قربانی احکام ومسائل۔حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

قربانی ہرمسلمان،عاقل،بالغ اورمقیم مردوعورت پر واجب ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال ہو جو اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد ہو،یہ مال خوا ہ سوناچاندی کی صورت میں ہو یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت اور جائیدادکی صورت میں ہونقدی ہویا دیگر اشیاء کی صورت میں جو ضروریات اصلیہ سے زائد ہوں ٭اگر کوئی شخص قربانی کے تین دونوں میں سے آخری دن بھی کسی صورت میں مذکورہ بالامقدار کامالک بن جائے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ٭اگر کوئی شخص شرعی قاعدہ کے مطابق مسافر ہو یعنی قربانی کے دنوں میں اپنے وطن سے اڑتالیس میل(بہترکلومیٹر)یااس سے زائد کی مسافت پر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے،اگر وہ مسافر بارھویں ذالحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھرلوٹ آیااور صاحب حیثیت ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی٭اگر بیوی صاحب نصاب ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے،شوہر کی قربانی بیوی کی طرف سے یابیوی کی قربانی شوہر کی طرف کافی نہیں ہے٭اسی طرح بالغ اولاد صاحب نصاب ہو تو ان پر بھی قربانی واجب ہے والد کی قربانی ان کی طرف سے کافی نہیں ہوگی ٭ایک صاحب نصاب شخص پر ایک ہی قربانی واجب ہے خواہ وہ کتناہی مالدار کیوں نہ ہو ٭قربانی کے دنوں میں میت کے ایصال ثواب کے لئے پیسہ وغیرہ صدقہ کرنے سے قربانی کرنا زیادہ بہتر ہے،کہ اس کی طرف سے قربانی کرکے اس کا ثواب میت کو بخش دیاجائے،یہ ان دونوں میں دیگر صدقات اور خیرخیرات سے زیادہ افضل ہے ٭میت کے ایصال ثواب کے لئے قربانی جائز ہے جبکہ اپنی طرف سے قربانی کرچکا ہو اگر صاحب نصاب ہو،اگر صاحب نصاب نہیں تو پھر اس کے لئے اپنی قربانی کرنا ضروری نہیں ہے ٭قربانی کے لئے بڑاجانور خریدتے وقت اگر کسی نے نیت کرلی کہ اگر کوئی شخص مل گیا تو اس کوبھی شریک کرلوں گا تو وہ دوسروں کو شریک کرسکتا ہے،اگر خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی تو اس میں دوسروں کو شریک کرنا بہتر نہیں ہے لیکن اگر شریک کرلیا تو جائز ہے،لیکن اگر خردینے والا صاحب نصاب نہ ہو اور خریدتے وقت اس نے دوسروں کو شریک کرنے کی نیت نہ کی ہو تووہ دوسروں کو شریک نہیں کرسکتا ٭قربانی کے جانور میں اگر کوئی شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب تھی اورپھر وہ ذبح سے پہلے شرکت سے الگ ہوگیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا تو قربانی ہوجائے گی ٭اگر الگ ہونے والاشخص صاحب نصاب نہ ہو تو اس پر قربانی واجب رہ جائے گی اور اس جانور کے دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہ ہوگی ٭اگر شرکاء میں کوئی ایک شریک قربانی سے پہلے مرجائے تو مردہ کے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اگرکسی ایک وارث کی اجازت کے بغیر بھی قربانی کردی گئی تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی،کیونکہ مرحوم کی خریدی ہوئی قربانی مرحوم کی ترکہ میں شامل ہوکر اس کے ورثاء کا حق بن گیا ہے،اب ورثاء اگر چاہیں تو ایصال ثواب کے لئے قربانی کرسکتے ہیں،مگر مرحوم کے ذمہ سے قربانی کا وجوب ساقط ہوچکا ہے ٭اگر کسی صاحب نصاب شخص نے قربانی