”میرا کشمیر اور۔۔۔سارا کشمیر“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

مو دی حکومت نے کشمیریوں کی مرضی کے بالکل برعکس ان کی ریاست کو ایک سال پہلے کھلی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غاصبانہ آئینی ترمیم کے ذریعے بھارت کا حصہ بنایاتھا تاہم اس اقدام کاناجائز اور غیرقانونی ہونا ایسی بدیہی حقیقت ہے جسے خود بھارت کے انصاف پسند لوگ بھی برملا تسلیم کرتے ہیں جبکہ سال بھر کی اس پوری مدت میں مظلوم وادی میں مسلسل جاری انسانیت سوز مظالم، مکمل لاک ڈاون اور بیرونی دنیا سے اس کے تمام رابطوں کا منقطع رکھا جانا اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیرکے لوگ اس فیصلے کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں اور کشمیر پر اپنے ناجائز تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے کیے گئے بھارتی اقدامات ان کے حوصلوں کو پست کرنے کے بجائے مہمیز دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کا ایک سال پورا ہونے پر حکومت پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر کشمیری بھائیوں کی تائید و حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، بھارت جو چاہے کر لے پانچ اگست کا اقدام قبول نہیں کیا جائے گا اورکشمیری حق خود ارادیت ملنے تک جد وجہد جاری رکھیں گے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا سال مکمل ہونے پر یوم استحصال اور عوامی ردعمل سے خوفزدہ قابض سرکارکے مظالم جاری ہیں بوکھلاہٹ کی شکار بھارتی حکومت نے مظاہروں کے ڈر سے وادی میں سیکورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔  ہندو بالادستی کے نظریے پر عمل پیرا مودی سرکار نے کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے عزائم کی تکمیل کے لیے وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا  ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صرف جغرافیائی تبدیلیاں ہی نہیں لا رہا ہے بلکہ وہ کشمیریوں کو اْن کے ماضی اور اْن کی اپنی تاریخ سے رشتہ بھی منقطع کرنا چاہتا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور وہاں ہونے والے واقعات پر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی بھی دہشت گردی یا شر انگیزی کر سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 8 ہزار سے زائد افراد قابض بھارتی فورسز کی زیر حراست لاپتہ ہوچکے ہیں۔لاپتہ کشمیریوں کے لواحقین مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیرمیں بلاروک ٹوک جاری بھارتی مظالم کے خاتمے اور کشمیریوں کو حق خودارادی دلانے کیلئے محض ساتھ کھڑے ہونے کے بیانات تک محدود رہنے کے بجائے حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر نتیجہ خیز کردار ادا کرے۔ اس مقصد کی خاطر اپوزیشن اور حکومت کو اپنے اختلافات سے بلند ہوکر متفقہ حکمت عملی اور لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔”آخرکیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اِن بے بس مردوں،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکردبادیئے گئے ہیں اورفریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔“(النساء)ہندو توا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے اور کشمیریوں کو ہراساں کرنے کے لئے گھروں میں گھس کر مارنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس مذموم سرگرمیوں میں بھارت کو اسرائیلی آشیر واد حاصل ہے۔ نہتے، بے گناہ کشمیریوں پر بے دریغ اسرائیلی ساختہ مہلک اسلحہ استعمال کیا جارہا ہے جس کی بدترین مثال پیلٹ گن ہے جس کے ذریعے سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہو چکی ہیں۔ کیمیائی ہتھیار بھی اسرائیل سے برآمد کئے گئے ہیں۔ اب کشمیریوں کا مقابلہ آرمی فوج سے نہیں بلکہ اس کے زیر استعمال صہیونی جدید خطرناک ہتھیاروں سے ہے۔ حریت قائدین بھی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ  مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی مواد کے حملے کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی مدد  سے کشمیر میں فلسطین کا تجربہ دہرا  یا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے 38 ممالک میں شامل ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو کی جاری کردہ رپورٹ میں بھارت کا نام بھی شامل ہے۔ گذشتہ 29 برسوں میں 8 ہزار سے زائد کشمیر لاپتہ ہوئے۔ مقبوضہ وادی میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئیں۔ شبہ ہے گمنام قبریں بھارتی فورسز کی حراست سے لاپتہ افراد کی ہیں۔واضح رہے کہ بھارت اسرائیلی طرز کی جنگی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ پورے مقبوضہ کشمیر کو کھنڈر بنایا جارہا ہے۔ مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے کشمیریوں کی نوجوان نسل اپاہج، نابینا اور ذہنی و جسمانی معذور ہورہی ہے۔ یہ سب منظم سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔  تاہم جب عالمی قوتیں خود بھارت کی سرپرستی میں مصروف ہوں تو پھر ایسے ظلم و دہشت گردی کا سد باب کون کرے گا؟۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے ریاستی دہشت گردی اور طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے  غیر ریاستی باشندوں بالخصوص پنڈت‘ سابقہ ہندوستانی فوجی اور برائے نام مغربی پاکستان کے مہاجرین اور ہندوستان کے مختلف حصوں سے لاکر مقبوضہ کشمیر میں آباد کئے جا رہے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔اقوام متحدہ فوری طور پر اس میں مداخلت کرتے ہوئے ہندوستان کو اس مذموم حرکت سے باز رکھے کیونکہ  مذکورہ دفعہ کی منسوخی دراصل بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور عالمی سطح پر یہ ایک جرم ثابت ہے۔  مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے باشندوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔۔ہندو فرقہ پرست لیڈر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور بھارتی آئین میں اس کی خصوصی پوزیشن نے اس کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مسلمان جہاں بھی جاتے ہیں اپنی شناخت الگ کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اولین شناخت بھارتیہ ہونی چاہئے اور اسی کے کلچر کو ترجیح دینی چاہئے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.