد آیاصوفیہ “کے نام سے مشہور ہوگئی تقریباًپانچ سوسال تک یہاں پنج وقتہ نمازوں،جمعہ اور عیدین کے اجتماعات کا اہتمام ہوتا رہا 1923ء میں کمال اتاترک مغرب کی خوشنودی اور ان کے دباؤ پرخلافت عثمانیہ کوختم کرکے اسلام شعائر کے ایک ایک نشانی کومٹانے پرتل گیا ،اذان پر پابندی،قرآن پاک پر پابندی ،عربی رسم الخط سمیت تمام اسلامی شعائر پر پابندی عائد کردی، 1938ء میں اس بدبخت نے اس تاریخی مسجد کوبھی ختم کرکے ایک سیرگاہ میں تبدیل کردیا ،یہاں انفرادی طورپر بھی کسی کونمازپڑھنے کی اجازت نہ تھی ،اللہ بھلا کرے رجب طیب اردگان کا جنہوں نے مذہبی اور معاشی طورپر خستہ حال ترکی کو سلطنت عثمانیہ کی طرح ایک بار پھر مستحکم بنیادوں پر آگے لانے کا بیڑہ اُٹھایا ،سیاست اورمعیشت کے ساتھ ساتھ اردگان ترکی کی عظمت رفتہ کو پھرلوٹارہے ہیں اور سیکولر ترکی تیزی کے ساتھ ایک بارپھرمذہبی ریاست کے طورپر اُبھررہاہے ،رجب طیب اردگان نے اعلان کیا تھا کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنایاجائے گا ،عالمی دباؤ کے باوجود انہوں نے یوٹرن نہیں لیا اورآج وہ مبارک وقت بھی آگیا کہ ترکی کی سپریم عدالت نے تمام تر دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے پانچ سوسالہ قدیمی مسجد کو دوبارہ بحالی کاحکم دیا، تین دن قبل جب اس تاریخی مسجدکے میناروں سے دوبارہ اذان کی آوازگونجی تو ترک مسلمان بڑی تعداد میں مسجد کے اردگرد جمع ہوکرخوشی کے مارے کلمہ طیبہ اور تکبیرکے نعرے بلندکررہے تھے ،یوں لگ رہاتھا کہ جیسے سلطان محمدفاتح ایک بار پھر آکر قسطنطنیہ کو فتح کررہاہو،رجب طیب اردگان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جنہوں نے تمام تربیرونی دباؤ کو مستردکرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ ترکی کا داخلی معاملہ ہے ہم اس پر کسی عالمی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے ۔ترکی سمیت دنیائے اسلام کے تمام مسلمانوں کے لئے یہ خوشی کا مقام ہے کہ ایک تاریخی مسجد جس کا تقدس 86سال سے پامال پورہاتھا ،مسلمان مسجدقرطبہ ،بابری مسجد اور آیاصوفیہ سمیت دیگر کئی مساجدپر آنسوبہارہے تھے، اللہ کا شکر ہے کہ ان میں سے ایک تاریخی مسجد تو مسلمانوں کو مل گئی جہاں وہ اپنی جبینِ نیاز اللہ تعالیٰ کے حضور جھکاکر اپنے اسلاف کے سامنے سرخ ہوسکتے ہیں جامع مسجد آیا صوفیہ کا باقاعدہ افتتاح 24جولائی2020 کو نماز جمعہ سے کیا جائے گا مگر ترکی مسلمانوں نے ابھی سے اس مسجد کے باہر ہزاروں کی تعدادمیں جمع ہوکر نماز پڑھنے کا عمل شروع کرکے بتادیا ہے ترکی مسلمان کس شوق وذوق سے اس مسجد میں اللہ کے حضور جھکنے کے لئے منتظر تھے ۔علامہ اقبال مرحوم نے جامع مسجد قرطبہ کی بدحالی کو دیکھ کر کہا تھا #
پوشیدہ تیری خاک میں سجدہ کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادسحر میں
رجب طیب اردگان کی عزم مصمم اور جہدمسلسل سے جامع مسجد آیاصوفیہ کی خاموش اذانیں تواللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے گونج اُٹھی ہیں اللہ کرے جامع مسجد قرطبہ میں بھی ہزاروں سال پرانی بہاریں لوٹ آئیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی تمام بند مساجد پھر سے اذانوں،تہلیل وتسبیح، رکوع وسجوداور قیام وقرأت کی آوازوں سے معمورہوجائیں ۔
وماذالک علی اللہ بعزیز۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.