“ع”محبت کے“م”سے پہلے آتا ہے! تحریر…ڈاکٹر انعم پری

ڈاکٹر انعم پری کالم نگار
0


زندگی کا ہر موڑ ہی حَسِین ہوتا ہے بس یہ آپ پہ منحصر ہے کے آپ کیا سوچتے ہیں؟اور کیسے سوچتے ہیں؟پتہ ہے روحا، میری جان! جب تمھارے نانا ابو نے پہلی بار اپنا فیصلہ سنایا تھا نہ تو میں بھی پہروں روئی تھی- مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا کے جیسے مجھے اپنے ہی گھر سے الگ کر دیا گیا ہو- جیسے مجھے اپنوں سے ہی الگ تھلگ زندگی میں دھکیل دیا ہو – لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا میری جان!تو ماما کیا نانا ابو نے آپ سے پوچھے بغیر بس فیصلہ کر دیا تھا شادی کا؟ نہیں تو! مجھ سے بھی رائے ہی تو مانگی تھی – جیسے کل تمھارے پاپا نے تم سے مانگی ہے -بس اسی طرح میں نے بھی زار و قطار رونا شروع کر دیا تھا-یہ تو صدیوں سے دستور ہے کے بیٹیوں کو اک دن پرائے گھر جانا ہی پڑتا ہے اور یہ تو سنت ہے نا؟
(ماما میرا سر اپنی گود میں رکھے کب سے مجھے سمجھا رہی تھیں)۔
روحا بیٹا تم بھی گھبراؤ مت، بس اللہ پہ یقین رکھو اور بہتری کی دعا کرو- ان شائاللہ سب بہترین ہی ہوگا-پتہ نہیں میری جان ہم نے اپنی پوری زندگی اچھی گزاری یا بری پر ہمیشہ کوشش کی کہ تم لوگوں کی پرورش بہترین کر سکیں – وقت کسی کے لیے نہیں رکتا بس چلتا ہی جاتا ہے اور اِس کے ہر پل رنگ بدلتے ہیں، اسی طرح حالات اور انسان بھی بدلتے ہیں – پتہ ہے میری دادی ماں کہا کرتی تھیں انسان کو سب سے زیادہ مشکل ہوتی ہے جب اسے کوئی عادت چھوڑنی پڑتی ہے- بیٹا زندگی میں نا محبت کے ‘م”سے عادت کا ‘ع’ بہت بہتر ہے اور کوشش کرنا اگلی زندگی میں بھی محبت ہو یا نہ ہو، اسے تمھاری عادت ضرور ہو -عورت تو گندھی ہی محبت کی مٹی سے ہے- وہ تو محبت کے“م’ پہ جان دینا ازل سے جانتی ہے اور ابد تک دیتی آئے گی پر تم ‘ع’ کی فکر ضرور کرنا-
نہ جانے کب سے خلاؤں میں گھور رہی ہو کچھ تو بولو! کیوں پریشان ہو؟ ابھی تو صرف رشتہ آیا ہے روحا -جب تک تم ہاں نہیں کہو گی ہم میں سے کوئی آگے بات نہیں بڑھائے گا-
ماما میں تو بس آپکی بات پہ غور کر رہی ہوں – کتنی گہری بات کہی ہے نا آپ نے؟ یہ کتنا کڑوا اور گہرا سچ ہے نا کے ہماری عادتیں ہمیں اپنے ہر رشتے تو کیا رب کے آگے بھی کتنی عزیز ہوتی ہیں – جیسے مثال کے طور پہ کسی کو زیادہ سونے کی عادت ہو یا گھومنے پھرنے کی ہم اِس سب میں اپنے رب کے آگے حاضر تک ہونا بھول جاتے ہیں -نماز نہیں ادا کرتے، اکثر اپنی بے وجہ مصروفیت میں لگے رہتے ہیں –
ماما میں اِس سے ہٹ کر چاہتی ہوں – میں نے ساری زندگی بہت سی محبتیں دیکھی ہیں – اپنے ارد گرد ہر رشتے میں محبت ہی پائی ہے پر محبت عزت کے بغیر بالکل ادھوری اور کھولھلی ہے- میں اِس لیے پریشان ہوں کہ میں صرف یہ نہیں سوچ رہی کہ کیا وہ میری زندگی میں شامل ہونے والا شخص میری امیدوں پہ پُورا اتر پائے گا کہ نہیں – بلکہ مجھے یہ چیز زیادہ پریشان کر رہی ہے کے کیا میں اک انجان شخص جو کے ازل سے میرا نصیب ہے اسکی اُمیدیں پوری کر سکوں گی؟ ماما کیا آپ کو پتہ ہے میری زندگی میں بھی ہمیشہ سے ‘ع’ محبت کے ‘م’ سے پہلے آیا ہے لیکن فرق یہ ہے کے یہ ‘ع’ سے عادت نہیں ہے بلکہ عزت ہے- اس عزت سے میری مراد ہر دکھاوے کا یا بظاہر آپ جناب نہیں ہے -میں اس عزت کی بات کر رہی ہوں جو کے کسی بھی رشتے کی روح ہونی چاہیے- پتہ ہے ماما یہ وہ عزت ہے جسکی بدولت ہر وقت دو
