کرپشن، بد عنوانی برقرارحکومتی وعدہ کب پورا ہو گا؟؟(حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

عہد حاضر میں انسانیت کے لئے جو مسائل زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں ان میں سب سے اہم بدعنوانی اور کرپشن کا مسئلہ ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے آج پورا انسانی معاشرہ پریشان ہے۔ وہ اس دلدل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے لیکن اس سے باہر نکلنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرنے والی اس مہلک بیماری کا کوئی علاج دنیا کے پاس نہیں ہے۔ آج شاید ہی کوئی انسان ہو جسے دانستہ یا نادانستہ رضایا مجبوری سے بدعنوانی اور کرپشن میں ملوث نہ ہونا پڑتا ہو۔ خاص کر ہمارے ملک میں بدعنوانی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ہمارے سرکاری محکموں کا حال یہ ہے کہ وہاں اپنا کام کرانے کے لئے مجبوراََرشوت دینا پڑتی ہے یہاں ہر ہر قدم پرعوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بدعنوانی کا گھن ملک کو کس طرح چاٹ رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی دولت کا بڑا حصہ کالے دھن کی شکل میں سوئس بینکوں میں جمع ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کرپشن کے سد باب کے لئے اقدامات نہیں کئے۔ حکومت برابراس کے خاتمہ کے لئے کوششیں کر رہی ہے اور اس کے سد باب کے لئے سخت ترین قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس سب کے با وجود حال یہ ہے ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“۔ در اصل حکومتیں قوانین تو بنا لیتی ہیں لیکن ان کے نفاذ کے سلسلے میں وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ظالموں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور کمزوروں کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کی اسی غلطی کی وجہ سے یہ بیماری کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تک کے ہمارے عوام بھی ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کہ ہمارا ملک اس دلدل سے کبھی نہیں نکل پائے گا۔کرپشن پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’پاکستان میں 2018 ء کے مقابلہ میں 2019 ء میں کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان رینکنگ میں تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد لوگ مجسم سوال ہیں کہ آخر کرپشن کے خاتمے کے منشور کے ساتھ اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں کرپشن میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟۔رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ اور ڈنمارک کرپشن کے خلاف 88اسکور کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے، صومالیہ اور جنوبی سوڈان نے فہرست میں آخری پوزیشن حاصل کی۔ کینیڈا اور برطانیہ77 پوائنٹس کے ساتھ11ویں، امریکا67 پوائنٹس کے ساتھ 25 ویں اور بھارت 40 پوائنٹس کے ساتھ86 ویں نمبر پر رہا۔ گزشتہ برس امریکا 23 ویں نمبر پر تھا اس کی دو درجے تنزلی ہوئی۔اس عالمی تقابلی جائزے کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی انتظامیہ اور پارٹی قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی نکتہ چینی اور مخالفانہ بیانات کا اپنے معاشی اور انتظامی زمینی حقائق کے تناظر میں جائزہ لے، اپنی پالیسیوں میں مثبت پیش رفت پر نظر ڈالے۔ بلاشبہ عوام شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بیروزگاری کے باعث جرائم، کرپشن اور بدانتظامی کا گراف بڑھا ہے، عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی رفتار سست ہے، صرف کارکردگی کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے سے عوام مطمئن نہیں ہو گی بلکہ اس کے لئے لوگوں کو ریلیف دینا ہو گا، مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنا ہوگا یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومتی وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج کی کی ناقص پالیسیوں کا بھی احتساب کیا جائے۔ تین سال گزر گئے اب باقی وقت میں اقتصادی پیش رفت سامنے لانا بے حد ضروری ہے، حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں، عوام سے کئے گئے وعدوں کے جلد وفا کرنے کا وقت ہے۔ حکومت وقت کے پاس تاخیر کی گنجائش باقی نہیں۔۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔کرپشن کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں اور اس سے ملکی و حکومتی ڈھانچہ کمزور ہوتا جا رہا ہے ہے،۔ بدعنوانی انصاف میں رکاوٹ اور معاشی و معاشرتی ترقی میں سستی کی محرک ہے۔یہ سماج کا ایسا ناسور ہے جس نے نہ جانے کتنی زندگیاں تباہ کر دیں لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔آج کے اس ’ترقی یافتہ دور‘ میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا بھی نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، با الفاظِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں نقد یا تحفہ وغیرہ دے کر وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاو لایا جاتا ہے، جس کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔کبھی یہ پیش کش دینے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے کی طرف سے اسے کمیشن یا ڈونیشن جیسے ناموں سے موسوم کرکے سندِجواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جس کی حقیقت سب پر عیاں ہے۔کرپشن صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے جس سے دنیا کا تقریبا ہر ملک متاثر ہے کرپشن سے حکومتیں غیر مستحکم ہوتی ہیں اور معیشت تباہ ہوجاتی ہے کرپشن کے خاتمے کے لئے صرف حکمرانوں، جاگیر داروں پر زور دینا کافی نہیں بلکہ ہمیں خود بھی کرپشن کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا 70 سال سے جاری کرپشن ایک لمحہ میں ختم نہیں ہو سکتی اس میں کچھ وقت درکار ہے۔ انٹیلی جینس ادارے کرپشن کے خاتمے کے لئے بخوبی کردار ادا کر رہے ہیں۔قومی احتساب بیورو 1999 ء میں صدارتی آرڈیننس کے نتیجے میں قائم ہوا۔نیب نے 2002 ء میں قومی انسداد کرپشن اسٹرٹیجی متعارف کرائی جس کا مقصد قومی سطح پر کرپشن کی روک تھام تھا۔نیب اپنے قیام سے لے کر اب تک کرپشن کی مد میں لوٹے گئے 278 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کراچکی ہے جو ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے۔کرپشن کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ایک سخت اور کڑا احتساب ہی کرپشن کے خاتمے کا ضامن ہے۔کرپشن کے خاتمے میں عدلیہ کا کردار ایک اہم حیثیت کا حامل ہے کیونکہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو کرپشن کے خاتمے کے لئے آگاہی فراہم کرنی ہوگی اور رول ماڈل بن کرسامنے آنا ہوگا۔کرپشن کے خاتمے کے لئے کرپٹ عناصر کو سخت سزائیں دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے کرپشن میں کمی آئے گی اور دیگر عناصر کے لئے نشان عبرت ثابت ہوگی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.