ملتان میں حکومت کی پسپائی(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

موجودہ حکومت آج تک کوئی کام بھی کسی ڈھنگ اور طریقہ کار کے ساتھ نہ کرسکی،نہ عوام کوکسی قسم کی ریلیف دی سکی،نہ اداروں کو بہتر بناسکی،نہ کرپشن کا خاتمہ کرسکی،نہ اپنے وعدوں پر عمل درآمدکرسکی،یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا ہرطبقہ اس حکومت سے نالاں ہے،ہرجگہ افراتفری ہے،ہرکوئی پریشانی کا شکار ہے،جس کی وجہ سے اپوزیشن کی تحریک روزبروز بڑھتی جارہی ہے،حکومت کی کارکردگی سے مایوس عوام ایک بار پھر ان ہی لوگوں سے امیدیں وابستہ کررہی ہے جن کو بار بار آزمایاگیا ہے مگر کیا کریں اس کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں،عمران خان سے لوگوں نے بڑی امیدیں لگائی تھیں، اس کے لئے بڑے نعرے لگائے تھے،بنگڑے اور دھمال بھی ڈالے تھے چندے بھی دئے تھے،ایک سوبیس دن کے دھرنے میں بھی نوجوانوں نے اپنابھرپور کردار اداکیاتھا لیکن حکومت ملنے کے بعد وہ تمام لوگ بری طرح مایوسی کا شکار ہوگئے،ڈھائی سال میں بچہ پیداہوکر باتیں بھی کرنے لگ جاتا ہے مگر پی ٹی آئی حکومت ابھی تک پہلے مرحلے کو بھی طے نہیں کرسکی،بلکہ دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو کے فارمولے پر عمل پیراہوکرتیزی کے ساتھ دوڑ رہی ہے،مہنگائی،بے روزگاری،لاقانونیت،کرپشن،عوام کی زبوں حالی اور اداروں کی تباہی یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی میں میں ایک گھٹن سی پیداہوچکی ہے،تعلیم اور صحت کا توجنازہ ہی نکال دیاگیا ہے،صرف صحت کاڑد کوچاٹ کرکیاکیاجائے گا،عام آدمی کہاں جائے کس کے سامنے روئے،کس سے مددمانگے؟جب ہرطرف سے مایوسی ہوگی تو عوام پھر انہی لوگوں کے پاس جائیں گے جو کم ازکم موجودہ حکمرانوں سے تو بہتر تھے،انہی وجوہات کی بناپر ملتان میں حکومت کو پسپائی کا سامناکرنا پڑا،بلکہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ خود پی ڈی ایم کے قائدین کے توقعات سے بھی بڑھ کر کامیاب رہاجس کی وجہ حکومت کی اپنی غلطیاں ہیں،اگر حکومت جلسہ میں رکاوٹ نہ پیداکرتی تو روٹین کے مطابق ایک جلسہ تھا ہوجاتا،مگر حکومت نے اپنازور دکھانے کے لئے تین دن قبل ہی جلسہ گاہ پر دھاوابول کر پی ڈی ایم کے قائدین اورکارکنان کو مشتعل کردیا،جس کی وجہ سے پی ڈی ایم قائدین وکارکنان میں غم وغصہ کی لہر پیداہوگئی اور بہت سارے قائدین اسی دن ملتان جاکر اپنے کارکنان کا حوصلہ بڑھانے لگے، وہ جلسہ گاہ کی رکاوٹیں توڑ کر اندداخل ہوئے اور جلسہ کے انتظامات کرنے لگے،پی ڈی ایم کے نائب صدر اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولاناعبدالغفور حیدری اورجے یوآئی کے پی کے امیرسینیٹر مولاناعطاء الرحمن تو رات گئے تک اپنے بے شمار کارکنان کے ساتھ اسٹیڈیم میں موجود حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے رہے،دوسرے دن پھر پولیس نے دھاوابولا اور وہاں سے کارکنان سمیت جلسہ کے انتظامات کے لئے لایاگیا سامان بھی اُٹھاکر باہر پھینک دیا اور مزید کنٹینر لگاکر تمام رستوں کو ایک بار پھر بند کردیا،جلسہ سے ایک دن پہلے پی ڈی ایم کے سربراہ قائدجمعیت مولانافضل الرحمن بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملتان