تباہی کے اسباب اور ان کا علاج حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شہر ایک شخص واحد کی طرح ہتا ہے اور یہ وحدت اس کے باہمی مربوط ہونے کی وجہ سے ہے۔ شہر مختلف اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ہر مرکب میں خلل اور خرابی واقع ہونے کا امکان رہتا ہے۔ یہ خرابی کبھی اس کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی اس کے مادہ میں اور اسے ہر وقت بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔ شہر کی بیماری کا مطلب یہ ہے کہ اس میں نامناسب حالات پیدا ہو جائیں اور صحت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حالت ایسی ہو جو اس کے حسن و خوبصورتی کا باعث ہو۔ شہر میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً کچھ ایسے شریر لوگ ملک پر مسلط ہو جائیں جو خواہشات پر چلنے والے ہوں۔ وہ منصفانہ قانون کی پیروی چھوڑ دیں اور ظالمانہ طریقے سے لوگوں کا مال ہتھیانے لگ جائیں یا ناحق لوگوں کی جانوں کو ہلاک کرنے لگ گے جائیں یا لوگوں کی عزت و آبرو میں دست اندازی کرنے لگ جائیں۔ اسی طرح ملک کو بگاڑنے والے اسباب میں سے ایسے نقصان دہ افعال بھی ہیں جو اس کی زندگی کے لئے پوشیدہ طور پر ضرررساں ہوں جیسے جادو، سحر اوراشیائے خوردونوش میں زہریلی چیزیں شامل کرنا۔ اس بگاڑ کا سبب وہ لوگ بھی بنتے ہیں جو لوگوں کو فساد پر ابھارتے ہیں، عورتوں کو اپنے خاوندوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ ملک و معاشرہ کو بگاڑنے والی کچھ عادات فاسدہ بھی ہیں مثلاً عورتیں مرد بننے کی کوشش میں لگ جائیں اور مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں۔ اسی طرح لمبے چوڑے تنازعات کا پیدا ہو جانا، شراب نوشی کی عادت اختیار کرنا۔ اسی طرح کچھ معاملات میں معاشرے کے فساد کا سبب بنتے ہیں جیسے قماربازی، سودخوری، رشوت ستانی، ناپ تول میں کمی، سامان تجارت میں عیب ظاہر نہ کرنا، ذخیرہ اندوزی، خریدنے کی نیت کے بغیر صرف گاہک کو نقصان پہنچانے کے لئے قیمت زیادہ بولنا تا کہ خریدار کو نقصان ہو۔ امام شاہ ولی اللہ کے مطابق ملک کی تباہی و بربادی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لوگ بیت المال اور سرکاری خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے ناجائز مال بٹورنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں فوج سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے مجھے وظیفہ ملنا چاہئے، کچھ اہل علم کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ ہم علم کی خدمت کرتے ہیں اس لئے ہمیں جاگیر یا منصب ملنا چاہئے۔ کچھ شعراء، ادیب اور زاہد بن کر آتے ہیں جن پر انعام و اکرام کرنا بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اہل علم کو کچھ دینے کا رواج تو نہیں مگر فوج کو دیکھا جائے تو ملک کے بجٹ کا اکثر حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے اور جب کوئی فوجی آفیسر فوج سے ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اسے وہ مراعات دی جاتی ہیں کہ کوئی سویلین ساری زندگی محنت کر کے اتنا نہیں کما سکتا۔ اسی طرح شعراء اور ادیبوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا، ان کی جگہ کھلاڑیوں، اداکاراؤں اور زرد صحافت کے علمبرداروں نے لے لی ہے۔ کھیل سے وابستہ افراد چاہے کھلاڑی ہوں یا انتظامیہ ان کو ماہانہ بھاری تنخواہیں بھی ملتی ہیں اور اس کے ساتھ شاہانہ مراعات بھی اس قدر ملتی ہیں کہ ملک کا بڑے سے بڑا تاجر بھی اتنی دولت نہیں کما سکتا۔ اسی طرح ثقافت کے نام پر اداکاراؤں خصوصاً حکمرانوں کی من پسند اداکاراؤں کو بے دریغ نوازا جاتا ہے۔ ماضی اور حال کی حکومتوں میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح زرد صحافت کا علمبردار چاہے ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے بلکہ آج کل تو آزادالیکٹرانک میڈیا ہی سب سے زیادہ طاقتور ادارہ ہے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر جو چاہے کر سکتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ کے مطابق ملک کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حکومت کاشتکاروں، تاجروں اور پیشہ ور لوگوں پر ناجائز غیر منصفانہ بھاری ٹیکس لگا دیتی ہے اور ان کے حصول کے لئے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرمانبردار لوگ جو بغیر جبر کے ٹیکس ادا کرتے ہیں آہستہ آہستہ ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر تیارہو جاتے ہیں۔
یہ وہ چند اسباب ہیں جو شاہ ولی اللہ ؒ نے ذکر کئے ہیں۔ اب ذرا مملکت خدادا پاکستان پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کا نظام کس قدر غیر منصفانہ ہے۔ بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعت کار تو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے اور اسی ٹیکس چوری کے لئے اپنی جائیدادوں اور سرمایہ کو مختلف دوستوں، رشتہ داروں اور نوکروں کے نام پر تقسیم کر کے چھپا دیتے ہیں۔ ٹیکس کی ادائیگی تو کیا وہ تو بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی پیداوار میں کمی کے باعث بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے ایک دردناک عذاب کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ملک کے تمام بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار لاکھوں روپے کے نادہندہ ہیں۔ طاقت و قوت اور حکومت میں اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر انہیں اس کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں اور جب تک ہر شخص کو اپنے اوپر عائد فرائض کی ادائیگی کی فکر لاحق نہیں ہوتی اور اس کو وہ اپنے ایمان کا جزو نہیں سمجھتا، یہ ملک کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ وبائی امراض ہیں جو ہمارے معاشرے کو لاحق ہو چکے ہیں۔ ہمارے حکمران خواہشات کے غلام ہیں اور ایسے غلام ہیں کہ قانون ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ عدالتی فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ ہیں جودولوت اور عہدوں کے بل بوتے پر سرعام عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی خطابت کا جوش دکھاتے پھرتے ہیں۔ماضی قریب میں این آر او کیس پر عدالتی فیصلوں کا حشر دیکھ لیں، میمو گیٹ کے مسئلے پر وزیراعظم کی طرف سے قانون کی دھجیاں اڑانے کا عمل اور اداروں کے ساتھ ٹکراؤ پیدا کرنے کی روش جس سے تمام ملکی حالات میں عدم استحکام اور بے چینی پائی جاتی ہے،حالیہ دورمیں پرویزمشرف کے خلاف عدالتی فیصلہ کا کیا حشرہوا؟پی ٹی وی پر حملہ کیس،فارن فنڈنگ کیس،بی آرٹی پشاور کیس؟ان کے علاوہ اوربہت سارے کیسزہیں جو فائلوں کے نیچے دبے ہوئے کراہ رہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں کیون کہ ان کا تعلق بڑے طبقہ کے ساتھ ہے،جو مقتدرقوتوں کے منظورِ نظر ہیں، قانون کی حکمرانی میں تو شاہ و گدا سارے برابر ہوتے ہیں، عدالت جس کو بھی طلب کرے، کوئی اس میں رکاوٹ پیدا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا مگر ہمارے حکمران قانون کے دائرہ کار سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں اور ہر مسئلے کو ذاتی وقار و عزت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں جس سے جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اسی نام نہاد جمہوریت میں چھپی ہوئی آمریت کی کوکھ سے مطلق العنان فوجی آمریت جنم لیتی ہے اور پورا ملک فوجی ڈکٹیٹرشپ کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کا طرزعمل اور رویے جمہوری ہوتے اور وہ قانون کی عملداری میں رکاوٹ نہ بنتے اور عدالتوں