عصر حاضر میں والدین کی ذمہ داریاں (مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

مدرسہ تعلیم القرآن افغان کالونی پشاور میں ہر سال بچوں کی حوصلہ افزائی، تعلیمی سفر میں راہنمائی اور والدین کی کاؤنسلنگ کے حوالے سے یوم والدین پروگرام کاانعقاد کیاجاتا ہے۔گزشتہ ہفتے یوم والدین وتقسیم انعامات پروگرام میں مجھے طلباء کرام کے والدین سے مخاطب ہونے کا موقع ملا تو عصر حاضر کے حالات کے مطابق والدین سے چند گزارشات عرض کیئے جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”جلداز جلد اعمال صالحہ اختیار کرلو، اُن فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح یکے بعد دیگرے آئیں گے، آدمی اس حال میں صبح کرے گا کہ وہ ایمان والا ہوگا۔اور شام اس حال میں کرے گاکہ وہ ایمان سے محروم ہوچکا ہوگا۔ دنیا کی حقیر متاع کے عوض وہ اپنا دین وایمان بیچ ڈالے گا۔“ اب اس فتنوں کے دور میں والدین کی ذمہ داریاں پہلے سے ذیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون کے ایک کلک کے دوری پر فتنہ حاضر ہے۔ والدین کو پتہ بھی نہیں ہوگا اور اس کا بچہ فتنوں وگمراہی میں ڈوب چکا ہوگا۔ لہذا اولاد جیسی عظیم نعمت کو اس گمراہی کے دلدل سے بچانے کے لیئے والدین کوپہلے سے ذیادہ چوکنا رہنا ہوگا ورنہ اولاد دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کام آئے گی۔ بہت سے والدین اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس عظیم نعمت اولاد کے تعلیم وتربیت اور کاؤنسلنگ سے اب بھی غافل ہے یا صرف تعلیمی ادارے کے رحم وکرم پر چھوڑ کر بے غم ہوجاتے ہیں کہ ہم اولاد کے حقوق ادا کررہے ہیں۔ بیشک یہ بھی حق ہے کہ تعلیمی ادارے کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر لے مگر عصر حاضر میں تعلیمی ادارے کے ساتھ ساتھ بچے کے تربیت و ہر حرکت پر خود بھی چیک اینڈ بیلنس رکھنا پڑتا ہے۔
علماء کرام اور ماہرین کے مطابق تعمیر شخصیت کے حوالے سے ایک بچے کی زندگی پر غور کریں تو دو چیزیں ہیں جو بچے کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور بچے کی شخصیت کے بننے اور بگڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔پہلے نمبر پر بچے کے والدین ہیں۔ بچے پر اپنے ماں باپ کی شخصیت اوتربیت کے اثرات ہوتے ہیں،اگر ماں باپ نیک سیرت ہیں تو یہ اثر موروثی طور پر بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔بچے پر والدین کے اثرات اس دن سے شروع ہوجاتے ہیں جس دن بچے کی اُمید ہوجاتی ہے۔اگر والد ابراہیم ؑ ہو اور بیوی ہاجرہ ؓ ہوتو پھر بیٹا اسماعیل ؑ بنا کرتا ہے،اسی طرح باپ حضرت علی ؓ ہو اور ماں فاطمۃ الزہراؓ ہوں تو پھر بیٹے حسنؓ اور حسین ؓ جنت کے سردار بناکرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ماحول ہے۔ بچوں کو جیساماحول دیں گے، جس ماحول میں رکھیں گے اسی کے اثرات اس پر نقش ہوتے جائیں گے۔ بچے کی مثال پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہے۔ اس کو جس سانچے میں آپ ڈھالیں گے یہ اسی سانچے میں ڈھل جائے گا۔ سانچہ آپ نے ڈھونڈنا ہے، نیکی کا یابرائی کا۔۔۔۔ ڈھلنا بچے نے ہے۔لیکن جب ایک دفعہ ڈھال لیتے ہیں، اب بیٹھ کر روتے پھریں گے کہ میں نے غلط سانچے میں ڈھال دیا۔لیکن اب کچھ نہیں ہونے والا۔ اسلیئے بچے کو دینی وقرآنی ماحول فراہم کرنا والدین کی اولین اور اہم ذمہ داری ہے۔اسی لیئے حدیث میں نبی کریم ﷺ فرماتا ہے کہ ”تم میں سے ہر شخص نگران (ذمہ دار) ہے اور ہر ذمہ دارسے اس کے ماتحتوں کے حوالے سے سوال ہوگا“۔ اسی لیئے بچوں کا والدین پر یہ اہم حق ہے کہ والدین اس کے لیئے بہترین تعلیم وتربیت کا انتظام کریں۔ اگر کسی والدین نے اس ذمہ داری میں غفلت کی تو یقیناً اس اولاد کے متعلق قیامت میں اس سے پوچھ گچھ ہوگی اور حقیقت میں یہی اولاد یتیم تصور ہوگی۔ عصر حاضر میں اولاد کے تعلیم وتربیت کیلئے چند بنیادی باتوں پر عمل کرنا والدین اور مربیین کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اول بات والدین اور مربییّن ؓبچوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، بچےانہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور ان کے اخلاق وعادات کو دیکھتے ہیں لہذا وہ اپنے والدین اور مربیین کو سچ بولنے والے پائیں گے توان کی نشوونما صدق وسچائی کی صفت پر ہوگی، اسی طرح باقی اُمور کا حال ہے۔ اسی لیئے رسول اللہ ﷺ نے والدین کو بچوں کے معاملات میں صدق وسچائی کی ترغیب دی ہے۔ایک حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ”جو شخص بچہ سے کہے کہ ادھر آؤ (یہ چیز لے لو) پھر اسے کچھ نہ دے تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے“۔
دوسری بات اصلاح وتربیت کے لیئے مناسب وقت کی تعین ہے۔ بچوں کی اصلاح وتربیت کے لیے والدین اور مربیین کامناسب موقع اور وقت کا انتخاب ایک ایسا عمل ہے جس کا نصیحت کے کارگر اور مفید ثابت ہونے میں بڑا اہم رول وکردار ہے۔ اور یہ چیز عملی تربیت کی جدوجہد کو آسان بناتی ہے۔ سیرت اگر دیکھی جاتے تو نبی کریم ﷺ نے بچوں کی صحیح سمت پر رہنمائی کے لیے اساسی طور پر تین اوقات پیش فرمائے ہیں (1)تفریح کا وقت۔ تفریح کے وقت بچہ آپ کی ہر بات سنتااور مانتاہے۔ حضرت ابن عباس ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھا (جارہے تھے) تو آپﷺ نے فرمایا اے لڑکے! میں نے کہا جی حاضر ہوں، آپﷺ نے فرمایا تم اللہ کے دین کی حفاظت کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ (2)کھانے کا وقت۔ بچے کھانے کے دسترخوان پر اکثر ناشائستہ حرکات کرتے رہتے ہیں۔ پس اگر اس دوران ان کو آداب نہ سکھائے جائے تو پھر بعد میں عادت پڑ جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن ابی سلمہ رض فرماتے ہے کہ میں حضور ﷺ کی زیر پرورش ایک بچہ تھا، میرا ہاتھ پلیٹ میں بے جاحرکت کرتا تھا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے! بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ“۔ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طرح کھاتا رہا۔ (3)بیماری کا وقت۔ بیماری کے وقت ہرکسی کا دل رقیق ہوجاتا ہے اور پھر بچوں کے دل تو ویسے بھی نرم ہوتے ہیں، تو اس دوران بات کو خوب سُنتے اور مانتے ہیں۔ حضرت انس ؒ سے نقل ہے کہ ایک یہودی لڑکا،نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ ایک دن بیمار ہوگیا تو نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کے لیئے تشریف لائے۔ آپ ﷺ اس کے سرہانے بیٹھے، پھر فرمایا کہ ’اسلام قبول کر‘وہ اپنے والدکی طرف دیکھنے لگا جو کہ اس وقت اس کے پاس کھڑا تھا۔ والد نے اسے کہا کہ آپ ﷺ کی اطاعت کرو، چنانچہ وہ مسلمان ہوگیا، پھر آپ ﷺ یہ فرماتے ہوئے وہاں سے واپس آئے کہ ”اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اس بچہ کو دوذخ سے نجات دلادی“۔ دیکھو اس سے پہلے نبی ص نے اسلام قبول کرنے کی بات نہیں کی اور اب بیماری کے وقت کہی تو یقیناً یہ دعوت کا موزوں وقت تھا۔
تیسری بات اولاد کے درمیاعدل ومساورت قائم کرنا۔ اس چیز کو بچوں کے نیک اور فرمان بردار ہونے میں بڑا گہرا دخل ہے۔ والدین اگر ایک بیٹے کو ذیادہ توجہ ومیلان رکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کرتے ہے تو اس سے بچے میں بذمزاجی اور بداخلاقی کے ساتھ حسد بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ والدین کے لیئے تربیت کی راہ میں رکاؤٹ ثابت ہوسکتا ہے۔اسلیئے ہمیشہ بچوں کے درمیان عدل ومساورت کا معاملہ کرنا چاہیئے۔
