وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے مکمل خطاب کا اردو ترجمہ۔ بشکریہ: (Daleel.pk.com)

0

جناب صدر، سیکریٹری جنرل گوتریز، معزیزین، خواتین و حضرات!

مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک بار پھر خطاب کرتے ہو ئے خوشی محسوس ہورہی ہے۔

میں عزت مآب ولکن بوذکر کو جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کے لیے صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

ہم سبکدوش ہونے والے صدر عزت مآب تیجانی محمد باندے کی ہنر مندانہ قیادت کو بھی سراہتے ہیں۔ جنہوں نے کوڈ 19- بحران کے دوران اہم کردار ادا کیا۔

ہم اس طلاطم خیز دور میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

جناب صدر،جب سے میں نے اقتدار سنبھالا ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔

ہمارے نئے پاکستان کا تصور پیغمبر آخرالزماں محمد ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے۔ انصاف اور انسانی اقدار پر مبنی ایک ایسے معاشرے کاقیام جہاں حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور اپنے شہریوں کو غربت سے نکالنا اور منصفانہ نظم و نسق قائم کرنا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن سے رہنا اور بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کرنا ہے۔

جناب صدر! اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 75 واں اجلاس ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے۔ کیونکہ یہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو ہمسائیوں کے ساتھ امن اور استحکام کے حصول میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ ایک موقع بھی ہے کہ ہم غور کریں کہ اقوام متحدہ کی صورت میں ہم وہ وعدے پورے کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو ہم نے مل کر اپنے لوگوں کے ساتھ کیے تھے۔

آج ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف ۔۔ طاقت کا یکطرفہ عدم استعمال یا خطرہ، لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کا حصول

مساوی خود مختاری اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، بین الاقوامی تعاون، ان تمام تصورات کو باقاعدہ طور پر پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان از سر نو رقابت کے نتیجے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہورہی ہے۔ تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ان میں شدت آرہی ہے۔ فوجی قبضے اور غیر قانونی الحاق کے ذریعے لوگوں کے حق خودارادیت کو دبایا جارہا ہے۔

محترم پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق جوہری جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے، ماحولیاتی تبدیلی، آمرانہ حکومتوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے آج نوع انسانی کو گذشتہ صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ ہمیں ایسی تباہ کن صورتحال سے تحفظ کے لیے ہر صورت مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں ٹکراؤ اور قوت کی بجائے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق تعاون لازمی ہے۔

ہم سب شدومد کے ساتھ کثیرالجہت لائحہ عمل کی حمایت کا اعادہ کریں۔

جناب صدر! کووڈ19- وبا نے نوع انسانی کی وحدانیت کو آشکار کیا ہے۔ ہماری اس باہم مربوط دنیا میں کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک ہر کوئی محفوظ نہ ہو۔ دنیا کووبا کی روک تھام کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے

گذشتہ صدی کے گریٹ ڈیپریشن کے بعد سے بدترین کساد بازاری کا سامنا ہے۔ اس نے غریب ترین ممالک کے ساتھ ساتھ تمام ملکوں میں پسماندہ طبقے کو شدید متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں ہم نے ابتدا ہی میں یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر ہم نے متعدد امیر ملکوں کی طرح سخت لاک ڈاؤن لگایا تو ہمارے ہاں وائرس کے مقابلے میں بھوک سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں چلیں جائیں گے۔ اس لیے ہم نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار کی۔ہم نے وائرس کے ہاٹ سپاٹس پر توجہ مذکور کرتے ہوئے اپنا زرعی شعبہ فوری طور پر کھول دیا اور اس کے بعد تعمیراتی شعبہ، جس سے زیادہ تر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

اسی وقت مالیاتی مشکلات کے باوجودمیری حکومت نے صحت کے شعبے، نادار اور انتہائی غیر محفوظ خاندانوں کے لیے 8 ا۔ارب ڈالررکھے اور ان کو احساس پروگرام کے ذریعے براہ راست نقد ادائیگی کی اور چھوٹے کاروباروں کو اعانت فراہم کی۔