کے لئے کوئی جانور خریدلیا پھر وہ جانور گم ہوگیا یا چوری ہوگیا یا مرگیا تو اس پر اس کی جگہ دوسرا جانور خرید کرقربانی کرنا واجب ہے ٭اگر کوئی شخص صاحب نصاب نہیں اور اس کا قربانی کے لئے خریدگیا جانور مرگیا یاگم ہوگیا تو وجوب ساقط ہوگئی اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں ہے ٭اگر گم ہوجانے کی صورت میں دوسراجانورخرید لیا پھر پہلابھی مل گیا تو صاحب نصاب پر ایک جانور ذبح کرنا واجب ہے جبکہ غریب شخص پر دونوں کی قربانی واجب ہے،کیونکہ غریب آدمی قربانی کی نیت سے جو بھی جانور خرید تا ہے تو وہ نذرکے حکم میں ہوجاتا ہے جس کا پورا کرنا لازمی ہے ٭اگر قربانی کے لئے خریداہوا جانور عیب دار بن جائے اور اس میں نقص پیداہوجائے جس سے قربانی نہ ہوتی ہو تو صاحب نصاب پر دوسراجانور خریدکر اس کی قربانی کرنا واجب ہے،پہلے والے عیب دار جانور کے ساتھ جو چاہے کرے اس کی مرضی ہے٭اگر اس عیب دار بن جانے والے جانور کا مالک غریب ہوتو اسی عیب دار جانور کی قربانی کرے،کیونکہ اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہوچکی ہے٭کسی پر قربانی واجب تھی مگر قربانی کے تینوں دن گزرگئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بھیڑیابکری کی قیمت خیرات کردے،اگر بکری خریدلی تھی تو اسی بکری کو بعینہٖ خیرات کردے ٭قربانی کے تین دنوں کے اندر قربانی کاجانور یا اس کی قیمت خیرات کرناجائز نہیں ہے ٭قربانی کے لئے جانوروں کی عمریں متعین ہیں،بکرا ایک سال کا ہو،اونٹ پانچ سال کاہو،گائے،بیل،بھینس دوسال کے ہوں،چونکہ جانور کی صحیح عمریں معلوم نہیں ہوتیں اس لئے ان کے دانتوں کو عمر معلوم کرنے اور اس پر عمل کرنے کااحتیاطاً حکم دیاگیا ہے،یہ علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر جانور نہیں آسکتا ٭کوئی جانور اگر جسم میں بڑالگتا ہو لیکن اس کی عمر دوسال پوری نہ ہوتو اس کی قربانی جائز نہیں ٭بکرا اگر ایک سال میں ایک آدھ دن بھی کم ہو تو بھی اس کی قربانی جائز نہیں،ہاں اگر بھیڑ اوردنبہ کی عمر سال سے کچھ دن کم بھی ہوں لیکن وہ ایک سال کے بھیڑ اور دنبے کا برابر لگتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے،اونٹ،گائے،بیل اور بھینس میں ایک سے سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں،طاق ہوناضروری نہیں جفت بھی ہوسکتے ہیں جبکہ بکرے،دنبے اور بھیڑمیں صرف ایک آدمی قربانی کرسکتا ہے ٭جوجانور ناپاکی اور غلاظت کھاتا ہو تو اس کوباندھنے سے پہلے اس کی قربانی جائز نہیں،اس کو چند روزباندھا جائے کہ نجاست نہ کھاسکے تب اس کی قربانی کی جائے ٭اگر اونٹ ہے تو چالیس دن باندھا جائے،بیل،گائے اور بھینس کو بیس دن بکرا اوردنبہ کو قربانی سے پہلے دس دن باندھ کر کرکھا جائے ٭قربانی کے جانور سے فائدہ اُٹھانامکروہ ہے،دودھ دوہنا،اون کاٹناوغیرہ اگر ذبح کرنے سے پہلے قربانی کے جانور کا دودھ دوہایایاس کا اون کاٹاتو اس کو صدقہ کردے،اس سے فائدہ حاصل نہ کرے،اس میں مالدار اور غریب دونوں برابرہیں ٭بانجھ اور خصی جانور کی قربانی جائز ہے ٭جس جانور کی ناک کٹی ہو،یا زبان کٹاہواہے جس سے وہ چارا نہ کھاسکے،جس جانور کے تھن سے دودھ نہ نکلتا ہو،جس جانور کا تھن کٹاہواہو یا س طرح زخمی ہو کہ بچے کو دودھ نہ پلاسکے،جس جانور کا مرض ظاہر ایسے تمام جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے،جوجانور اندھا ہو یاکانا]ایک