سے من پسند فیصلوں کے صادر ہونے کے لئے اثرانداز نہ ہوتے، عدالتوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہو کر عدالتوں پر ہلہ نہ بولتے، حکمرانی کے نشے میں قانون شکنی نہ کرتے اور قانون سب کے لئے برابر ہوتا تو کبھی بھی کسی طالع آزما کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ قانون کا مذاق اڑاتا اور قانون کو پاؤں تلے روند کر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک نہ بنتا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے ورِ حکومت میں گڑھے مردے اکھاڑ کر بھٹو کیس کو تو ری اوپن کر نے کے دعوے کئے مگر قانون شکن اورملک کے سب سے بڑے مجرم، سفاک قاتل، ملک و قوم کے سوداگر، انسان فروش، بدنام زمانہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر مکمل خاموش رہی۔موجودہ حکومت سابقہ حکمرانوں کوتوچورقراردے کر ان کے خلاف کیسز بنارہی ہے لیکن اپنے چور جہانگیرترین کو بڑے اچھے طریقے سے ملک سے فرارکرنے میں کامیاب ہوگئی،خسروبختیار اور دیگرچور لٹیروے دھندناتے پھررہے ہیں کوئی پوچھنے والاہی نہیں، جس ملک کا قانون تمام شہریوں کے لئے برابر نہ ہو وہ ملک ترقی کی منزلیں کیسے طے کر سکتا ہے، جس قوم کے لیڈروں، اس کی سیاسی جماعتوں اور تمام افراد کے رویوں میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت نہ ہو اس ملک میں جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے۔ ملک اور معاشرے کو بگاڑنے والی وہ کون سی برائی ہے جو ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی جس کا امام شاہ ولی اللہ نے تذکرہ کیا ہے۔ ہمارے حکمران خواہشات پر چلنے والے ہیں، قانون کی حکمرانی کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں۔ حکمران، بیوروکریٹس اور پوری پبلک ظالمانہ طریقے سے لوگوں کا مال اور قومی دولت ہتھیانے میں لگے ہوئے ہیں، کرپشن عروج پر ہے،قرضوں کی بھرمار ہے،حکمرانوں کی نااہلیاں چیخ چیخ کر اپنے اوپر سے پردہ اُٹھارہی ہیں، لوگوں کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں، عزت و آبرو میں دست اندازی کی خبریں روزانہ میڈیا کی زینت بن کر عوام میں پھیل رہی ہیں۔ بچوں کی عزت وناموس اور ان کی زندگیاں سرعام نیلام ہورہی ہیں،اشیاء خوردونوش میں زہریلی چیزوں کی ملاوٹ بلکہ ادویات میں بھی جعل سازی اور ملاوٹ کا دھندہ عروج پر ہے۔ سحر، جادو ٹوٹکے اور عملیات کا کاروبار تمام شہروں میں بڑے دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ جھگڑے اور تنازعات قومی اداروں اور اسمبلیوں تک جا پہنچے ہیں۔ قماربازی، سودخوری اور رشوت ستانی سے تو کوئی ادارہ، کوئی بازار، کوئی گلی خالی نہیں۔ ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی غرض ہر قسم کی معاشرتی بیماری ہمارے ملک کے اندر پائی جاتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بحیثیت قوم ایک تندرست اور صحت مند قوم بن جائیں، ہمارے معاشرہ کی تمام برائیاں خودبخود ختم ہو جائیں۔ قوم کا ہرفرد بذات خود ان برائیوں میں ملوث ہے مگروہ چاہتاہے کہ پورا معاشرہ ان برائیوں سے پاک ہو جائے۔ اکابرین اُمت نے جن برائیوں اور تباہ کاریوں سے بچنے کی تاکید کی ہے ان کو چھوڑنے کے لئے ہم میں سے تو کوئی شخص بھی تیار نہیں اور چاہتا ہر کوئی ہے کہ دوسرا ان برائیوں سے باز آ جائے تا کہ معاشرہ سدھر جائے مگر قانون الٰہی یہ نہیں بلکہ قانون الٰہی یہ ہے کہ ہر شخص بذات خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی ذات سے برائیوں کو چھوڑ دے تو معاشرہ سدھرے گا، تباہی و بربادی کے اسباب ختم ہوں گے تو تباہی و بربادی ختم ہو گی۔ جب تک تباہی کے اسباب ختم نہ ہوں، تباہی و بربادی کو ختم کرنے کے خواب دیکھنا: ؎
ایں خیال است و محال است و جنوں

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.