اگرچہ ہمارے سمارٹ لاک ڈاؤن کو ابتدا میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہم نہ صرف وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے، معیشت کو مستحکم بنایا بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے اثرات سے اپنے انتہائی کمزور ترین طبقے کو محفوظ رکھنے میںبھی کامیاب رہے ہیں۔

آج پاکستان کے کرونا ردعمل کا وبا پر قابو پانے کے حوالے کامیاب حکمت عملی کے طور پر حوالہ دیاجاتا ہے۔ تاہم اب بھی ہم مشکل سے باہر نہیں نکلے ہیں اور اسی طرح کوئی بھی دوسرا ملک بھی اس مشکل سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ یہ ابتدا ہی سے واضح تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو کرونا بحران سے نمٹنے اور بحالی کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوگی۔ ترقی پذیر مملک کے لیے قرضوں میں سہولت مالی آسودگی فراہم کرنے کا بہترین لائحہ عمل ہے۔ اس لیے میںنے اپریل کے آغاز میںہی قرضوں میں سہولت کی خاطر عالمی اقدام کے لیے آواز اٹھائی تھی۔

ہم جی 20- کی طرف سے قرضوں کی معطلی کے اقدام اور آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کے اداروں کی طرف سے فوری مالی امداد کے اقدام کو سراہتے ہیں تاہم یہ کافی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو بحران سے نمٹنے کے لیے اور بحالی کے لیے 2.5 ٹریلین امریکی ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ قرضوں کی سرکاری طور پر معطلی کو توسیع دینے اور ان کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ قرضوں میں اضافی سہولتی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ کثیرالجہت ترقیاتی بینکوں کو خاطر خواہ مالی امداد کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ امیر ممالک نے خود وبا سے نمٹنے اور بحالی کے لیے10 ٹریلین امریکی ڈالرز مہیا کیے ہیں۔ انہیں ترقی پذیر ملکوں کے نئے ایس ڈی آر کے لیے کم سے کم 500ارب ڈالرا کی فراہمی کے لیے مدد کرنی چاہیے۔

میں نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ترقی پذیر ملکوں سے امیر ممالک اور آف شورٹیکس پناہ گاہوں کو رقوم کی غیرقانونی منتقلی سے ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کو اجاگر کیا تھا۔ اس اقدام سے ترقی پذیر ممالک میں غربت بڑھی ہے۔ جو رقم انسانی ترقی کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، وہ بد عنوان اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔زرمبادلہ کی کمی کے نتیجے میں کرنسی کی قیمت کمی واقع ہو جاتی ہے اور نتیجیتاًغربت اور افراط زر جنم لیتے ہیں۔

پیچیدہ طریقہ کار کے باعث ان چوری شدہ وسائل کی واپسی کے لیے جستجو کی کامیابی تقریباً ناممکن ہے۔جب کہ منی لانڈرنگ میں ملوث مافیا کو بہترین وکلاء تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مستفید کنندہ ہونے کی وجہ سے امیر ممالک اس مجرمانہ سرگرمی کا قلع قمع کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی سے عاری ہیں۔

جناب صدر! اگر اس عمل کا راستہ نہ روکا گیا تو امیر اور غریب اقوام کے درمیان عدم مساوات بڑھتی رہے گی اور بالآخر آج کی نقل مکانی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسئلے سے زیادہ بڑا عالمی بحران پیدا ہو جائے گا۔ امیر ممالک جب منی لانڈرنگ کرنے والوں کی لوٹی ہوئی دولت کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں تو وہ انسانی حقوق اور انصاف پر قائم نہیں رہ سکتے۔ منی لانڈرنگ اور منی لانڈرنگ کی مالی معاونت کرنے والوں کے سدباب کے لیے فعال حکومتیں موجود ہیں۔

میں اس اسمبلی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ رقم کی غیر قانونی منتقلی اور لوٹی ہوئی دولت کی فوری واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی لائحہ عمل کی تیاری کی کوششوں میں آگے آئے۔ اس بات کو سمجھنا اہم ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو امیر ملکوں سے ملنے والی امداد ہماری بدعنوان اشرافیہ کی طرف سے رقم کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

