انگریزی خطاب یافتہ مسلمانانِ برصغیر: (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

اسلامی برصغیر پر انگریز وں نے تجارت کے زریعے قبضہ جمایاپہلے چندتاجر آئے اور انہوں نے تجارت پر قبضہ کرنے کے بعد آہستہ آہستہ ہندوستان کی سرزمین پر اپناتسلط ایساجمایا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے سینکڑوں سالہ اقتدار کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو براہِ راست لندن کے زیر نگیں کردیا ،برصغیر کے باشندوں بالخصوص مسلمانانِ برصغیر نے اس تسلط کے خلاف نہ صرف آوازاُٹھائی بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ،جذجہاد ایمانی غیرت کا وہ ہتھیار ہے جس کی چنگاری دبتی تو ہے لیکن بالکل بجھتی نہیں ،یہ چنگاری کسی بھی وقت شغلہ بن کر پورے خرمن کو خاکستر کرسکتی ہے ،برصغیر پر جب انگریزوں نے قبضہ جمایاتو مسلمانانِ برصغیر کے دلوں میں دبی ہوئی جذبہ َجہادچنگاری ایک بار پھر بھڑک اُٹھی ، زین الدین خان کا ناموربیٹا اورنواب علی وردی خان کا بیس سالہ نوجوان نواسہ ’’محمد ‘‘جسے دنیا نواب سراج الدولہ کے نام سے یادکرتی ہے ،اپنے ناناکی وفات پر بنگال کا حکمران بنا اور اس نے پلاسی کے میدان میں انگریز فوجوں کامردانہ وار مقابلہ کیا ،اگرمیرجعفرغداری کا ارتکاب نہ کرتا تو انگریزوں کوپلاسی کے میدان میں منہ کی کھانی پڑتی ،مگر اس غدار ملک وملت کی وجہ سے نوجوان نواب سراج الدولہ کو انگریزوں نے گرفتار کرکے 2جولائی 1757ء کو سرعام پھانسی پر لٹکادیا،اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے جہادکی چنگاری دب گئی مگر سلطان ٹیپو کے زمانہ میں یہ دبی ہوئی چنگاری پھر بھڑک اُٹھی اور سلطان ٹیپو نے سرنگا پٹم کے میدان میں فرنگی طاقت سے نبردآزمائی شروع کی اور انگریز سپاہیوں کو تہ تیغ کرناشروع کیامگر میرصادق کی ٖغدار ی نے ایک دفعہ پھر انگریزی کی شکست فتح میں تبدیل کردی اور سلطان ٹیپو نے ہتھیار پھینکنے سے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ گیڈر کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ،4مئی 1799ء کو انگریزفوجوں اور میرصادق کی غداری سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرگئے ، اس کے بعد انگریزوں نے مسلمانانِ برصغیرکے جذبہ جہاد سے لڑنے کے لئے ایک مستقل گروہ پیداکیا جنہوں نے ہر محاذپر اپنوں کی بجائے غیروں کا ساتھ دیا اور مسلمان مجاہدین کی پیٹھ میں چھراگھونپ کر انگریزوں سے اپناحق الخدمت مختلف صورتوں میں وصول کیا ،کسی کو زمین کے مربعے الاٹ کئے گئے ،کسی کو ’’نواب ‘‘کسی کو’’ سر‘‘کسی کو’’خان بہادر‘‘کسی کو’’ شمس العلماء‘‘ کسی کو ’’حاذق الملک‘‘کے خطاب سے نوازاگیا اور کسی کو چند روپے نقددے کر اس کی ضمیرکو خریداگیا ،پورے برصغیر میں جہاں بھی کسی شخص کوعوام پر کوئی اثرتھا اسے مذکورہ بالا خطابات کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی ،چند حریت پسندوں کے علاوہ اکثریت نے اس بازار میں بکنے کو ہی ترجیح دی ،کچھ سرپھرے ایسے بھی تھے جن کی ضمیرکو انگریز کی پوری طاقت نہ خرید سکی نہ ان کی گردن کو جھکاسکی ،انہوں نے ایک خداکے علاوہ تمام زمینی خداءوں کا صاف انکار کرتے ہوئے گردن کو جھکانے کے بجائے کٹانے کو پسندکیا،1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے لئے جاگیر،دولت اور خطابات کے دھانے