پہنچے،ملتان پہنچ کر انہوں نے پی ڈی ایم کا اجلاس طلب کیا اور اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جلسہ ہرقیمت پر ہوگا،انہوں نے پی ڈی ایم کے کارکنان کو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جلسہ میں پہنچنے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر پولیس کی طرف سے کارکنان پر لاٹھیاں چلائی گئیں تو کارکنان کو بھی لاٹھی چلانے کی اجازت ہے،ادھر حکومتی وزراء ایک دوسرے سے بڑھ کر بیان بازی پر آگئے کہ جلسہ کسی صورت نہیں ہونے دیں گے،پولیس کی بھاری نفری ملتان بلائی گئی اور قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم کو چاروں طرف سے کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا،سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے بیٹوں سمیت پنجاب بھر میں پی ڈی ایم کے مقامی قائدین اور کارکنان کو گرفتار کرناشروع کردیا،تصادم کی صورت حال پیداکردی گئی،اتوار کی صبح بھی یہی صورت حال رہی حکومت بضد تھی کہ یہ جلسہ کسی صورت نہیں ہوسکے گا،جبکہ مولانافضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کے قائدین کا اصرارتھا کہ جلسہ بہرصورت ہوگا اسٹیڈیم میں نہ کرنے دیاگیا تو باہر کریں گے لیکن اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے دن2 بجے تک حکومت اپنے ضدپرقائم تھی لیکن جب جمعیت علماء اسلام،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی ریلیاں ملتان کی طرف بڑھنے لگیں اورقائدپی ڈی ایم مولانافضل الرحمن کا قافلہ جامعہ قاسم العلوم سے نکل کر گھنٹہ گھر چوک کے قریب پہنچا تو حکومت کے تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور بالآخر حکومت نے ہار مان کر رکاوٹیں ہٹادیں اور پی ڈی ایم کے قائدین وکارکنان بغیرکسی رکاوٹ کے گھنٹہ گھر چوک پہنچ گئے،حکومت نے لوگوں کو جلسہ سے روکنے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے اور دھمکیاں دیں اس کی مثال مارشل لاؤں کے دورمیں توکیا انگریزوں کے دور میں بھی نہیں پائی جاتی۔جب حکومت میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ عوام کا رواستہ روک سکے تو بڑھکیں مارنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس سے معلوم ہوا کہ حکومت اس قدر کمزور بیساکیوں پر کھڑی ہے کہ اس میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ اپنی رٹ قائم کرسکے،حکمرانوں کے اعصاب اس قدر ڈھیلے ہیں کہ وہ معمولی دباؤ بھی برداشت نہیں کرسکتے،یہی وجہ ہے کہ بیرونی ایجنڈے کی تکمیل ہورہی ہے عالمی دباؤ پر قانون سازی ہورہی ہے،ولڈبینک اور آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جارہی ہے،مقبوضہ کشمیر مودی سرکار کے حوالے کردیا گیا ہے، ملک ولڈبینک اور آئی ایم ایف کی غلامی جھکڑ دیاگیاہے اور ملک میں جمہوریت کے لبادہ میں بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم کردی گئی ہے،کمزور اعصاب کے مالک حکمران اپنی بات کسی سے نہیں منواسکتے وہ دوسروں کی باتیں مانتے ہیں،وہ اپنا ایجنڈالاگونہیں کرسکتے،وہ دوسروں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں،وہ اپنا نظریہ عوام کو نہیں دے سکتے وہ دوسروں کے نظریات کو