زردِ آلود وجودوں کے بھٹکتے روحوں کو احساسوں اور ارمانوں کے کپڑے پہناتے ہیں۔
ہم ایسے کیوں ہیں؟
جام کے پیالے میں مدہو ہوکر رندوں کے ساتھ مے کشی میں جھومتے، گاتے اور ناچتے ہیں، پہر میکدہ کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔۔
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔؟؟
کسی نان ایشو کو ایشو بنا کر
معاشرے کے کسی عزت دار کردار کو غیر مہذب الفاظ کی بھینٹ چڑھاکر اس کے سر کی پگڑی پیروں تلے روند دیتے ہیں۔۔۔
ہم ایسے کیوں ہیں؟
ہم حقائق سے ناآشنا کیوں بنتے ہیں؟
ہم ریسرچ میتھاڈولوجی کو استعمال میں کیوں نہیں لاتے؟
ہم سُنی سٌنائی باتوں پر بھاری بھرکم ردعمل کیوں دیتے ہیں؟
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔؟
ہم نے اپنے آپ کو انفرادی ڈھانچوں میں اس طرح بٹھا کے رکھا ہے کہ اجتماعی شعور ہمارے ذہن نشین ہی نہیں ہوتا۔۔۔
ہم صرف ”میں“ کیوں ہیں؟
”ہم“ کیوں نہیں؟
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔۔؟
بارش متاثرین کی خیما بستی میں سسکتے بلکتے بھوک میں سڑتی مخلوق کے زخموں پر روٹے کے مرہم رکھنے کے بجائے ان کو سیاسی گانوں پر رقص کرائے جاتے ہیں، تب ہم اجتماعی منظم احتجاج میں عملی طور گھر سے نہیں نکلتے، ہمارا احتجاج سوشل میڈیا کی بھوک مٹاتا ہے، ہم احساسوں سے خالی ڈھانچے کیوں ہیں۔۔۔؟
ایسے کیوں ہیں۔۔۔؟
ہم جنسی خواہشات کی اتنی بھوکی اور پیاسی مخلوق ہیں، جو ہماری وحشیت سے نا درسگاہ کا طالبِ علم محفوظ ہیں، نا سات کپڑوں میں برقعے یا عبائے میں لپٹی خاتوں، نا سڑک سے گذرتی کوئی اکیلی لڑکی، نا بچے نا بچیاں محفوظ ہیں۔۔۔
حد تو یہ ہے کہ قبر میں پڑا کوئی مادہ جسم بھی ہماری جسم کی بھوک، اور وحشیت سے نا بچ سکا ہے۔۔۔
کیا ہم انسان ہیں۔۔۔۔۔!!!؟؟
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔؟؟؟
ہم جذبات کے جمود کو پانی دیتے آرہے ہیں، ہم نے کسی بھی ایشو کو دماغ کی شہ رگ میں ڈال کے نہیں جانچا۔۔۔۔
ہم چلتے وقت سڑک، پہنتے وقت کپڑوں، بیٹھتے وقت بیٹھک اور بولتے وقت الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر نہیں کرتے۔۔۔
ہم کسی بھی موضوع پر جذباتوں کے بنیاد پر ردعمل دیتے ہیں۔
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔۔؟
ہم ویسے کیوں نہیں۔۔۔؟
جو ہر ناانصافی پر خون ابلے ہمارے دکھ درد سانجھے ہو،
ہم بولیں تو باتوں میں گرج ہو،
ہم احتجاج کریں تو ایوانوں کو لرزا دیں،
ہم باہر نکلیں تو کارواں بن جائے،
ہم ایسے کیوں ہیں۔۔۔؟
ہم ویسے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔!!!؟؟؟