میں اس سال پھر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نوع انسانی کو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔ آسٹریلیا، سائبیریا،کیلی فورنیاحتی کہ برازیل میں لگنے والی غیر معمولی آگ، دنیا کے مختلف حصوں میں آنے والے غیر معمولی سیلاب اور قطب شمالی میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ کے پیش نظر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔ پیرس معاہدے میں ہونے والے وعدوںخاص طور پر 100 ارب ڈالرز جمع

کرنے کے ہدف کوہر صورت عملی جامہ پہنایا جائے۔ کاربن کے اخراج کے حوالے سے پاکستان کا بہت کم حصہ ہے لیکن اس کا شمارماحولیاتی تبدیلی سے شدیدمتاثرہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہل کریں کیونکہ ہم سمجھتے ہیںکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنا عالمی ذمہ داری ہے۔ ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں اپنے حصہ کے طور پر اگلے تین سال میں ماحولیاتی تبدیلی کے لیے 10 ارب درخت لگانے کا انتہائی پرعزم پروگرام شروع کیا ہے۔

جناب صدر! وبا نوع انسانی کو قریب لانے کا ایک موقع تھا۔ بدقسمتی سے اس نے قوم پرستی کو ہوا دی، عالمی تنازعات میں اضافہ ہوا اور متعدد مقامات پر کمزور اقلیتوں کے خلاف نسلی اور مذہبی بنیادوں پر نفرت اور تشدد کے واقعات بڑھے ہیں۔

ان رحجانات نے اسلامو فوبیا کوبھی بڑھکایا ہے۔ بہت سے ملکوں میں مسلمانوں کو بلاخوف و خطر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہماری زیارتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہمار ے پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی توہین کی جارہی ہے، قران پاک کو جلایا گیا ہے۔ اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہورہا ہے۔ چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیزخاکوں کی دوبارہ اشاعت سمیت یورپ میں ہونے والے واقعات حالیہ مثالیں ہیں۔ ہم سختی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی اور نفرت و تشدد کی ترغیب دینے کو عالمی سطح پر غیرقانونی قرار دیا جائے۔ اس اسمبلی کو چاہیے کہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی دن کا اعلان کرے اور اس ناسور کے خلاف متحد ہوں جو انسانیت کی تقسیم کا باعث ہے۔

جناب صدر! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج دنیا میں بھارت واحدایسا ملک ہےجہاں ریاست اسلاموفوبیا کی سرپرستی کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے آرایس ایس کا نظریہ کارفرما ہے جو بدقسمتی سے آج بھارت پر مسلط ہے۔ یہ انتہا پسندانہ نظریہ انیس سو بیس کی دہائی میں منظرعام پر آیا تھا۔ آر ایس ایس کے بانی نازیوں سے متاثر تھے اور انہوں نے نسلی پارسائی اور برتری کے نظریات کو اپنایا۔جیسے نازیوں کی نفرت کا شکار یہودی تھے۔ آرایس ایس کا نشانہ مسلمان ہیں اور کسی حد تک عیسائی بھی۔ ان کا ماننا ہے کہ بھارت صرف ہندؤں کے لیے ہے اور دیگر بھارتی برابر کے شہری نہیں ہیں۔ بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو مختلف حربوں کے ذریعے حتی کہ ان کامکمل خاتمہ کرکے گاندھی اور نہرو کے سیکولرازم کےنظریے کے بر عکس ہندو ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 1992 میںآر ایس ایس نے بابری مسجد کو تباہ کیا۔ 2002 میں گجرات میںاس وقت کے وزیراعلی مودی کی قیادت میں دو ہزارمسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور 2007 میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے سمجھوتہ ایکپریس ٹرین پر سوار 50 سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلا دیا۔

