قربانی کی فضیلت اور نصاب (مولانامجاہد خان ترنگزئی)

0

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہیں زمانہ جاہلیت میں بھی اسکو عبادت سمجھا جاتا تھا، مگرو بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے،اسی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے،بتوں کے نام یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں سورۃالکوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے کہ جس طرح نماز اللہ کے سواکسی کی نہیں ہوسکتی قربانی بھی اسی کے نام پر ہونی چاہیئے۔فصل لربک وانہر کا یہی مفہوم ہے۔دوسری آیات میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان فرمایا ہے ان صلاتی ونسکی ومحیای وممانی للہ رب
العلمین۔۔۔۔ (تفسیر ابن کثیر)
رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے (ترمذی) جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کیلئے مخصوص نہیں ہر شخص پر ہرشہر میں شرائط کی تحقیق کے بعد واجب ہے اور مسلمانوں کو اسکے تاکید فرماتے تھے اسی لئے جمہور اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحی کے دن فرزندآدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اورکھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے،پس اے خدا کے بندوں دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو۔حضرت زید بن اقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحابؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ان قربانیوں کی کیا حقیقت اور تاریخ ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے (روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کیا کرتے تھے،ان کی اس سنت اور قربانی کے جانور کے ہرہر بال کے عوض ایک نیکی: انہوں نے عرض کیا: تو کیا اون کا بھی ہوتا ہے،اور یقینا ان میں سے ایک ایک جانور کی کھال پر لاکھوں یا کڑوروں بال ہوتے ہیں، تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیک کی شرح سے ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں! اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی طرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
قربانی کس پر واجب ہے: قربانی ہر مسلمان عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کے ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی قیمت کا مال اسکے حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو یہ مال خواہ سوناچاندی یا اسکے زیورات ہو یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلوسامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ ہو۔ بعض دیندار لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ فرضیت زکوٰۃ اور وجوب قربانی کا نصاب ایک ہی ہے،اور ہم پر چونکہ زکوٰۃ فرض نہیں، لہذا قربانی بھی واجب نہیں ہوگی حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ چار قسم کے اموال پر فرض ہوتی ہے:
(۱) سونا (۲) چاندی (۳) نقدی (۴) مال تجارت
ان چار قسم اموال کے علاوہ جانوروں میں بھی زکوٰۃ فرض ہے، جس کا نصاب اور تفصیل الگ ہے۔ قربانی کے نصاب میں ان اشیاء کے علاوہ ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگانا بھی ضروری ہے۔
یاد رکھیں ٹی وی،ایل سی ڈی جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس ار و وہ تمام اشیاء جو محض زیب وزینت یا نمودونمائش کے لئے گھروں میں رکھی رہتی ہیں اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں،زائد از ضرورت ہیں اس لئے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ جس شخص کی ملک میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک یا ان پانچوں کا مجموعہ یا ان میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے ۲۵تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہونو قربانی اور صدقہ الفطر واجب ہے اورایسے شخص کے لئے زکوٰۃ یا صدقہ واجب لینا بھی جائز نہیں۔
ساڑھے ۲۵ تولہ چاندی کی قیمت صرافوں سے اس وقت کے حساب سے معلوم کی جاسکتی ہے، چونکہ سونے چاندی کی قیمت بدلتی رہتی ہے، اس لئے کسی ایک دن کی قیمت لکھ دینا غلط فہمی کا باعث ہوگا۔
کسی کودیا ہو اقرض بھی نقدی میں شمار ہوگا: اایک غلط یہ پائی جاتی ہے کہ جو رقم کسی کو قرض دے رکھی ہو اسے نصاب کا حساب لگاتے وقت شامل نہیں کرتے، حالانکہ جس قرض کے واپس ملنے کی توقع ہوا سے نقدی میں شمار کیا جائے گا، خواہ وہ نقدی کی صورت میں آپ نے کسی کو دیا ہو یا کوئی چیز فروخت کی ہوا ور قیمت وصول نہ کی ہو۔
لیا ہو اقرض نکال کر نصاب کا حساب لگایا جائے: بعض لوگ مقروض ہوتے ہیں، اس وجہ سے صاحب نصاب نہیں ہوتے مگر پھر بھی واجب سمجھ کر قربانی کرتے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مقروض ہیں تو زکوٰۃ کے نصاب میں چار اور قربانی کے نصاب میں پانچ قسم کے اموال کی قیمت لگائیں، پھر اس سے قرض کو تفریق کریں،قرض نکالنے کے بعد اگر بقیہ اموال بقدر نصاب ہیں تو آپ پر زکوٰۃ اور قربانی واجب ہے، ورنہ نہیں۔ قرض خواہ یا اہل حقوق کے حقوق پامال کرکے قربانی کرنا جائز نہیں۔ اگر قربانی واجب نہ ہونے کے با وجود کسی کا حق تلف کئے بغیر قربانی کرے، مقصود اللہ کی رضا ہو،نہ کہ فخر ونمودتو کوئی مضائقہ نہیں۔
