قربانی…..مقصد،حقیقت اورفضائل(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

قربانی بہت بڑا عمل ہے اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاکے لئے انجام دیاجائے،انسان کی زندگی کا مقصد اطاعت الہی ہے تاکہ اسے تقرب الہی حاصل ہوجائے اور یہ تقرب بغیر تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں قربانی کا مقصدبیان کرتے فرمایا ہے ”نہ اُن(قربانی کے جانوروں)کاگوشت اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے،نہ خون،مگر اسے تمہاراتقویٰ پہنچتا ہے“(سورۃ الحج ۷۳)اس آیت سے صاف طورپر واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مقصود ان جانوروں کا گوشت یا خون نہیں،بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھناچاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والے اللہ تعالیٰ پر کس قدر یقین رکھتے ہیں،کس قدر اس کی اطاعت کرتے ہیں،اس کے احکامات پر کتناعمل کرتے ہیں،اس کے حکم پر قربانی پیش کرنے کے لئے کتنے تیار رہتے ہیں،کس قدر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اس کا عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضااور خوشنودی کے لئے ہے اور اس میں ریا اور دکھاوے کا کوئی شائبہ نہیں۔یہی تقویٰ تمام اعمال کی روح ہے،تقویٰ کے بغیر ہر عمل بے جان اور بے حقیقت ہے،دوسری جگہ ارشادربانی ہے ”اللہ تعالیٰ تو متقیوں کی نذریں (قربانی)قبول کرتا ہے“قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو اپناتقویٰ دکھانا ہے۔قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک ذریعہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آرہاہے،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ”ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیا ہے،تاکہ (اس امت کے)لوگ ان جانوروں پر اللہ کانام لیں،جو اس نے ان کو بخشے ہیں“قربانی کی ایک صورت ہے اور ایک روح ہے،صورت تو جانور کا ذبح کرنا ہے اور اس کی حقیقت ایثارِ نفس کا جذبہ پیداکرنا ہے اور یہ روح بغیر جانور ذبح کئے حاصل نہیں ہوسکتی،کیونکہ ہر صورت میں اس کے مطابق روح ڈالی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ نے جو صورت مقرر کی ہے اسی کو اختیار کرنا پڑے گا تب اس میں وہ روح ڈالی جائے گی۔قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنی جان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے،مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ وہ آدمی کی جان کے بدلہ میں جانور کی قربانی قبول کرکے اس کی جان کو اس کے حوالے فرمادیتا ہے،حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند اس بات کو نہایت ہی دلنشیں انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں ”اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھئے،ان کو یہ گوارا نہ ہوا،اس لئے حکم دیا کہ تم جانور کو ذبح کردو،ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواب کے ذریعے بشارت دی گئی کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کردیں،اب دیکھئے کہ یہ حکم اول تو اولاد کے بارہ میں دیاگیا اور اولاد بھی کیسی؟فرزنداکلوتا،فرزندبھی ناخلف نہیں،بلکہ نبی معصوم،ایسے سچے کی قربانی کرنا بڑامشکل کام ہے،حقیقت میں انسان کو اپنی قربانی پیش کرنا اتنازیادہ مشکل نہیں،مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو ذبح کرنا بڑاسخت مشکل کام ہے،مگر چونکہ حکم خداوندی تھا اس لئے آپ نے اپنے بیٹے کی محبت پر حکم خداوندی کو مقدم رکھتے ہوئے فرمانِ الہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا،اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منیٰ کے منحرمیں لے گئے اور فرمایا بیٹا!مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھے ذبح کردوں،تو اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا:آپ کو جو حکم ہواہے ضرورکیجئے،اگر میری جان کی ضرورت ہے تو ایک جان کیا؟ہزار جانیں ہوں تب بھی نثار ہیں، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رسیوں سے پہلے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے پھر چھری تیزکی،اب بیٹا بھی خوش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قربان ہورہاہوں ادھر باپ بھی خوش ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے بیٹے کی قربانی پیش کررہاہوں،چنانچہ حکم خداوندی کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلادی،جب چھری کند ہوگئی تو اس وقت حکم الہی ہوا ”(اے ابراہیم)بیشک آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں“اب ہم اس کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیجتے ہیں اور تمہارے بیٹے کی جان کے عوض ایک دوسری جان کی قربانی مقررکرتے ہیں،چنانچہ اسی دن سے اونٹ،بھینس،گائے،مینڈھا،بکراوغیرہ قربانی کے لئے فدیہ (بدلہ)میں مقررکیاگیا“قربانی میں آدمی اگر چہ جانور ذبح کرتا ہے مگر اس کا جذبہ یہ ہوناچاہئے کہ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اس