علماء دیوبند کے ممتاز مفسّر (مولانامجاہدخان ترنگزئی)

0

دارلعلوم دیوبند برصغیر کی وہ عظیم درسگاہ ہے جس نے گزشتہ صدی میں عالم اسلام کی مایہئ ناز شخصیتیں پیدا کیں اور ملت کی فکری اور علمی رہنمائی کر کے مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کئے،دارلعلوم کی ابتداء 15محرم الحرام 1283ھ بمطابق 31مئی 1866ء کو ایک انار کے درخت کے سائے میں ہوئی تھی،کسے معلوم تھا کہ یہ یہاں ایک چشمہئ فیض جاری کیا جارہا ہے،جس نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور پھر اس درسگاہ سے علم وفضل کے ایسے آفتاب وما ہتاب پیدا ہوئے جنہوں نے ایک دنیا کو جگمگا کر رکھ دیا۔
اِن ہستیوں میں دارلعلوم دیوبند کے مایہئ ناز وممتاز مفسر اور خصوصًااکابرین دیوبند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ،مولانا مظہر ناتوی ؒ،مولانا احمد حسن کا نپوری ؒ اور خواجہ محمد عثمان دامانی ؒ کے علوم وفنون اور سلوک وعرفان کے امین وارث اور قابل فخر شاگرد چودہویں صدی ہجری کے عظیم داعی توحید رئیس المفسرین حضرت مولانا حسین علی واں بچھرانوی ؒہے۔حضرت صاحب 15 مارچ 1867 ؁ء بمطابق19 ذی القعدہ 1283ھمیں ضلع میانوالی کے ایک گاؤں واں بچھراں کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب موضع شادیا میں حاصل کی۔بعض کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑ ھیں۔ 1302؁ھ میں قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے سامنے زانوے تلمذتہہ کیا اور اُن سے سندِ حدیث حاصل کی۔ کچھ عرصہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی ؒ سے تفسیر قرآن کا درس لیا۔ 1304؁ھ میں مولانا احمد حسن کا نپوری ؒسے منطق وفلسفہ کی تکمیل کرکے وطن واپس لوٹے۔
حضرت مولانا حسین علی ؒنے جس علاقے میں آنکھ کھولی تھی، ناخواندگی اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کے سبب شرک وبدعت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔انہوں نے اس بدعت زدہ ماحول میں برس ہا برس محنت شاقہ سے توحید کی شمع روشن کی۔ اس راہ میں اس مرد درویش نے ثابت قدمی سے مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا۔اُنہوں نے قرآن کی تعلیم کو عام کر نا شروع کیا،طلباء دُور ردورسے اُن سے استفادہ کے لئے آتے۔خود کھیتی باڑی کرتے تھے اور طلباء کے جُملہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔کبھی کسی سے چندہ نہ لیتے اور اپنی تمام آمدنی طلباء پر خرچ کردیتے تھے۔ علم حدیث،تفسیر وفقہ، تصوف وسلوک اور منطق وفلسفہ پر گہری نظر تھی۔توحید کی اشاعت اُن کا مقصد اوّلین تھا۔ شرکت وبدعت کے خلاف نہ صرف وعظ کئے بلکہ مناظرے، مباحثے اور علمی گفتگوئیں بھی کیں۔ حضرت صاحب نے شرکیات وبدعات کے خاتمے کے لیے قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کا عزم کیا۔ کیونکہ قرآن کریم ہی توحید وشرک اور سنت وبدعت کی حقیقت کوواضح کرنے کا سب سے دلنشین اور مؤثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ گنگوہ سے واپسی کے فوراً بعد حضرت صاحب نے دعوت اور رجوع الی القرآن کے تحریک کا آغاز کیا۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی ملی اور اخلاقی پستی وزوال کا اصل سبب قرآن کریم سے دوری ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان دوبارہ قرآن مجید سے وابستہ ہوجائیں تو اس پستی کو عُروج میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اسی بات کو علامہ اقبال ؒ نے بھی اشارہ کیا تھا: ”وہ معزز زمانے میں مسلمان ہوکر::اور تم خواہ ہوئے تارکِ قرآن ہوکر“۔ اور یہی بات شیخ الہند ؒ مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ نے بھی فرمائی تھی۔ جب وہ مالٹا کی چار سالہ قید سے واپس آئے تو ایک رات عشاء دارلعلوم میں تشریف فرماتھے۔علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا۔اس وقت فرمایا کہ ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔ یہ الفاظ سُن کر سارامجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اِس اُستادالعلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں،وہ کیا ہیں،فرمایا کہ ”میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں۔ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا۔دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظا ًاور معنی ً عام کیا جائے۔ بچوں کے لیئے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کئیے جائیں۔بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے،اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے۔اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے“۔
حضرت صاحب رجوع الی القرآن کے نظرئیے پر کاربند متحدہ پنجاب کے پہلے عالم دین تھے جنہوں نے باقاعدہ درس قرآن دنیا شروع کیا اور قرآن پاک کے ترجمہ کی تعلیم وتدریس پر زور دیا۔ ترجمہ قرآن پاک کے سلسلے میں وہ بے حد حساس تھے اور اپنے مریدین وتلا مذہ کو اس طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔چنانچہ ان کے تلا مذہ نے اپنے اپنے علاقوں میں درس قرآن کے حلقے قائم کئیے اور دور ہ حدیث سے فارغ التحصیل طلباء اور علمائے کرام کو دورہ تفسیر پڑھایا۔
جس علاقہ میں حضرت صاحب نے اس عظیم کام کا آغاز کیا۔وہاں تو یہ حال تھا کہ بڑے بڑے مولوی اور پیر قرآن پاک کاترجمہ پڑھنا اور پڑھانا گناہ عظیم سمجھتے تھے اوراسے خدادے لنگاہ وچہ ہتھ پاؤناں (یعنی اسرارورموزالٰہی کی پردہ داری کرنا) سے تعبیر کرتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن پڑھنا اور سمجھنا عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے بلکہ اس کے لیئے علامۃ العصر اور فریدالدہر ہونا ضروری ہے۔ لیکن مشہور ہے کہ قرآن اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اپنے پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے خود تیار کرتا ہے۔چنانچہ حضرت صاحب کے ترجمہ قرآن کی شہرت دورُ دور تک پھیل گئی اور ہندوستان وافغانستان، پنجاب وخیبر پختونخواہ اور دیگر علاقوں سے علماء ان کے پاس آنے لگے۔ یوں چراغ سے چراغ جلا اور اب جو ملک کے ہر شہر اور ہر بستی سے درس قرآن کی آواز یں آتی ہیں۔اس کے اصل محرک حضرت مولانا حسین الوانی ؒ ہی تھے جنھوں نے نصف صدی تک قال اللہ و قال الرسولﷺ کی دعوت سے ہزاروں لوگوں کی اصلاح کی اور انہیں قرآنی تعلیمات سے روشناس کرایا۔