آنکھ ولا[ہو یا اس کی آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو یا ایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو،یادم تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو،یا کوئی جانور اتنالنگڑاہوکہ تین پاؤں سے چلتاہو یاچوتھا پاؤں رکھتا تو ہو مگر اس سے چل نہ سکتا ہو،یااتنادبلا پتلا اور لاغر ہو جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہاہو،جو ذبح کرنے کی جگہ تک خود نہ جاسکتا ہو، توایسے تمام جانور وں کی قربانی درست نہیں ہے ٭جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے ہاں اگر ولادت کے قریب تو اس جانور کا ذبح کرنا مکروہ ہے،اگر ایسا جانور ذبح کردیاگیا تو اس کے پیٹ سے نکلنے والابچہ اگر زندہ ہو تو اسے بھی ذبح کردیاجائے،اس کاکھانابھی حلال ہے اگر مردہ نکل گیا تو اس کاکھانادرست نہیں ہے ٭ قربانی کا وقت نماز عید کے بعدشروع ہوتا ہے شہر کی کسی بھی مسجد میں نماز عید ہوگئی تو اس کے بعد قربانی کرنا درست ہے،اگرچہ قربانی کرنے والے نے نمازعید نہ پڑھی ہو٭اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کاجانور ذبح کردیا تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے٭عید کے تیسرے دن غروب آفتاب تک قربانی کی جاسکتی ہے ٭اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے،اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کرالے،لیکن ذبح کرتے وقت جانور کے سامنے کھڑے ہونا بہتر ہے ٭قربانی کا کوئی جز کھال ہویاگوشت وغیرہ اجرت میں قصاب کو دینایا قیمت میں مجریٰ کرنا یاامام اور موذن کو بطور اجرت دیناممنوع ہے ٭ذبح کرنے سے پہلے جانورکو پستول سے دماغ میں نشانہ لگاکرذبح کرناخلاف سنت ہے، اگر اس چوٹ سے جانور مرگیا تو حرام ہوجائے گا ٭جانور کو ذبح کرنے سے پہلے کھلایاپلایاجائے ٭مذبح تک گھسیٹ کر نہ لے جایاجائے ٭قبلہ رخ لٹایاجائے ٭تیزچھری سے ذبح کرے ٭چھری جانور کے سامنے تیز نہ کی جائے٭،ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیاجائے٭غلط جگہ سے ذبح نہ کیاجائے ٭ذبح ہونے کے بعد ٹھنڈاہونے تک گردن کوالگ نہ کیاجائے اور نہ کھال اتاری جائے ٭ذبح کرتے وقت ”بسم اللہ،اللہ اکبر“پڑھاجائے ٭بھول کر بسم اللہ چھوٹ جائے تو حلال ہے ٭ذبح کرتے وقت قربانی کی نیت کرے ٭قربانی کے گوشت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ اپنے لئے رکھے ایک تہائی رشتہ داروں پر تقسیم کرے اورایک تہائی مسکینوں اور غریبوں پر تقسیم کرے،لیکن تمام گوشت خود کھالے تو بھی جائز ہے٭تمام شرکاء کے درمیان گوشت کویکساں طورپر تقسیم کیاجائے ٭جو قربانی کسی میت کی طرف سے کی ہے اس کا بھی وہی حکم ہے جو اپنی قربانی کا ہے ٭قربانی کی کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو ذکاۃ کا مصرف ہے اس کے علاوہ کسی اورمصرف میں لگاناممنوع ہے،اسی طرح ان تنظیموں کو بھی قربانی کی کھال دیناممنوع ہے جو اس سے اپنے تنظیمی امور چلاتے ہوں،خواہ وہ سیاسی تنظیمیں ہوں یا مذہبی،اسی طرح یہ قیمت رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی نہیں لگائی جاسکتی،کھال اگر مالدار یاغریب کو دے دے تب بھی جائز ہے لیکن کھال فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت کاصدقہ کرنا یعنی کسی مسکین کو بلامعاوضہ دیناواجب ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.