کے حکم پراپنی جان قربان کرتا ہوں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعض افعال واعمال مخصوص مقامات کے ساتھ خاص کردئے گئے،جیسے افعال حج، طواف، سعی،رمی جمرات وغیرہ مگر قربانی کا عمل تمام امت کے لئے حکم عام کے ساتھ واجب ولازم قراردیاگیا ہے،خود نبی کریم ﷺ،صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد تمام امت ہرخطے،ہر ملک اور ہرجگہ اس واجب کی تعمیل کرتے رہے اور اس کو نہ صرف واجبات اسلامی میں سے ایک واجب قراردیاگیا بلکہ شعائراسلام میں داخل سمجھاگیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ”قربانی کے جانوروں کو ہم نے اللہ کی یاد گار بنایاہے“(سورۃ الحج)اللہ کی یاد گار سے مراد اللہ کے دین کی یاد گار ہے،دنیا کا عام دستور ہے کہ عظیم الشان کارناموں کی یادگاریں قائم کی جاتی ہیں عام طورپر اس کے لئے مجسمے،ہیکل اور مخصوص شکلیں کھڑی کردینے یاکوئی تعمیر کردینے کو کافی سمجھاجاتا ہے اور اس سے عظیم الشان کام انجام دینے والے کااعزازاور عزت کو ظاہر کیاجاتا ہے،لیکن اسلام نے مجسمات،ہیکل وغیرہ کی تعمیر اور تنصیب کی قدیم رسم کو چھوڑ کر ان کے افعال کی نقل کرنے کو عبات بنادیا اور قیامت تک لوگوں پر لازم کردیا جس سے نہ صرف اعمال کرنے والوں کی یاد ہر وقت زندہ رہتی ہے بلکہ ان کے اس نیک عمل کا جذبہ بھی دلوں میں بیدارہوتا ہے،قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ یاد گار ہے جس سے آدمی میں اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ بیدارہوتاہے، فضائل:حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نذدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ ہو،اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا،قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے لہذاتم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے)اپنے دلوں کو خوش کرو (مشکوۃ)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عیدا لاضحی کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو (الترغیب)حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (حضرت فاطمہ ؓ سے)فرمایا:اے فاطمہ!اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت)موجود رہو اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے،یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں ستر گناہ (زیادہ)کرکے رکھا جائے گا،حضرت ابوسعید خدری ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے،جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یاتمام مسلمانوں کے لئے ہے؟آپ ﷺنے فرمایا:یہ فضیلت آل محمد ﷺکے لئے خصوصاًاور عموماًتمام مسلمانوں کے لئے ہے (الترغیب)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے،حضرت حسن ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص خوش دلی کے ساتھ اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی (ایضاً)قربانی کرنے والے مذکورہ بالا مقصد،حقیقت اور فضائل کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاکے حصول کے لئے بہتر سے بہتر جانور کی قربانی کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضاکا سبب بن جائے،بندوں کا خلوص دیکھ کر اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والوں سے خوش ہوجائے اور امت مسلمہ کے لئے بہتری کا فیصلہ فرمادے،فقہائے کرام کے نذدیک ذبح کئے جانے والے جانورچاراقسام کے ہیں (۱)پہلی قسم وہ ہے جس کے تحت خاص زمانے خاص زمانے اور خاص مقام پر خون بہایاجاتا ہے یہ ہدی کاجانور ہوتا ہے جو حج کے زمانہ میں حدودِ حرم کے اندر ہی ذبح کیا جاسکتا ہے (۲)جانوروں کی دوسری قسم وہ ہے جن کا خون خاص جگہ میں ہی بہایاسکتا ہے،اگردورانِ حج کوئی نقص(جنایت)واقع ہوجائے تو اس کی تلافی کے لئے دم یعنی ایک جانور قربانی دیناپڑتاہے،یہ دم حدودحرم کے اندر دیناہی ضروری ہوتا ہے،اگر حج کے دنوں میں کوئی شخص دم نہ دے سکے توبعد میں کسی دوسرے شخص کو اس کام کے لئے مامور کرنا ہوگا،مگر ہوگا حرم کی حدودمیں ہی کہ اس کے لئے یہی خاص مقام مقررہے (۳)جانوروں کی تیسری قسم وہ جن کا ذبح کرنازمانے کے ساتھ خاص ہوتا ہے،اس میں مقام کی تخصیص نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں قربانی کے خاص دنوں میں ہی ان کا خون گرایاجاسکتاہے،جمہور فقہاء قربانی کے تین ایام ذوالحجہ کی دسویں تابارھویں تاریخ قراردیتے ہیں جبکہ امام شافعی چوتھے دن یعنی تیرھویں تاریخ کی قربانی بھی جائز قراردیتے ہیں،بہرحال یہ قربانی انہی مخصوص ایام میں ہی ہوسکتی ہے اس کے لئے کسی مکان کی تخصیص نہیں ہے (۴)چوتھی قسم کی قربانی نذر یامنت کی قربانی ہوتی ہے جونہ کسی زمانے اور نہ ہی کسی مقام کے ساتھ خاص ہوتی ہے بلکہ سال بھرمیں جب بھی نذرپوری ہوجائے توآدمی جانور ذبح کرکے نذرپوری کرسکتا ہے،البتہ اگرنذرمعین ہے کہ پوری ہونے پر فلاں وقت مثلاًقربانی کے دنوں میں یافلاں مقام پر جانورذبح کروں گا تو پھر زمان یامقام کی پابندی ضروری ہوگی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.