”ریاست کا چوتھا ستون!مگربے سکون“(نسیم الحق زاہدی)

0

ویسے لاک ڈاؤن کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ایسے لگتا ہے کہ جیسے کرونا وائرس نے ہمارے ارباب اختیار کے ساتھ سمبندھ قائم کر رکھے ہیں۔ رات سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے صبح ایک دم خبر چلتی ہے کہ ہمارے پردھان منتری نے لاک ڈاؤن کا حکم دیدیا ہے کبھی سلیکٹیڈلاک ڈاؤن تو کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کرونا نے وطن عزیز کے سبھی وزاء سے کامیاب مذکرات کرلیے ہیں کہ وہ ہفتہ اتوار چھٹی کرے گا باقی دنوں میں وہ محترک رہے گا،مساجد ومدارس میں تیزی سے پھیلے گا جبکہ اس کی نسبت بازاروں میں کم پھیلے گا وغیرہ وغیرہ۔ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ موجیں محکمہ پولیس والوں کی لگی ہوتی ہیں۔غربت،افلاس نے غریب کے مرنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔ وطن عزیزمیں ایک مفلوک الحال خود مرتے ہوئے اپنے عزیز واقارب پر اپنے کفن دفن کا بھی قرضہ چڑھا دیتا ہے اوپر سے ہمارے جاہل پیٹو علمائے سو اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے خودساختہ رسومات کو مذہب کا رنگ دیکر لواحقین کو چالیسواں تک اچھی خاصی رقم کا مقروض کردیتے ہیں۔عید الضحیٰ سے ایک دن قبل انارکلی کی زیارت کو نکلے یہ سوچ کر کہ انار کلی کو اگر شہزادہ سلیم نہیں مل سکا تو کیا ہوا شہزادہ نسیم تو حاضر ہے۔ اب ہر صورت میں انارکلی کی بے چین آتماکو شانتی دلوانا ہم پر لازم ہوچکا ہے۔سخت لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا پولیس کی دوتین گاڑیاں کھڑی تھیں جبکہ پولیس کے جوان ایس اوپیز پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے لسی کے گلاس،حلوہ پوڑی،نان پائے مفت میں کھا کر غریب کے بچوں کے حلق کا نوالہ چھین کر جیت کے شادیانے بجا رہے تھے۔ہم نے پچاس روپے کے چنے اور دونان اسی روپے اس دوکان دار کو دئیے تو اس کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے پوچھنے کی دیر تھی تو وہ پھٹ پڑا کہ صبح سے اب تک دس پولیس والے یہ دھمکی دیکر کہ اگر مفت نہ کھلایا تو سبھی کچھ اٹھا کر تھانے لے جائیں گے اوپرسے چھتروکھرے جرمانہ اور پرچہ بھی کہ تم نے حکومتی ایس اوپیز کی پاسداری نہیں کی کہہ کرمفت کھا چکے ہیں پہلے ہی لاک ڈاؤن نے غریب کا جینا محال کردیا ہوا ہے اوپرسے دس بیس لوگ اگر مفت میں کھا جائیں گے تو بچوں کو زہر کھلا دیتے ہیں۔افسوس کہ سوا تو کچھ نہیں کرسکتا تھا اسے حوصلہ دیکر وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی کیونکہ ابھی پچھلے رمضان المبارک کا واقعہ ذہن میں گردش کرنے لگا چوتھا روزہ تھا کہ ہم قسمت مارے بعد نماز عصر انار کلی چوک سے سموسے لینے پہنچے تو وہاں پر تین چار موٹر سا ئیکلوں پر سوارپولیس کے جوان سرعام رمضان المبارک کا تقدس پامال کرتے ہوئے سموسے کھارہے تھے تو کچھ سیگریٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے غلطی ہماری کہ ہم یہ کہہ بیٹھے جناب کچھ رمضان المبارک کا خیال کریں بس اس کے بعد فلمی سین تھا تن تنہا ہیرو اور چاروں طرف غنڈے ہی غنڈے اس دن ہمیں اپنی جہالت کا احساس ہوا بڑی مشکل سے معافیاں مانگ کر جان بچائی۔افلاطون کہتا ہے کہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“کچھ اہل دانش کا یہ ماننا ہے کہ صحافت کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے اور صحافت پیغمبری پیشہ ہے لفظ صحافت صحیفہ سے نکلا ہے ایک صحافی کا کام حق بات کرنا ہوتی ہے خواہ اس کے لیے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑجائے اور وطن عزیز میں بہت سے میدان قلم کے شہسواروں نے حق اور سچ کی آواز کو بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ انکی قربانیوں کو اپنی بارگاہ رحمت میں قبول فرمائے آمین۔