پھیلاتے ہیں،وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کرسکتے بلکہ وہ دوسروں کا دیا ہوا لولی پاپ چوستے رہتے ہیں،حکمرانوں کی اسی اعصابی کمزور ی نے ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ کامیاب کرایا،دوسری طرف ملک کے کہنہ مشق سیاست دان اور ان کے جانباز کارکن تھے جنہوں نے جان کی بازی لگا کر اس جلسہ کو کامیابی سے ہمکنار کیا،مولانافضل الرحمن نے جب کہہ دیا کہ ہم نے ہر حال میں جلسہ کرنا ہے توکسی کی کیا مجال کہ رکاوٹ بن سکے،اورپھرجب پی پی پی کے جیالے اور مسلم لیگ ن کے کارکن بھی ساتھ مل گئے حکومت کو تو یوٹرن لینا ہی تھا،کاش حکومت یوٹرن لینے کی بجائے عقل کے ناخن لے لیتی جو اس کو دیگر مواقع پر بھی کام آجاتے، مگر اس حکومت نے عقل کے ناخن لینے کا ابھی تک ارادہ ہی نہیں کیا،ان کو صرف حکمرانی کا نشہ چڑھا ہوا ہے کہ حکومت کے بل بوتے پر ہم سب کو رام کردیں گے مگر یہ خام خیالی ہے، حکومت کی طاقت کوئی چیز نہیں جب تک عقل اور حکمت کو ساتھ ملا نہ دیاجائے،لیکن یہاں چند وزراء شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے لئے پھدک پھدک کر پریس کانفرنسیں تو کرلیتے ہیں مگر عقل،تدبر اور حکمت کی بات کبھی ان کی زبانوں سے نہیں سنی گئی اور نہ ہی ان کے پاس یہ سرمایہ موجود ہے۔ایسے حالات میں ملتان کا جلسہ پی ڈی ایم کی بہت بڑی کامیابی ہے،حکومت خوش ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ بیساکیاں ان کے پاس ہیں مگر ان بیساکیوں کے گرنے میں بھی کوئی دیر نہیں لگتی،اس سے پہلے بھی بہت سارے حکمران ان بیساکیوں پرتکیہ لگائے حکومتی نشے میں مست ہوکر غرور وتکبر کے گھوڑے پر سوار رہتے تھے مگر جب گرنے کا وقت آیا تو پھر یہ بیساکیاں ان کو نہ بچاسکیں،یہی حشر موجودہ حکمرانوں کا بھی ہوگا،ملتان جلسہ کی خاص بات آصفہ بھٹوزرداری کی سیاست میں انٹری ہے،آصفہ نے پہلی مرتبہ سیاسی جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس میں وہ پوری طرح پراعتماد تھی لب ولہجہ میں بھی کوئی گھبراہٹ اور خوف کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔حکومتی ہتھکنڈوں کا صرف اتنا فائدہ ہوا کہ جلسہ بغیر انتظامت کے ہوا،ساؤنڈ سسٹم سمیت دیگر انتظامات فوراً کرنا ناممکن تھا لیکن عوام کاریلا بھرپور تھا جو میسج پی ڈی ایم کے قائدین دیناچاہتے اس میں وہ بھرپور طریقہ سے کامیاب ہوگئے،بلکہ حکومتی ہتھکنڈوں نے پورے ملک کی توجہ ملتان جلسہ کی طرف مرکوزکردی،لوگوں نے بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ اس جلسہ کو میڈیا پر دیکھا اور سنا، 13 دسمبر کو لاہور میں پی ڈیم کا آخری جلسہ ہو گا جس کے بعد پھر اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا،حکمرانوں کو چاہئے کہ اس سے پہلے پہلے عوام کو کچھ ریلیف دیں،اشیاء خوردونوش،پٹولیم مصنوعات سمیت دیگر چیزوں عوام کو سانس لینے کا موقع فراہم کریں تو اس کی بچاؤ ممکن ہے ورنہ عوام کا سیلاب اس نااہل ٹولے کو خس وخاشاک کی طرح بہا کرلے جائے گا۔قائدپی ڈی ایم مولانافضل الرحمن نے حکومت کے اس ظالمانہ روئیے کے خلاف جمعہ 4 دسمبراور اتوار 6 دسمبر کو پورے ملک میں ضلعی سطح پر احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.