روحانی شخصیت سید علی غواص ترمذی المعروف پیرباباؒ (آخری قسط)حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0


سال کے بعد پھر جب پیربابا نے اپنے وطن قندوزجانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ یوسفزئیوں کے علاقہ میں تین بدعقیدہ پیروں نے عوام کو گمراہ کررکھا ہے،جن کے ہاں رقص وسرود کی محفلیں جمتی ہیں،جن میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا مخلوط رقص ہوتا ہے اور دیگرخلاف شریعت اور ناجائز کام ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں، آپ وہاں جاکر دین اسلام اور شرعی احکامات کی تبلیغ کریں،تاکہ لوگوں کو ان گمراہ پیروں کے پنجے سے نجات مل سکے اورلوگ دین اسلام سے واقفیت حاصل کرسکیں،جب پیربابا ان حالات سے باخبرہوئے توانہوں نے اپنے وطن قندوزجانے کا ارادہ ترک کردیا اور مردان کے علاقہ سدوم چلے گئے اور وہاں جا کر گدر حمزہ خان نامی گاؤں میں رہائش اختیار کرکے وعظ ونصیحت شروع کردی،تینوں بدعقیدہ پیر وہاں سے بھاگ گئے لوگوں کو ان سے نجات ملی اور ان کی گمراہی سے بچ گئے،پیربابا نے دوسال سدوم میں گزارے،وہاں سے لوگوں کے اصرارپر بونیر تشریف لے گئے اورسڑہ چینہ نامی گاؤں میں رہائش اختیار کی،آپ نے وہاں درس جاری کیا اور اردگرد کے تمام گاؤں وعظ ونصیحت کا سلسلہ شروع کردیااور گاؤں گاؤں درس وتدریس کاعمل جاری ہوگیا،یہاں آپ نے جعفرپہاڑ کے غار میں دوسال چلہ کاٹا،چلہ کاٹنے کے بعد آپ پاچا نامی گاؤں چلے گئے وہاں آپ نے ایک مسجد تعمیر کی اورمدرسہ عالیہ کے نام سے دینی درسگاہ بناکر درس وتدریس کا سلسلہ جاری کیا،علاقہ کے چند بڑے سرداروں اورملکوں نے مل کر پیر بابا کی شادی کے بارہ سوچا کہ آپ یہاں سے چلے نہ جائیں اس لئے آپ کی شادی کرادی جائے،ملک دولت خان نے اپنی بہن مریم بی بی حضرت پیربابا کے عقدِ نکاح میں دے دی۔شادی کے بعد پیربابا نے دوگڈہ نامی گاؤں میں اپنامکان تعمیر کیا مسجد بنائی اور وہیں رہائش اختیار کی۔طویل عرصہ کے بعد آپ اپنے وطن قندوز تشریف لے گئے،آپ کے والد کا انتقال ہوچکاتھا والدہ ضعیف تھیں،انہوں نے پوچھا بیٹا!اتناعرصہ کہاں تھے؟پیربابا نے سارا واقعہ بیان کیا کہ میں یوسفزئیوں کے علاقہ بونیر میں رہائش پذیر ہوں میرے چار پانچ بچے ہیں،والدہ صاحبہ نے کہا اب زیادہ یہاں نہ ٹھہرو جاکر اپنے بیوی بچوں کو لے کر آؤ اور اگر وہ کسی وجہ سے یہاں نہیں آتے تومیں نے اپنا حق معاف کردیا ہے وہیں رہائش اختیار کرلو تاکہ ان لوگوں کا حق ہماری گردن پر نہ آئے۔“پیربابا واپس بونیر آئے اور ہرسال واپس اپنے وطن قندوزجانے کا ارادہ فرماتے مگر حالات ایسے پیدا ہوجاتے کہ آپ کوجانے کا موقع نہ ملتا، اس عرصہ میں آپ نے لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح کی،انہیں دین اسلام کے اعمال سمجھائے،بدعقیدہ جاہل پیروں کا تعاقب کیا۔آپ اکثر اردگرد کے دیہاتوں میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے دورے کرتے اور صرف اللہ کی رضاکے لئے اہل بدعت اور گمراہوں سے بحث مباحثہ کرتے اور غلط کار پیروں کے بارے میں ببانگ دہل اعلان فرماتے کہ ان سے بچو ایسا نہ ہو کہ ہلاک کردئے جاؤ۔