پاکستان کے اندر صحافیوں سے مظلوم طقبہ کوئی اور نہیں پچھلے دنوں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر سے سوال کرنے پر راجہ صاحب نے اس صحافی کو گرفتار کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔پروگرام سرعام کا میزبان سید اقرار الحسن پر سرعام پولیس ایس ایچ او کا بہیمانہ تشدد،ایسے دیگر ہزاروں واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جس میں پولیس والوں نے صحافی کے گھر میں گھس چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا،تشدد کا نشانہ بنایا۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں درجہ بندی ہے بڑے مگرمچھ (صحافی)ہم جیسے چھوٹے اہل قلم افراد کو صحافی ہی نہیں مانتے حکومتی وغیر حکومتی جتنی بھی نوازشات ہیں سبھی بڑے ناموں پر ہوتی ہیں۔بڑے صحافی جن میں چندنمک حرام سرعام ملک محافظ اداروں کے کردار پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیں پھربھی انکی معمولی سی تکلیف پر وزاء ودیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدران انکے گھرپہنچ جاتے ہیں۔کبھی کسی وزیر یا کسی حکومتی عہدیدارنے کسی غریب،مفلوک الحال اہل قلم کے گھر جاکر انکے شب وروز کی اذیتوں کو جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کن تکالیف میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔چھوٹے ادارے جہاں تنخوائیں بھی نہیں ملتی،کرایہ کا گھر بجلی،پانی اور گیس کے بل بڑھتی ہوئی مہنگائی ایسے حالات میں یہ لوگ اپنے پیشے کے ساتھ منسلک رہ کر کسی مظلوم،بہن،بیوہ،بیٹی اور بوڑھی ماں کی آواز بن کر حکومتی ایوانوں کی موٹی موٹی ناقابل تسخیردیواروں سے ٹکرا جاتے ہیں اور پھر غفلت کی نیند سوئے ہوئے ارباب اختیار کو بیدار کرتے ہیں۔اور پھر حق اور سچ کی جیت کو اپنا انعام سمجھ کر افلاس کا نوالہ نگل کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔میراوزیر اعظم پاکستان سمیت تمام وزاء اور اپوزیشن لیڈرز سے اپیل ہے کہ وہ خداراہ قلم کے مزدوروں کے گھر کا چکر لگائیں تاکہ انکو غربت کا احساس ہو کہ کس طرح غربت پرورش پاتی ہے۔ویسے تو ہمارے وزیر اعظم بڑے ہینڈ سم اور متاثر کن شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔دانا ہونے کے ساتھ ساتھ معاملہ فہم بھی ہیں۔حالات کی نزاکت کو بھاپ کر چلنا یہ ادا تو کوئی وزیراعظم سے سیکھے۔ان سے اتنی سے گذارش کرنی ہے کہ پلیز اللہ واسطے اپنے اردگرد اپنے رفقاء وزاء کی خوشامد سے بھی اجتناب کریں کیونکہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بڑی بڑی سلطنتوں کی بربادی کی وجہ انکے خوشامدی وزیر تھے۔ہمارے وزیراعظم کے حکم پرملک میں ایک ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا پوچھنا تھا کہ مجھے لاہور کے کسی بھی علاقے میں کوئی بھی ٹائیگر فورس کا جوان نظر نہیں آیا کیا یہ ٹائیگر فورس والوں کو کوئی طلسماتی لباس سے سرفراز کیا گیا ہے کہ جو عام عوام کو نظر نہیں آتے یا کہ پھر رات کی تاریکیوں کے اندر عوام الناس کی خدمت کو نکلتے ہیں۔آخر میں ریاست مدینہ ثانی کے دعویدار حاکم وقت سے ایک اپیل ہے کہ خداراہ اب لاک ڈاؤن نہ لگائیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام انشاء اللہ کرونا سے تو بچ جائے گی مگر بے روزگاری کے ہاتھوں نہیں بچ پائے گی

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.