پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کا دوبارہ آغاز 20 جولائی سے ہوگا

A health worker gives a polio vaccine to a child in Lahore Pakistan, Monday, Sept. 24, 2018. Pakistan have launched a week-long anti-polio campaign touted as a 'final push' against the crippling disease. (AP Photo/K.M. Chaudary)
0

 کورونا وائرس کے باعث لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے پولیو ویکسین کی سرگرمیاں 4 ماہ تک معطل رہنے کے بعد 20 جولائی سے چھوٹے پیمانے پر دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

 رپورٹ کے مطابق منتخب اضلاع میں گھر گھر مہمات کو کووڈ 19 سے بچاؤ کے اقدامات اور ماؤں اور بچوں کے لیے قبل از پیدائش کی دیکھ بھال کی خدمات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائےگا۔

پہلے مرحلے میں جن علاقوں میں اس مہم کو چلایا جائے گا وہ فیصل آباد، اٹک، جنوبی وزیرستان، کراچی اور کوئٹہ کے کچھ حصے ہیں جن میں 5 سال سے کم عمر 8 لاکھ بچوں کو ویکسین دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

کوئٹہ میں 10 یونین کونسلز میں خصوصی حفاظتی ٹیکوں کی مہم چلائی جائے گی جس کے دوران ایک لاکھ 10 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ وزارت صحت کی رہنمائی اور پولیو کے خاتمے کے عالمی اقدام (جی پی ای آئی) کے رہنما اصولوں اور پولیو اوورسائٹ بورڈ کی سفارشات کی پیروی میں پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام نے نگرانی کے علاوہ، مارچ کے آخری ہفتے میں پولیو سے متعلق تمام سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔

اس عرصے میں کورونا وائرس سے متعلق جاری نگرانی اور مختلف سطحوں پر ردعمل کی کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے پروگرام کی تمام صلاحیتوں کو ری ڈائریکٹ کیا گیا تھا۔

یہ پروگرام کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں پولیو اور ویکسین سے بچاؤ کے قابل دیگر امراض کے خطرات کی نگرانی کر رہا ہے۔

تاہم لاک ڈاؤن، آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹس (او پی ڈی) کی بندش اور سفری مشکلات کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی سرگرمیوں کی معطلی صحت کی ضروری چیزوں کو متاثر کرتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘ماہانہ لگ بھگ 7 لاکھ نوزائیدہ بچوں کو ضروری ویکسین کی فراہمی بدترین طور پر متاثر ہوئی تھی جبکہ گھر گھر مہمات کی معطلی نے بھی دسمبر 2019 سے مارچ 2020 کے دوران ہونے والے فوائد کو خطرے سے دوچار کمزور بچوں میں قوت مدافعت کے فرق کو اور بڑھا دیا تھا کیونکہ یہ پروگرام 2019 کے بحران سے بہتر صورتحال میں آرہا تھا، اس طرح ملک کو ڈبلیو پی وی 1 اور سی وی ڈی پی وی 2 [پولیو وائرس سے ماخوذ پولیو ویکسین] کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا سامنا ہے جس سے پورے پاکستان میں خطرات لاحق ہیں۔خطرے سے دوچار بچوں میں قوت مدافعت میں فرق کو بھی نمایاں طور پر کم کرنے میں اضافہ ہوا۔  دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ‘ہماری معیشت اور معاشرے پر کورونا وائرس کا اثر بے مثال ہے، کووڈ 19 کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی ضروری خدمات میں رکاوٹ کے ساتھ، بچوں کو پولیو اور دیگر حفاظتی ٹیکوں سے بچاؤ کے قابل بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوا ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جہاں ہم کورونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھ رہے ہیں، وہیں میں تمام والدین اور نگراں افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو مفلوج کرنے والے پولیو سمیت تمام بچاؤ کے قابل بیماریوں کی ویکسین دیے جانے کو یقینی بنائیں، بچوں کی محفوظ ویکسینیشن اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے’۔ مزید برآں قومی ٹیم نے صوبوں کی مشاورت کے ساتھ تیار کردہ بحالی منصوبے کو جون کے مہینے میں ایک اجلااس کے دوران پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے بارے میں ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ (ٹیگ) کے سامنے پیش کیا جس کی اس نے تائید جبکہ اس میں سخت حفاظتی اقدامات کے مشورے دیے گئے تھے۔ اس منصوبے میں اگست اور ستمبر میں بڑے پیمانے پر کیس ریسپانس راؤنڈ اور 2020 کی آخری سہ ماہی کے دوران ملک بھر میں تین مہمات شامل ہیں۔خیال رہے کہ رواں سال ملک بھر سے اب تک سامنے آنے والے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 56 ہے۔ گزشتہ برس پولیو کے 144 کیس سامنے آئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 12 اور 2017 میں 8 تھی۔ پولیو ایک انتہائی معتدی مرض ہے جو زیادہ تر 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو اپنا شکار بناتا ہے، یہ اعصابی نظام پر اثر انداز ہو کر معذوری بلکہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

پولیو کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا البتہ ویکسینیشن بچوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ ہر مرتبہ جب ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں تو وائرس سے اس کی حفاظت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.