حضرت صاحب بے شمار خوبیوں اور ان گنت کمالات سے مالامال تھے، مگر اِ ن کی ایک خوبی اور ایک کمال سب خوبیوں اور کمالات پر بھاری ہے، کہ انھوں نے قصے کہانیاں سننے والی قوم کا رُخ قرآن کی طرف موڑدیا، پھر حضرت صاحب نے قرآن کریم کی تفسیر وتشریح جس رنگ میں فرمائی، قرآن کریم مختلف آیات سے جس طرح توحید الٰہی کو ثابت کیا، اور شرک کی تردید کی، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ حضرت حسین علی ؒ کی قرآن فہمی کے بارے میں ہندوستان کے معروف عالم دین اور مایہئ نا ز مؤرخ مولانا سلیمان ندویؒ کاایک خط ملا حظہ فرمائیے،جو اُنہوں نے حضرت شیخ لقرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ کو تحریر فرمایا:”راستے میں آپ کی کتاب جواہر القرآن پڑھی، بڑی خوشی ہوئی،آپ کے شیخ ؒ (مولانا حسین علیؒ) نے قرآن پاک پر فکر وفہم کی بڑی دولت پائی تھی،اور آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ ان سے متمتع ہوئے۔اختلاف و اتفاق تو الگ چیز ہے مگر قرآن پاک کے مضامین کو جس طرح انہوں نے سمجھا وہ ہندوستان میں عزیز الوجود ہے، مسئلہ توحید میں ان کا نہماک واستغراق صوفیانہ اصطلاح میں ان کی کیفیت ایمانی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ ان کی رُوح پر ہزار یارحمتیں نازل فرمائے۔“ اسی طرح شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ؒ سے کسی شخص نے حضرت مولاناحسین علی ؒ کے بارے میں پوچھا تو حضرت لاہوری ؒنے فرمایا:
مولاناحسین علی ؒ فنافی التوحید تھے،اور وہ قرآن کی حرکات وسکنات سے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید ثابت کردیتے تھے۔“
وعظ وتقریر کے علاوہ حضرت صاحب نے تصنیف وتالیف کے ذریعے بھی شرک وبدعت کے خاتمہ کے لئے بڑا کام کیا۔ آپ نے ہر موضوع پر کتابیں لکھیں جن میں ”بلغتہ الحیران فی ربط آیات القرآن، تبیانفی تفسیر القرآن، تلخیص الطحاوی، تحریر ات ِ حدیث،“ تقاریر صحیح بخاری“،تقاریر صحیح مسلم“، برہان التسلیم“، فتح التقدیر“، تحفہ ابراہیمیہ“ اور حواشی فوائد عثمانی“ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
آپ حضرات خواجہ محمد عثمان دامانی ؒ سے سلسلہ ئ نقشبند یہ میں بیعت ہُوئے اور حضرت خواجہ دامانی ؒ کے اصحاب خاص میں شمار ہوئے۔اُن کی وفات کے بعد خواجہ سراج الدین ؒ کی طرف رجوع کیا ار اُن ہی سے خلافت حاصل کی۔ بعد ازاں آپ سلوک وتصوّف کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور متعد د ممتاز علماء کو خلعت خلافت سے نواز ا۔ جن میں مولانا حصام الدین بہبودی ضلع اٹک،مولانا غلام اللہ خان راولپنڈی، مولانا قاضی شمس الدین گوجرانوالہ، مولانا محمد سرفراز خان صفدر، مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور مولانا محمد طاہر ہر ساکن پیچ پیر تحصیل صوابی وغیرہ شامل ہیں ۔حضرت صاحب کے لاتعداد شاگردوں میں جن گنے چنے شاگردوں نے اپنے استاد کے مشن اور نصب العین یعنی قرآنی دعوت کے پہنچانے کا حق ادا کردیا۔ ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز نام مولانا غلام اللہ خان ؒ کا ہے، جنہوں نے قرآنی دعوت کو اس انداز سے عام کیا کہ ”شیخ القرآن“ کا لقب ان کی پہچان بن گیا،ان میں دوسرا نمایاں نام مولانا محمد طاہر پنج پیری ؒ کا ہے جو خیبر پختونخواہ میں قرآنی دعوت کے امین بن گئے، ان میں ایک اور شخصیت مولانا قاضی شمس الدین ؒ“ ہیں جن کی علم حدیث میں بلندیئ پر واز بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔دیگرمیں مولانا قاضی نور محمد ؒ، مولانا محمد امیر بند یالوی ؒ، مولانا عبد الرؤف بوچھا لوی ؒ اور مولانا نصیر الدین غور غشتوی ؒ ہیں۔
حضرت صاحب نے 25 جون 1944 ء بمطابق 4 رجب 1363ھ میں حلت فرمائی۔ اولادِ صالحہ میں تین صاحب زادے،مولاناصدر الدین،مولانا عبدالرحمان اور مولانا عبد الرزاق ممتاز علماء میں شامل ہوتے ہیں

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.