کتابی خزانے سے کچھ اشرفیاں . عبدالوارث ساجد

0

بعض اوقات کسی کتاب کے مطالعہ کے دوران بڑی دلچسپ اور عمدہ تحریر پڑھنے کی مل جاتی ہے یہ  اس کتاب لکھنے والے کی عرق ریزی ہوتی ہے۔ اس کے علمی و ادبی خزانے کا وہ حصہ ہوتا ہے جسے وہ بانٹ رہا ہوتا ہے یہ انتخاب  ایسی علمی شخصیات کے خزانے کی کچھ اشرفیاں ہیں جو انہوں نے کتاب کی صورت تقسیم کی ہیں ہمیں یہ جواہرات درجنوں کتابوں کے ہزاروں صفحات کے مطالعہ سے حاصل ہوئے ہیں۔ مطالعہ کے دوران چنے ہوئے  یہ دلچسپ واقعات علمی و ادبی لطائف اور معلوماتی نکات آپ کی نذر ہیں۔

سبحان اللہ

”اللہ نے فرمایا ہے کہ چونکہ تمہارے وژن میں وہ انسٹرومنٹ نہیں جو مجھے دیکھ سکے‘ اس لئے تمہاری بصارت مجھے نہیں دیکھ سکتی‘ البتہ تمہاری بصیرت مجھے محسوس کر سکتی ہے۔ خدا کو ہوا کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ہوا کو دیکھ سکیں تو خدا کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر ہوا دکھائی نہ دینے کے باوجود بھی اپنے پورے اثرات رکھتی ہے‘وہ محسوس ہوتی ہے‘ چھوئے تو پتا لگتا ہے‘ تیز چلے‘ تو صر صر ہے‘ ہولے چلے‘ تو باد نسیم ہے۔ بہت تندو تیز ہو تو یہ طوفان ہے۔ انسان ہوا کے ہر ایک انداز کو محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح پروردگار کو بغیر نظری شہادت آپ محسوس بھی کرسکتے ہیں اور دیکھ بھی سکتے ہیں مگر پوری کائنات کی تاریخ میں صرف انسان نے بشری نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ واقعہ معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی ہے۔

تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا اور یہی ایک ہمارے پاس اللہ کے وژن کی شہادت مطلق موجود ہے مگر قیامت کے دن تو نہیں‘ البتہ جنت میں جمعہ کے روز سارے لوگ اپنے پروردگار کو دیکھ سکیں گے۔ خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیسے دیکھیں گے؟ فرمایا ”جیسے ہلکے بادلوں کی اوٹ میں آپ چاند دیکھتے ہیں“۔

احمد رفیق اختر کی کتاب ”اٹھتے ہیں حجاب آخر“ سے اقتباس

بر بر

بلا و مغرب (شمالی افریقا) میں قدیم زمانے سے ایک قوم بر بر کے نام سے آباد تھی۔ اس قوم کے بے شمار قبائل اور گروہ تھے۔ جن میں صنہاحبہ ’کتامہ‘ مصمودہ‘ ہوارہ اور زناتہ کے قبائل کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہ لوگ شمالی افریقا میں کہاں سے آئے اور کس زمانے میں آئے؟ اس کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہیں بعض کا خیال ہے کہ وہ آج سے تین ہزارسال قبل براعظم یورپ سے یہاں آکر آباد ہوئے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ سامی نسل کے عرب ہیں۔ (یعنی سام بن نوحؒ کی اولاد سے ہیں) امریکی مورخ جیمس ہنری بریستیذ نے پورے وثوق سے لکھا ہے کہ یہ لوگ سامی عرب تھے اور زمانہ تاریخ سے قبل مصر کے راستے شمالی افریقا پہنچے تھے۔ جمہور عرب مورخین بھی اسی رائے کے موید ہیں۔