آپ کی توجہ کاملہ اس حدکمال تک پہنچ چکی تھی کہ جوبھی طالب حق آتا آپ کی توجہ کی برکت سے قید ماسواللہ سے آزادہوجاتا،چنددنوں میں سیر باطنی مکمل کرکے فنافی اللہ اور بقاباللہ کے مقامات حاصل کرلیتا,بڑے بڑے علماء اور صلحا ء آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہوئے۔آپ سے بیعت کرکے سات بڑے بڑے متبحرعلماء اور اخوند آپ کے مرید ہوئے ان میں سب سے زیادہ ممتاز حضرت اخونددرویزہ صاحبؒ ہیں۔
حضرت پیرباباؒ نے اپنے مشہورزمانہ خلیفہ ومازون شیخ الاسلام حضرت مولانااخوند درویزہؒ کے ساتھ مل کر اس وقت کے سب سے بڑے فتنہ گر بایزید انصاری ]م 1581ء[کا مقابلہ کیا،اس کے ساتھ مناظرے کئے،جہاد معرکے لڑے اس کی گمراہی سے عوام کو آگاہ کیا، بایزید انصاری جو اپنے آپ کو پیرروخان کہتا تھا آپ نے اس کو پیرتاریک کا لقب دیا یہ لقب اس قدر مشہور ہوگیا کہ آج تک بایزید انصاری کو پیرتاریک کے نام سے یادکیاجاتا ہے۔یہ شخص نبوت کے دعویداری کے ساتھ بے شمار گمراہیوں کا مجموعہ تھا،حضرت پیربابا اور ان کے خلیفہ حضرت اخوند درویزہ بابا نے عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ انتہائی مردانہ وار اس شعبدہ باز کا مقابلہ کیا اور اس کو پشاور کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کیا۔آپ کی طبیعت میں اس قدر سخاوت تھی کہ کوئی سائل بھی آپ کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا، مسافروں کو زادِ راہ مہیاکرتے،بیماروں کی عیادت کے لئے ساتھ مالی امداد بھی کرتے،آپ کالنگر خانہ ہر وقت جاری رہتا تھا اور بے شمارلوگ آکر روٹی اور کپڑا حاصل کرتے،آپ تمام اخلاق حمیدہ سے متصف تھے جوایک کامل ومکمل انسان کے لئے زیب ہیں،آپ کے مکشوفات،کرامات،خوارق عادات بے شمار ہیں اور جو شخص مقام غوثیت پر فائز ہو اس کے لئے ان باتوں کا ذکر ہی بے سود ہے۔
حضرت پیربابا ؒکے چھ بچے تھے،تین لڑکے اور تین لڑکیاں۔بڑے صاحبزادے کانام سید قاسمؒ تھا جن سے حضرت پیرباباکی نسل چلی ہے،ان کا مزار کونڑ افغانستان میں ہے،دوسرے کا نام سید حبیب اللہ ؒتھا ان کی اولاد نہیں ہوئی پیربابا کے قبرستان میں مدفون ہیں،تیسرے کانام سید عبداللہ ؒتھا یہ بچپن میں فوت ہوئے،بڑی صاحبزادی ماینار ابئی کے نام سے مشہور ہوئیں،جن کی شادی اپنے ماموں زاد سے ہوئی تھی،دوسری صاحبزادی برکازئی ابئی کے نام سے مشہور ہوئیں،ان کا نکاح ایک قندہاری سیدعالم سے ہوا تھاباجکٹہ بونیر میں مدفون ہیں،تیسری صاحبزادی عائشہ بی بی کی شادی حضرت اخونددرویزہ بابا کے بڑے صاحبزادے محقق افغان حضرت مولانا عبدالکریم عرف کریم دادشہیدؒسے ہوئی تھی،جن کا مزار سلام پور گاؤں سوات میں ہے نیا ابئی کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی وفات ۱۹۹ ھ /1583ء میں بونیر پاچاکلے میں ہوئی،آپ کا مزار مشہور ومعروف اور مرجع خلائق ہے۔