سونے چاندی پر زکوٰۃ اور قربانی کی تفصیل: عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے حتٰی کہ بعض اہل علم بھی اس کا شکار ہیں کہ جب تک سونا ساڑھے سات تولہ اور چاندی ساڑھے باون تولہ نہ ہو تو اُس پر کسی مال میں نہ زکوٰۃ فرض ہے، نہ قربانی واجب ہے، حالانکہ وزن کا اعتبار تو اس صورت میں ہے کہ جب کسی کی ملک میں صرف سونا یا صرف چاندی ہو، نقدی کا ایک پیسہ بھی نہ ہو، مال تجارت ذراسا بھی نہ ہواور ضرورت سے زائد کچھ بھی نہ ہو۔ اگر دو یا زیادہ اقسام کے اموال ہوں تو ہر ایک کا علیحدہ نصاب پورا ہوناضروری نہیں، بلکہ اس صورت میں سب کی قیمت لگائی جائے۔ اگر سب کی قیمت کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابریا زائد ہوجائے تو مسئلہ نمبر ۱ میں مذکورہ تفصیل کے مطابق زکوٰۃ، صدقہ الفطر اور قربانی واجب ہے۔ مثلاً اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہے اور ایک روپیہ نقدی ہے تو دونوں کی مالیت کو دیکھا جائے گا، ایک تولہ سونے کی قیمت اگر نوے ہزار ہے تو ایک روپیہ نقدی کے ساتھ جمع کریں گے، گویا یہ 90001 روپے کا مالک ہے، اگر یہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا س سے زائد ہے تو زکوٰۃ،صدقہ الفطر اور قربانی واجب ہے۔
چنانچہ خواتین کے پاس کئی کئی تولے سونا ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ نقدی بھی ضرور ہوتی ہے، ضرورت سے زائد سامان کے ڈھیر ہوتے ہیں مگر وہ نہ زکوٰۃ ادا کرتی ہیں، نہ ہی قربانی، اس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
گھر کے سرابرہ کی قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں:گھر کے سر براکی قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں: عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کا سربراہ قربانی
کرلے تو اسے سب افراد خانہ کی طرف سے کوئی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ سربراہ کے علاوہ گھر کا کوئی اور فردیا افراد نصاب کے مالک ہوں تو ان پر الگ سے قربانی واجب ہے۔اس صورت میں گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کو کافی سمجھنا ایسا ہی ہے جیسا سربراہ کی نماز کو سب افراد خانہ کی طرف سے کافی سمجھا جائے۔
ہاں اگر اولاد اپنی کمائی والد کو دے دیتی ہے اور اولاد کی ملکیت میں اور کوئی مال زکوٰۃ اور ضرورت سے زیادہ سامان بقدر نصاب بھی نہیں تو زکوٰۃ اور قربانی صرف والد ہی فرض ہے، اولاد پر نہیں۔
قربانی کیلئے مال پر سال گزرنا ضروری نہیں: وجوب قربانی کیلئے مال پر سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے دنوں میں بقدرنصاب مال کیا مالک ہونا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ ۳۱ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذراپہلے کہیں سے بقدر نصاب مال آگیا، مثلاً مدیہ میں مال گیا تو قربانی واجب ہوگئی۔ اگر غروب سے پہلے وقت کم ہونے کی وجہ سے قربانی کرنا ممکن نہ ہو یا کسی نے غفلت کی اور آفتاب غروب ہوگیا تو ایک بھیڑیا بکری ان میں کسی ایک کی قیمت کے برابر صدقہ کرنا واجب ہے۔
ایک ضروری وضاحت: مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جس پر قربانی واجب ہو،اُسے حتی الامکان قربانی ادا کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیئے، مگر بعض کم آمدن والے افراد کو اس میں کافی تنگی پیش آتی ہے، کیونکہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت آج کل 65.60 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس عید الاضحی کے ایام میں اتنی نقد رقم موجود ہو، مگر اس نے مہینہ بھر کے گھریلواخراجات کے ساتھ بچوں کی تعلیمی فیسوں اور گھر والوں کے علاج ومعالجہ کے انتہائی ضرور ی اخراجات بھی اسی رقم سے کرنے ہوں تو ایسے میں اتنی رقم میں قربانی کے دس سے پندرہ ہزار روپے تک اخراجات پورے کرنا بسا اوقات مشکل ہوتا ہے۔ بالخصوص جبکہ قربانی کے نصاب میں زائد از ضرورت ساز وسامان کا بھی اعتبار ہے،تو اگر کسی کے پاس نقدی کی صورت میں اس سے بھی کم رقم ہو، حتٰیکہ اگر اتنی معمولی رقم ہوکہ اُس سے قربانی کا جانور یا اجتماعی قربانی کا ایک حصہ بھی نہ خریدا جاسکتا ہو، مگر گھر میں پڑنے ضرورت سے زائد بے کار سے سامان (جو عموما ً فروخت بھی نہیں ہوتا) کے ساتھ مل کر اس کے پاس 65.60ہزار روپے کی مالیت پوری ہوجاتی ہو تو تفصیل بالا کے مطابق اس پر قربانی واجب ہوگی، مگر ظاہر ہے کہ ایسا شخص اگر دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ کرکے گا، تو نہ صرف یہ کہ وہ مہینہ بھر کے انتہائی لازمی اخراجات کے لیے بھی مشکل میں پڑجائے گا، بلکہ اسے قرض لینا پڑے گا۔ ایسی مشکل سے دو چارشخص کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اول تو قربانی کے دنوں سے پہلے موجود رقم سے گھر کی ضروریات جیسے راشن وغیرہ خریدلے اور زائد از ضرورت سامان گھر میں کسی کو ہبہ کرکے اپنی ملک سے نکال دے۔ اور اگر ایسا کرنے میں بھی مشکل ہوتو ایسی صورت میں خاص ایسے شخص کے حق میں مشہور فقیہ ابن ملک ؒ کے قول (جسے علامہ شامی ؒ نے دوسرے مشائخ کی تائید کے ساتھ نقل فرمایا ہے) کے مطابق یہ فتوی بھی دیا جاسکتا ہے کہ جس شخص کی آمدنی اتنی کم ہوں کہ اگر وہ قربانی کرے تو اس کے پاس مہینہ بھر کے ضروری اخراجات کے لیے بھی رقم نہ بچے تو اس پر قربانی لازم نہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.