بہر صورت بربر جب پہلے پہل شمالی افریقا میں آباد ہوئے تو اس وقت موجود ممالک بربر (لیبیا‘ الجزائر‘ تیونس اور مراکش)کی حدود کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کبھی یہ لوگ سیدھے سادے کسان تھے۔ ان کا رنگ گورا اور آنکھیں نیلی تھیں۔آج کل بھی بلاد مغرب میں بربری نسل کے لوگوں کو ہی تفویق حاصل ہے گو وہ اسلام کے عالمگیر رشتے منسلک ہو کر عمومی طور پر عرب ہی کہلاتے ہیں۔

بربر کے علاوہ ان لوگوں کو ”مازیغ“ یا امازغین“ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی بربری زبان میں ”مردان حر ”یا ”سردار“ کے ہیں۔

مورخین نے بربروں کے اخلاق و عادات کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ان کے بیانات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہایت شجاع‘ جنگجواور حریت پسند ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی بڑے تندو مزاج‘ جھلے اور متلون مزاج ہوتے ہیں۔ ان کی معلوم تاریخ سے اب تک کوئی بھی نصف صدی ہنگاموں اور خونریزیوں سے خالی نہیں گزری۔

اقتباس:  طالب ہاشمی کی کتاب ”ابو یوسف یعقوب المنصور باللہ“ سے

 آرزو لکھنوی

نامور اور معروف شاعر حضرت آرزو لکھنوی کے بارے میں تذکروں میں آیا ہے کہ وہ بچپن ہی سے موزوں طبع تھے۔ تیرہ چودہ برس کے تھے کہ محلے کے ایک بزرگ نے مصرع دیا اورکہا کہ اگرتم موزوں طبع ہو تو اس پر گرہ لگا دو۔ ایک سال کا وقت دیتا ہوں۔ آرزو صاحب نے ذرا تامل کیا اور عرض کیا کہ سال بھر کی ضرورت نہیں‘ مصرع حاضر ہے‘ لیتے جائیے۔

مصرع یہ تھا۔

اڑ گئی سونے کی چڑیا‘ رہ گئے پر ہاتھ میں

آرزو نے گرہ لگائی اور یوں شعر کو مکمل کر دیا۔

 دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں

اڑگئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں

حوالہ:  کتاب ”شب چراغ“ از حکیم نثار احمد علوی (علیگ)

بانی عربیت

                1114ء میں اٹلی کے شہر ”کریمونا“ میں اس کی پیدائش ہوئی۔ وہ عربی زبان بخوبی جانتا تھا۔ بطلیموس کی ”اجسطی“ (عربی) کی تلاش میں وہ ”طلیطلہ“ آیا۔ 1175ء میں اس نے ”انجسطی“ کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا۔ وہ عربی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں میں نمایاں ترین شخص بن گیا۔ ایک مسیحی اور ایک یہودی عالم اس کام میں اس کے مددگار تھے۔اس نے یونانی اورعربی علوم کے دروازے پہلی بار مغرب کے لیے کھول دیے۔ اس کے بعد دوسرے بہت سے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے اس معاملے میں اس کی تقلید کی۔

                ڈاکٹر میکس میر ہاف کے الفاظ میں وہ یورپی دنیا میں عربیت کا بانی تھا۔ اس نے مغربی لاطینیوں کے لیے وہی کام کیا جو حنین ابن اسحاق نے مشرقی عربوں کے لیے کیا تھا۔ اس نے عربی زبان سے فلسفہ‘ ریاضی‘ طب اور علوم کی بے شمار کتابوں کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرڈالا۔ علم طب میں اس نے بقراط اور جالینوس کی کتابوں‘ حنین بن اسحاق کے تمام تراجم‘ الکندی کی تمام تصانیف‘ بو علی سینا کی ضخیم کتاب ”القانون“ اور ابو القاسم الزہراوی کی کتاب ”جراحت“ کا ترجمہ کر دیا۔ طبیعات میں اس نے ارسطو کی بہت سی کتابوں کا عربی سے ترجمہ کیا جن میں حجریات کا وہ رسالہ بھی شامل ہے جو ارسطو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے الفارابی‘ اسحاق اور ثابت وغیرہ کی کتابوں کو بھی لاطینی میں منتقل کیا۔