لیکن افسوس کہ بعض قوم پرست،سیکولر،لادین اور سگِ دنیا مورخین ومصنفین اور قلم کاروں نے پیرتاریک بایزید انصاری کی محبت میں حضرت پیر باباؒ اور ان کے خلیفہ اجل شیخ الاسلام حضرت مولانااخوند درویزہؒ کو مغل حکمرانوں کا ایجنٹ بتایا ہے،ان عقل کے اندھوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص اپنے والد سے پیسہ اس لئے نہیں لیتا کہ وہ شاہی دربار کا ملازم ہے،جو شخص اپنے سگے ماموں ہمایوں بادشاہ کے دربار میں قدم رکھنے کو پسند نہیں کرتا،جو شخص والد کابنایاہوا قیمتی لباس اپنے جسم پر برداشت نہیں کرتا،جس کی ساری زندگی والدین سے دور اس لئے گزرتی ہے کہ ان کا تعلق شاہی دربار سے ہے،جوشخص شاہی ٹاٹ باٹ کوترک کرکے فقیری کی زندگی اختیار کرتا ہے اور ساری زندگی شاہی دربار کے مقابلہ میں بونیر کے پہاڑوں میں اس لئے گزارتا ہے کہ لوگوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جوڑدیاجائے،جوشخص بے شمار لوگوں کو دنیا کی گندگی سے نکال کر اللہ کا عاشق بناتا ہے،جوشخص شریعت وطریقت کے راستے پر خود بھی گامزن ہو اور بے شمار لوگوں کو اس راستے پر لاکر سچا مسلمان بناتا ہو،جس شخص کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اتباع سنت میں گزرا ہو،جس شخص کو ساڑھے چار سوسال تک لوگ غوث ابدال جانتے ہوں جس کے کشف وکرامات کی ایک دنیا قائل ہو،جس کی قبروں سے آج بھی نوروہدایت کے فوارے پھوٹتے ہوں کیاایسے لوگ چند ٹکوں کے لئے کسی حکمران کے ایجنٹ کیسے بن سکتے ہیں؟ مگر عربی کا مقولہ ہے آدمی دوسرے کو بھی اپنے او پر قیاس کرتا ہے،جس طرح یہ لوگ سگ دنیا بن کر حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر مال ودولت جمع کرنے کی حرص رکھتے ہیں،اپنی اسی گندی ذہنیت کے مطابق ان بزرگوں کوبھی اپنی طرح سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بزرگ بھی چندٹکوں کے لئے ایمان کا سودا کرسکتے ہوں؟لیکن حضرت پیرباباؒاور ان کے خلیفہ حضرت اخونددرویزہؒ ان لوگوں میں سے تھے جن کے سامنے دنیا کے تمام اموال اور خزانے مچھرکے پر کے برابربھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے،بے دین،جاہل،اہل اللہ وعلماء سے بغض وعداوت رکھنے والے اور نفسانی خواہشات کے غلاموں کی طرف سے دیندار لوگوں پر تہمتوں اور بہتان تراشیوں کا سلسلہ صرف ان بزرگوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ میں اسی طرح ہوا ہے اور ہراُس دیندار شخص کوجس نے باطل قوتوں کے شیطانی منصوبوں کوچیلنج کیاہے،جس نے دجالی سیاست کوپاؤں تلے روندنے کی کوشش کی ہے،اس مردِ میدان کو ہمیشہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے،مگر جس طرح پہلے زمانہ کے دین دشمن ناکام ہوئے ہیں اسی طرح آج کے دین دشمن بھی منہ کی کھائیں گے،ان کی روز روز کی پریس کانفرنسیں ان کے اوپر لوٹیں گی وہ وقت دورنہیں جب یہ عوام کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے،حضرت پیربابارحمہ اللہ اور اخوند درویزہ رحمہ اللہ نے ساری زندگی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرکے عظیم مقام پایا ہے،ان کے پیروکاربھی سرخرو تھے اور تاقیامت سرخرو رہیں گے،ان شاء اللہ العزیز۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.