تعلیمی اداروں کے کمی کی وجہ سے باجوڑ کےسالانہ سات ہزار تک طلبا داخلوں سے محروم ہورہے ہیں۔ ریحان زیب

0

باجوڑ (باجوڑنیوز)تعلیمی اداروں کے کمی کی وجہ سے باجوڑ کے سات ہزار تک طلبا داخلوں سے محروم ،قبائلی اضلاع بشمول باجوڑ کے چوبیس ہزار تک میٹرک پاس طلباء تعلیم سے محروم کنارہ کش ،پختونخواہ حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں۔ سالوں پہلے منظور شدہ، کالجوں اور سیکنڈریز سکولوں کا کوئی پتہ نہیں، شرح خواندگی بدستور 24 فیصد ہے، تعلیم کی مد میں اربوں روپے کہا ں لگے۔ ریشنلائزیشن پالیسی فوری طور پر قبائلی اضلاع کو بڑھایاجائے۔

ان خیالات کا اظہار ٹرئبل یوتھ فورم کی مرکزی چیئرمین ریحان زیب خان نے یوتھ آف باجوڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہو ں نے کہا کہ قبائلی اضلاع اور خصوصا باجوڑ میں ہزاروں طلبا انٹرمیڈیٹ داخلوں سے محروم ہورہے ہیں، کالجز کی کمی سب سی بڑی وجہ ہے۔ قبائلی اضلاع بشمول باجوڑ کے چوبیس ہزار تک میٹرک پاس طلبا تعلیم سے کنارہ کش ہوگئے۔ قبائلی اضلاع میں تعلیمی ایمرجنسی محض ڈرامہ تھا، پختونخواہ حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں، ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کی بے معنی پالیسوں کے وجہ سے ایجوکیشن سسٹم بربادی کی دہانی پر پہنچ گیا ہے۔ قبائلی ضلع باجوڑ کیلئے سالوں پہلے منظور شدہ، کالجوں اور سیکنڈریز سکولوں کا کوئی پتہ نہیں چلا، تیرہ لاکھ آبادی کیلئے صرف تین ڈگری کالجز اور صرف ایک سیکنڈری سکول ہے۔ جو ہزاروں میٹرک پاس طلبا کیلئے ناکافی ہے، 1974میں بنے خار ڈگری کالج اسی سٹاف کی ساتھ بچوں کو پڑھا رہے ہیں، ایک ایک کلاس میں تین سو سے چار سو تک طلبا بیٹھنے پر مجبور ہیں، انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں لڑکیوں کا واحد ڈگری کالج میں سینکڑوں طالبات کو داخلہ نہیں ملا، غریب والدین اپنے بچوں کو ضلع سے باہر نہیں بھیج سکتے، شرح خواندگی بدستور 24 فیصد ہے، جس میں خواتین کی شرح خاندگی صرف سات فیصد ہیں جو ہم سب کیلئے رونے کا مقام ہے، انہو ںنے کہاکہ تمام قبائلی اضلاع کا موازنہ ہم صرف ضلع دیرلوئر سے نہیں کرسکتے، تمام قبائلی اضلاع میں صرف 12 سیکنڈریر سکول ہیں، جبکہ 14 لاکھ آبادی والے ضلع دیر میں 42 سیکنڈریز سکول ہیں اور 5 ڈگری کالجز ہیں، جبکہ اتنے آبادی والی ضلع باجوڑ میں صرف ایک سیکنڈری سکول اور تین کالجز ہیں، یہی وجہ ہے کہ 14 لاکھ آبادی والے ضلع باجوڑ میں صرف ڈیڑھ لاکھ بچے سکولوں اور کالجوں میں داخل ہیں۔ انہو ںنے کہا کہ قبائلی اضلاع اور خصوصا ًبباجوڑ کو تعلیم کی مد میں ملنے والے اربوں روپے کہاںخرچ ہوئے، 2015 میں باجوڑ کیلئے 5 سیکنڈریز سکولوں کا سینکشن ہوا تھا لیکن تاحال کوئی پتہ نہیں چلا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے قبائلی اضلاع اور خصوصا باجوڑ کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بدترین صورتحال پر توجہ نہیں دی تو ہم قبائلی اضلاع کے طلبا ہزاروں کی تعداد میں وزیر اعلی ہاوس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ باجوڑ میں نئے ڈگری کالجز اور سیکنڈریز سکولوں کی قیام وقت کی اہم ضرورت ہیں، 2015 میں منظور شدہ 6 سیکنڈریز سکولوں کو فوری طور پر کھولنے چاہئے، اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سبجیکٹ سپیشلسٹ پوسٹوں پر ڈیوٹی دینے والے 100 سے زیادہ اساتذہ کو ان سکولوں کیلئے فوری طور پر باجوڑ واپس بلانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریشنلائزیشن پالیسی فوری طور پر قبائلی اضلاع کو بڑھایا جائے، کیونکہ اب پختونخواہ کا حصہ ہے، ریشنلائزیشن پالیسی کی مطابق باجوڑ کی تمام تحصیلوں میں سیکنڈریز سکولوں اور کالجوں کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہیں ورنہ لاکھوں کی تعداد میں پہلے ہی سے تعلیم سے کنارہ کش قبائلی اضلاع کے بچے مزید ناخواندہ رہ جائیں گے۔ اس موقع پر یوتھ آف باجوڑ کے صدر عرفان زیب، سینئر وائس صدر واجد اقبال ، وائس صدر میاں حبیب گل اور یوتھ آف باجوڑ کے تمام ایگزیکٹوں ممبران بھی موجود تھے

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.