آسام میں تقریباً دو کروڑ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے جبراً قومیت سے محرومی کے خطرے کا سامنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بھارتی مسلمان شہریوںکی بڑی تعداد کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے جھوٹے الزام کے تحت بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں متعدد مواقع پر طبی امداد سے بھی محروم رکھا گیاہے اور ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ گائے کی قربانی کرنے والے مسلمانوں پر بلاخوف و خطر حملہ آور ہو رہے ہیں اور انہیں قتل کر رہے ہیں۔ گذشتہ فروری میں پولیس کی ساز باز سے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ ماضی میں بڑے پیمانے پر رجسٹریشن کا عمل نسل کشی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ 1935میں جرمنی میں نیورم برگ قوانین اور1982 میںمیانمر اس کی مثالیں ہیں۔ ہندتوا نظریہ کا ہدف تقریباً 30 کروڑ مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو محدود کرنا ہے۔ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اوریہ بھارت کے لیے اچھا شگون نہیں۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ محدود کرنے کے نتیجے میں بنیادپرستی جنم لیتی ہے۔

جناب صدر!گذشتہ 72 سال سے بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اپنے ہی وعدوںکی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ گذشتہ سال 5 اگست کو بھارت نے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ علاقوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی اور 80لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کے لیے اضافی فوج تعینات کی جس کی مجموعی تعداد اب 9 لاکھ ہوگئی ہے۔ تمام کشمیری سیاسی رہنماؤں کو قید کر دیا گیا، تقریباً 13 ہزار کشمیری نوجوانوں کو اغوا اور ہزاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مکمل کرفیو لگا دیا گیا اور اس کے ساتھ مواصلاتی رابطے مکمل طور پر معطل کر دیے گئے۔ بھارتی قابض افواج نے پرامن مظاہرین پر پیلٹ گن سمیت طاقت کا ظالمانہ استعمال کیا۔ پوری آبادی کو تباہ کرنے سمیت مجموعی سزائیں نافذ کی گئیں اور جعلی مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہ نوجوان کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل کیااور تدفین کے لیے ان کی میتیںبھی حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ کشمیری میڈیا اور جنہوں نے آواز بلند کرنے کی جرات کی ان کو کالے قوانین کے ذریعے باقاعدہ طور پر حراساں اور خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔

اس سب صورت حال کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر، انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹس

انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے بیانات میں اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے اور انسانیت کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث بھارتی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو سزا دلوائے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی کارروائیاں بلا خوف و خطر جاری ہیں۔

جناب صدر! اس ظالمانہ مہم کا مقصد آر ایس ایس – بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حتمی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی محاصرے کے بعد مقبوضہ علاقے کے آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ یہ کشمیریوں کی خصوصی پہچان کو مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونے والے استصواب رائے کے نتائج متاثر کیا جائے۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون خاص طور پر چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ علاقے کا آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا جنگی جرم ہے۔

جناب صدر! بہادر کشمیری کبھی بھی بھارتی قبضے اور مظالم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ وہ منصفانہ مقصدکے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نسل در نسل اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔پاکستان کی حکومت اور عوام حق خود ارادیت کے لیے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی جائز جدوجہد میں ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

جناب صدر! بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی اقدامات اور مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے جوہری خطے میں پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کو ہوا دے رہا ہے۔پاکستان نے بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر اشتعال انگیزی اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجودضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔

ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے فلیگ آپریشن اور ناقص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی دوسری کارروائی کے بارے میں مسلسل آگاہ رکھاہے۔

جناب صدر! میرے والدین نوآبادیاتی بھارت میں پیدا ہوئے تھے اور میں اس پہلی نسل سے ہوں جو آزاد پاکستان میں پروان چڑھی۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آر ایس ایس کی قیادت میں بھارت کی فسطائی مطلق العنان حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو پاکستانی قوم اس کا بھرپور جواب دے گی اور اپنی سالمیت کی بقا کے تحفظ تک جنگ لڑے گی۔