                1187ء میں وہ بیمار پڑ گیا۔ اس نے گمان کیا کہ اب اس کی موت قریب ہے“ اگر میں مرگیا تو قیمتی عربی کتابوں کا ترجمہ مغربی زبان میں کون کرے گا“۔ اس احساس نے اس کو تڑپا دیا۔ اس کے اندر نئی قوت عمل جاگ اُٹھی۔ بیماری کے باوجود اس نے اس بقیہ عربی کتابوں کا ترجمہ شروع کر دیا جن کو اس نے اپنے پاس جمع کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی موت سے پہلے صرف ایک مہینے کے اندر اس نے تقریباً اسی کتابوں کے ترجمے پورے کرلیے تھے۔

                یورپی اقوام کو عربی علوم و فنون سے روشناس کرانے والی یہ نابغہئ روزگار ہستی ”گیراڈ“ ہے۔

تسبیح اور رشوت

                پٹواری کے بعد دوسری اہم شخصیت تھانیدار کی ہے۔ اسے لوگوں کی گرفتاری کے غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں چنانچہ وہ لوگوں سے بے اندازہ رشوت بٹور سکتا ہے۔ مجھے ان کے بچپن کا یہ واقعہ یاد ہے جو قریبی موضع کے ایک کسان نے سنایا تھا۔ اس کا لڑکا کسی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔ وہ تھانیدار کے پاس گیا تو اس نے روپیا طلب کیا۔ وہ آدمی دوسرے دن بیس روپے لے کر حاضر ہوا۔ تھانیدار مصلے پر بیٹھا نماز کے بعد تسبیح پھیر رہا تھا۔ تسبیح کے ہر دانے پر اللہ اللہ کا وردتھا۔ جب تھانیدار نے بیس روپے دیکھے تو سخت برہم ہوا اور گرج کے بولا۔ ”ابے سؤر کے بچے! یہ کیا لایا ہے اور لے کرآ“۔ اور اس کے بعد اللہ اللہ کرنے لگا۔

                اقتباس: ”چشم دید“ از فیروز خان نون

                فرق

بھٹو صاحب کے دور حکومت میں صوبہ سرحد کے محترم حنیف صاحب وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ غالباً 1976ء میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے ادبی مریدوں نے نیشنل سینٹر کے تحت اسلام آباد میں ان کی سالگرہ منانے کا اہتمام کیا۔ وزیر اطلاعات صاحب نے اس موقع کی مناسبت سے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی اور چند احباب کو اپنے گھر رات کھانے پر مدعو کیا۔ جن میں‘ میں بھی شامل تھا۔ وزیر صاحب کے ڈرائنگ روم میں کھانے سے قبل بات چیت ہو رہی تھی اور گپ شپ لگ رہی تھی کہ ایک دم وزیر صاحب نے قاسمی صاحب سے بڑے ادب اور عقیدت سے دریافت کیا۔ قاسمی صاحب! کیا آپ کی برسی ہر سال منائی جاتی ہے؟ قاسمی صاحب مسکرا کر خاموش ہوگئے لیکن کشور صاحب ہنسی سے لوٹ پوٹ کر قالین پر بیٹھ گئیں۔ وزیر صاحب نہایت معصومیت سے حاضرین کو دیکھ رہے تھے اور ان کو چہروں پر پھیلی ہوئی طنزیہ مسکراہٹ کا سبب سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ شاید احمد فراز نے وزیر صاحب سے کہا کہ قاسمی صاحب کی سالگرہ منانے کا سلسلہ چند برسوں سے شروع ہوا ہے۔ تب وزیر صاحب کو کچھ کچھ احساس ہوا کہ سالگرہ اور برسی میں کیسا فرق ہوتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.