انسانوں کا ساتھ رہنا ضروری نہیں ہے بلکہ ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی انکا احساس ہونا ضروری ہے – یہ وہ عزت ہے جس میں اگر دونوں فریقین میں سے ایک موجود نہ بھی ہو تو کسی کی جرات نہ ہو کے اس انسان کے بارے میں کچھ غلط کہہ جائے – یہ وہ عزت ہے جس میں اپنے سے بھڑ کر دوسرے پہ بھروسہ کرتے ہیں – یہ بالکل وہ عزت ہے جسکے مطابق دو انسان اک دوسرے کے لیے راحت و سکون کے ساتھ ساتھ حقیقی خوشی کا باعث بنتے ہیں – ایسی خوشی جو انسان کا اندر باہر دونوں نکھار دیتی ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں ماما جو لوگ اس عزت کے رشتے میں بندھتے ہیں نا وہ چاہت کا اصل عکس پہچان جاتے ہیں – اس عزت کے رشتے میں بندھنے کے لیئے دو فریقین کو مکمل طور پر بھترین یا انگریزی میں کہیں تو پرفیکٹ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ جو جیسا ہے اُسے ویسے ہی اپنانے کا نام ہے لیکن اس میں وہ کمال طاقت ہے کہ انسان خود دوسرے انسان کی خاطر اپنی برائیوں کو دور کرنا چاہتا ہے- یہ وہی ہے جس میں دو لوگ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال کرتے ہیں -یہ بالکل وہی عزت ہے جس میں کسی کی موجودگی بناکچھ بولے یا بنا کچھ بھی کئیآپ کے لئے دھارس بن جائے۔جسکے صرفآس پاس ہونے سے آپ دنیا فتح کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔
یہی عزت ہے جسے قرآن نے بہت خوبصورتی سے لباس کا نام دیا ہے – ماما جیسے ہمارا لباس ہماری پہچان ہوتا ہے نا،کبھی کبھی ہم کتنا اسے سجا کرسنوار کر پیش کرتے ہیں، اسی طرح ہمارا جیون ساتھی بھی اللہ کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو دنیا میں ہماری پہچان ہے- ہماری عزت ہے ہمارا لباس ہے-ماما جن دو انسانوں کی تقدیر میرے مولا نے ساتھ لکھ دی۔محبت تو ازل سے ان دو انسانوں کے درمیان موجود ہے اور ابد کے بعد تک رہے گی –آپ کو پتہ ہے اللہ تعالی کہتے ہیں جب دو فریقین کے درمیان نکاح کا خوبصورت اور مضبوط بندھن بندھتا ہے نہ تو میں ان کے دلوں میں اک دوسرے کے لیے محبت ڈال دیتا ہوں پِھر آپ ہی بتائیں محبت کی کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ میں کیسے کہوں کہ مجھے محبت کی فکر ہے؟یہ تو میرے رب کا وعدہ ہے لیکن ہاں مجھے ‘ع’ کے بارے میں سوچنا ہے -مجھے ‘ع’ کو ‘م’ سے آگے رکھنا ہے –
میں پتہ نہیں ٹھیک ہوں یا غلط ماما،لیکن میرے لیے ‘ع’ ‘م’ سے پہلے آتا ہے اور شاید ہمیشہ آتا رہے گا –
یہ سب کہہ کر روحا تو اپنے کمرے میں چلی گئی تھی لیکن مجھے شاید ایک الگ ہی راہ دکھا گئی تھی اور شاید اپنی شادی کے ستائیس سالوں بعد میں نے بھی ‘ع ‘سے عادت نہیں بلکہ ‘ع’ سے عزت کا سبق سیکھ لیا تھا- پردہ پوشی کرتی، اک دوسرے کا لباس بنی،چادر کی طرح ہر دکھ سکھ،سردی گرمی میں ڈھانپتی ہوئی عزت۔واقعی میں عزت ہی تو محبت کی روح ہے، ابتدا بھی اور انتہا بھی!

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.