کھول دئے ،مخالفین سے زمین وجائیداداورمال واسباب چھین کر غلاموں کو نوازنے متاثرکن سلسلہ شروع کیا ،انہی خطاب یافتہ چند مسلمانانِ برصغیر کا تذکرہ مخدوم مکرم جناب پروفیسرڈاکٹر نورحبیب اخترسابق پرنسپل ڈگری کالج اوگی نے ’’مسلمانانِ برصغیراور انگریزی خطاب‘‘کے نام سے قلم بند کیا ہے ،جس میں موصوف نے دس ایسے اشخاص کاتذکرہ کیا ہے جن کو انگریزی سرکارکی طرف سے ’’سر‘‘کے خطاب سے نوازاگیا تھا ،ڈاکٹر صاحب نے انگریز کے خطاب یافتہ بے شمار سروں میں سے دس اشخاص کا انتخاب کرکے ان کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جن میں (۱)سرسیداحمدخان (۲)نواب سر وقار الامراء(۳)نواب سر سلیم اللہ خان ( ۴)راءٹ آنریبل جسٹس سرامیر علی (۵)سرمیاں فضل حسین (۶)ڈاکٹر سرمحمداقبال (۷)سرشاہ محمدسلیمان(۸)سرآغاخان سوم (۹)نواب سرمحمدیامین خان (۰۱)اورسرفیروزنون شامل ہیں ، جناب سرسید احمدخان کو ’’سر‘‘ کا خطاب کن خدمات کی عوض ملاتھا اس سے تقریباًتمام لوگ واقف ہیں کیونکہ درسی کتابوں میں بھی ان کی خدمات جلیلہ کاتزکرہ موجود ہے ،اس لئے ان خدمات کو کوئی شخص کسی مولوی کا اختراع قراردے کر مسترد نہیں کرسکتا ،1857ء کی جنگ آزادی کا آغازجب ہوا تو سید احمدخان اپنی ملازمت کے سلسلہ میں بجنور میں تھے ،لڑائی کی اطلاع 12مئی کو بجنور پہنچی ،تووہاں انقلابیوں نے انگریزوں کا محاصرہ کرلیا ،جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے ،اس وقت سیداحمدخان نے اپنی جان ہتھیلی پررکھ کر ان لوگوں کی جان بچائی ،اس واقعہ سے انگریزوں کے دلوں میں آپ کی محبت کا بیج بویا جس نے بعد میں ترقی کرتے کرتے ایک تناور اور سدابہار درخت کی حیثیت اختیار کرلی ،بقول حالی مرحوم :آپ تمام رات مسلح مع ہندوستانی افسروں کے صاحب کلکٹر کی کوٹھی پر پہرہ دیتے رہے اور ہرطرح عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھواتے،ساری رات کرسی پر بیٹھے یا کوٹھی کے آگے ٹہلتے یاشہر میں گشت کرتے گزرجاتی، جنگ آزادی ختم ہونے کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے عام معافی کا اعلان کیا تو اس پر جناب سیداحمدخان نے ملکہ وکٹوریہ اور وائسرائے ہند لارڈ کیننگ کا زبردست الفاظ میں شکریہ اداکرتے ہوئے ان کے لئے پرخلوص دعائیں مانگیں ،ایک طویل دعائیہ تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں ’’تمام اہل ہنداس احسان کے بندے اور دل وجان سے اس کو دعادیتے ہیں ،الہی!توہماری دعاکو قبول کر آمین  الہی !دنیا ہو اور ہماراوائسرائے لارڈ کیننگ ہو ‘‘لارڈ میکالے وہ بدبخت بھیڑیا ہے جس نے ہندوستان کے نظام تعلیم کو تبدیل کرتے ہوئے برصغیرکی سرکاری زبان فارسی پر خط تنسیخ کھینچتے ہوئے ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جس سے بقول اس کے ’’ہندوستان میں ایک ایساطبقہ تیار ہوسکے جورنگ ونسل کے اعتبار سے تو بلاشبہ ہندوستانی ہو ،لیکن ذہن ذوق اور اخلاق کے اعتبار سے انگریز ہو‘‘یہ سیداحمدخان کے آئیڈیل شخصیت تھے، ان کو دعائیں دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ہم لارڈ میکالے کو دعادیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت(جنت)نصیب کرے کہ اس نے دھوکہ کی ٹٹی (مشرقی علوم ) کو اُٹھادیاتھا ،قرآن وحدیث پرمبنی مشرقی علوم جو سالہاسال سے مسلمانوں کے لئے حرزِجاں بنے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے مسلمان دنیا میں ترقی کی راہ پر گامزن تھے ،ان کو دھوکہ کی ٹٹی کہناموصوف کاذوق ہی برداشت کرسکتا ہے[العیاذباللہ] جولائی 1876ء کو ملازمت سے پنشن لے کر علی گڑھ میں قیام پذیر ہوئے اور 8 جنوری 1877ء کو وائسرائے ہند لارڈ لٹن کے مبارک ہاتھوں علی گڑھ کالج کا افتتاح کرواکر لارڈ میکالے کی سرپرستی میں موجودہ نظام تعلیم کی بنیاد رکھی ، اس تقریب میں انگریزی حکومت کے عدل وانصاف ،ترویج تعلیم اور رعایاکی فلاح کے اصولوں کوخاص طورپر سراہاگیا ،انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تہذیب وتمدن ،انگریزی کلچر،انگریزی چال ڈھال ،انگریز کی اطاعت گزارذہنیت کی پیداوار اور انگریزوں کی خیرخواہی جناب سید احمدخان کی تعلیم کابنیادی نقطہ نظر تھا،یہی وہ خدمات جلیلہ تھیں جن کی عوض انہیں برطانوی استعمار کی طرف سے اعزازات ونوازشات سے نوازاگیا ،16اگست 1869ء کو برطانوی دورے کے موقع پر انڈیا آفس لندن میں ڈیوک آف آرگائل کے ہاتھوں سی ایس آئی کے خطاب سے نوازاگیا ،جس کی خوش خبری انہوں نے نواب محسن الملک کوان الفاظ میں دی’’اب میں احباب کی دعاسے سیداحمد،خان بہادرسی ایس آئی ہوگیا ‘‘اس کے بعدان پرانگریزوں کی طرف سے نوازشات کا اعلیٰ مظاہرہ کیاگیا اور انہیں سب سے بڑے سویلین خطاب ’’سر‘‘کے اعزازسے نوازاگیا ،یکم جنوری 1888ء کو ملکہ وکٹوریہ کے ایک حکم نامے کے ذریعے جناب سیداحمدخان کو ’’سر ‘‘کے خطاب سے نوازاگیا ،اس طرح آپ برصغیر کے اولین شخصیت قرارپائے جنہیں برطانوی استعمارکی طرف سے سب سے پہلے ’’سر‘‘کاتمغہ ملا، اورسیداحمد، سرسیداحمدخان بن کرسروں کے سردار قرارپائے ،پروفیسرڈاکٹرنورحبیب اخترصاحب نے اس کتاب میں سرکے خطاب یافتہ دس مشہور ومعروف شخصیات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے اور کتاب کی ابتداء میں تقریباًان تمام افراد کا مختصر تذکرہ کیا ہے جن کو اس خطاب سے نوازاگیا تھا ،ان میں ایک نام مرزاقادیانی کے چیلے اور پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان کا بھی ہے ،فہرست میں سہواًاس کانام بھی شامل ہواگیاتھا لیکن ختم نبوت کے دوستوں کی نشاندہی پراسے حذف کردیاگیا چونکہ ِاس سے اُس کے مسلمان ہونے کی غلط فہمی ہورہی تھی کہ کتاب کا ٹاءٹل’’ مسلمانانِ برصغیرہے ‘‘ اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا تعارف غلام احمدقادیانی کے مرید اور چیلے کے طورپر کیا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ قادیانی ہونا اس کے غیرمسلم ہونے کے لئے کافی ہے کیونکہ قادیانیوں کو توتمام مسلمان غیرمسلم اقلیت سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کتاب کے ٹاءٹل کے مطابق اس سے غلط فہمی ہورہی تھی اس لئے مسلمانوں کی فہرست سے اس کوحذف کرناضروری تھا جوکہ کردیاگیا اور اس کی جگہ وزیرخارجہ جناب شاہ محمودقریشی کے بزرگوار سرمریدحسین قریشی کا نام شامل کردیاگیا ہے ،ڈاکٹر صاحب کی کاوش قابل تحسین ہے کہ انہوں اس طبقہ کاتعارف کرادیاہے جس کی وجہ مسلمانانِ برصغیرکی شبِ ظلمت دراز سے دراز ترہوئی اور انگریزوں کوبرصغیرکے مال ودولت کوخوب لوٹنے اور یہاں کے باشندگان پر ظلم وبربریت کی مشق کرنے کاطویل موقع ملا، اس سے نئی نسل کے لئے اپنے خیرخواہوں اور بدخواہوں کی نشاندہی ہوسکے گی ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.