چوتھی بات بچوں کے حقوق کی پاسداری اور جائز بات ماننا ہے۔ کیونکہ اگر آپ بچے کے حقوق پوری کرتے ہے اور ہر جائز وصحیح بات اس کی تائید کرتے ہیں تو اس سے بچے کے دل ودماغ میں مثبت فکر پیدا ہوتی ہے۔ہاں ناجائز بات میں اس کا نہ مانے بلکہ سمجھائے کہ اس میں اس کا کیا نقصان ہے۔
پانچویں بات اولاد کیلئے دعائیں کرنا ہے۔ کیونکہ والدین کی دعاء اللہ کے ہاں قبول ہوا کرتی ہے۔نیز دعاء سے عاطفت ورحمت کا جذبہ اُبھرتا ہے اور والدین کے دلوں میں بچوں کی رحمت وشفقت جاگز یں ہوتی ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بچوں کی اصلاح وبہتری اور ان کے مستقبل کی فلاح وبہبود کے لئے خوب گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں اور یہ انبیاء ؑ کی سنت بھی ہے۔ اور کھبی بھی اولاد کے لیئے بددعا نہ کریں۔ کیونکہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اگر چہ تنگ کریں تو بددعاء بھی اس انداز سے کریں کہ وہ دعاء ہوں۔ جیسا کہ امام کعبہ الشیخ عبدالرحمن السدیس فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں کوئی شرارت کرتا تو والدہ فرماتی کہ اللہ تجھے کعبے کا امام بنادے۔ تو میں سوچتا کہ یہ والدہ کیا کہہ رہی ہے، اب میں سمجھا کہ والدہ نے مجھے عظیم دعاء دی تھی جو قبول ہوئی ہے۔
چھٹی بات نیک کاموں میں بچوں کی معاونت کرنا۔ بچوں کو ایسے اسباب ومواقع فراہم کرنا جس سے اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ پیدا ہوجائے۔بچوں کو سکول کے ساتھ ساتھ لازمی ایک گھنٹہ کیلئے قرآنی تعلیم کا مناسب ماحول میں انتظام کرانا۔ قرآن کے درس میں اس کو بٹھانا کیونکہ اصلاح کا مؤثر ترین ذریعہ قرآن کریم ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس والد پر اپنی رحمت فرمائے جو نیکی کے کام میں اپنے بچوں کی معاونت کرتا ہے۔
ساتویں بات بچوں کو حد سے ذیادہ ملامت اور عتاب کرنے سے اجتناب کرنا۔ حضرت انس ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال نبی کریم ﷺ کی خدمت کی ہے، آپ ﷺ نے مجھے کوئی حکم دیا اور میں نے اس کو بجالانے میں سستی کی ہوں یا وہ کام کیا ہی نہ ہوتو آپ ﷺ نے کبھی مجھے ملامت نہیں کیا اور اگر گھر کا کوئی فرد مجھے ملامت کرتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ اسے چھوڑ و۔
آٹھویں بات بچوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا۔ آج کل باہر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے، تو بچوں کے یر عمل کی نگرانی کرنا ضروری ہے۔ بچے کہاں جاتے ہیں؟ کسی کے ساتھ اُٹھتے بٹھتے ہیں؟ خصوصاً موبائیل کے حوالے سے والدین کی نگرانی لازمی ہے۔
آخری بات جو والدین کو یاد رکھنی ہے۔ کہ بچے کی زندگی کے تین مراحل ہیں۔اسکے حوالے سے والدین کو خیال رکھنا ہوگا۔
1)1سے9سال تک بچہ آپ کا غلام ہوتا ہے۔ اس کو جو بات کہے گے وہ مانے گا۔ لہذا اس مرحلے میں تربیت پر خاص توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
2) 9سے14سال تک بچہ آپ کا مشیر ہوتا ہے۔ وہ آپ کی بات مانتا ہے مگر مشورہ بھی دیتا ہے۔
3)15سال سے اُوپر بچہ یا تو دوست ہوتا ہے یا دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اس پہلے دو مرحلوں میں اچھی تربیت کی ہوگی تو وہ آپ کا دوست بن جانا ہے۔اور اگر کوتاہی کی ہوں تو دشمن بن جاتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.