جناب صدر! جنوبی ایشیا میں اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک تنازع جموں و کشمیر کو عالمی قانونی بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا۔ کشمیر کو درست طور پر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کو ہر صورت ایک تباہ کن تنازع کو روکنا اور اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔ جیسا کہ اس نے ایسٹ تیمور کے سلسلے میں کیا تھا۔سیکیورٹی کونسل نے گذشتہ سال تین مرتبہ جموں و کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیاہے۔اس کو ہر صورت مناسب عملی اقدامات اٹھانے چاہیں۔ اس کو بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر نسل کشی کی لٹکتی ہوئی تلوار کو روکنے کے لیے بھی آگے آنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ پرامن حل کی بات کی ہے۔ اس لیے بھارت لازمی طور پر گذشتہ سال 5 اگست کو کئے گئے اقدامات واپس لے۔ فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازع جموں و کشمیر کے حل کے لیے متفق ہو۔

جناب صدر!خطے میں امن کے لیے پاکستان کی خواہش کا اظہار افغانستان کے سیاسی حل کے لیے ہماری کوششوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔میرا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ دہائیوں پرانے تنازعہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہےاس کا واحد راستہ سیاسی حل ہے جس میں افغانستان کے تمام سیاسی رہنما شامل ہوں۔پاکستان نے مکمل طور پر اس عمل کی سہولت کاری کی

جو29 فروری 2019کو امریکہ -طالبان امن معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان کو انتہائی اطمینان ہے کہ اس نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ افغان رہنماؤں کومصالحت کے حصول اور جنگ سے تباہ حال ملک میں امن کے قیام کے لیے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیںافغان فریقین کے درمیان 12 ستمبر سے شروع ہونے والے مذاکرات میں مجموعی، وسیع تر اور جامع سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ یہ عمل ہر صورت افغانوں کے درمیان اوران کے زیرسر پرستی ہونا چاہیے۔ جس میںنہ کوئی مداخلت اور نہ ہی کوئی بیرونی اثرو رسوخ۔ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے۔ تقریباً دو دہائیوں کی جنگ کے بعد یہ ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر سے بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کو امن عمل کو تہہ وبالا کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔افغانستان میں امن واستحکام سے ترقی اور علاقائی رابطوں کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔

جناب صدر! فلسطین کا مسئلہ آج بھی ایک رستا ہوا زخم ہے۔ مشرق وسطی ہی نہیں دراصل پوری دنیا کے لیے اس مسئلہ کا منصفانہ اور پائیدار حل ناگزیر ہے۔ فلسطینی علاقے کا غیر قانونی الحاق، غیرقانونی بستیوں کی تعمیر اور فلسطینی عوام کے لیے غیر انسانی رہائشی صورت حال خصوصاً غزہ کے حالات کے نتیجے میں ایک مشکلات میں گرے ہوئے خطے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حدود کے مطابق دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔ جو 1967 سے قبل کی سرحدوں پر واپسی اور القدس الشریف ایک متحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہیں۔

جناب صدر! اقوام متحدہ آج بھی بین الاقوامی تنازعات سے نبرد آزما ہونے، امن و سلامتی کی ترویج مساوی بنیادوں پر ترقیاتی عمل کو فروغ دینے اور عالمی مسائل کے حل کے لیے مجموعی اقدام کرنے کا بہترین قانونی ادارہ ہے۔میں سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ عالمی تنازعات کی روک تھام کے لیے آگے بڑھیں۔انہیں سلگتے ہوئے علاقائی تنازعات اور دیرینہ مسائل کو حل کے لیے سربراہوں کی سطح کے اجلاس بلانے چاہیں۔اقوام متحدہ کو موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر بااختیار ہونا چاہیے۔

جمہوریت، احتساب ، شفافیت اور استعداد کار کے وسیع تر فروغ کے لیے سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں جامع اصلاحات ضروری ہیں۔ پاکستان ا س عمل اور جدو جہدمیںدوسرے رکن ممالک کے ساتھ فعال انداز میں شرکت جاری رکھے گا۔ تاکہ تنازعات سے پاک دنیا وجود مین آئے جہان امن اور سلامتی کے حالات میں سب کی خوشحالی کے لیے مساوی مواقع دستیاب ہوں.

شکریہ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.