اسلام اور پردہ کی تقریب رونمائی(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

گزشتہ روز مولانا محمدطاہر تنولی کی نئی تصنیف ”اسلام اور پردہ“کی تقریب رونمائی شنواری ہوٹل اوگی میں منعقد ہوئی۔جس کے مہمان خصوصی امام کعبہ کے استاذ حضرت مولانا قاری عبدالحلیم صابر صاحب تھے،دیگر مقررین میں راقم الحروف کے علاوہ اسلامک رائٹرزموومنٹ پاکستان کے مرکزی صدر مولانا طارق نعمانی گڑنگی مانسہرہ،اسلامک رائٹرزموومنٹ کے پی کے کے صوبائی رہنما مفتی فیصل مجید اعوان اسلام آباد،مولانا عبیدالرحمن حیدری،مولانا عمر تاج،محمدجمیل ای ڈی او،سربلند خان صدر ایوان تجارت اوگی شامل تھے،تقریب میں کافی تعداد میں علماء کرام اور دیگر دوست واحباب نے شرکت کرتے ہوئے تقریب کو رونق بخشی۔مقررین نے مولف کتاب مولانا طاہر تنولی کی تصنیفی کاوشوں پر موصوف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اس کے مطالعہ اور پردہ کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔پردہ اسلام کا وہ شرعی حکم ہے جس میں لاکھوں خوبیاں پنہا ں ہیں،اسلام سے قبل بے پردگی عام تھی جس کی وجہ سے بے حیائی ہرطرف پھیلی ہوئی تھی،کیونکہ پردہ شرم وحیا اور غیرت کا تقاضاکرتا ہے جبکہ بے پردگی فحش،بے حیائی اور بے غیرتی کا تقاضاکرتی ہے،اسلام سے قبل اسی بے پردگی کے نتیجے میں معاشرہ تباہی وبربادی کی آخری حدود کو پہنچ چکاتھا،جس کی وجہ سے سرعام شراب وشباب کی محفلیں جمتی تھیں، اسلام نے بے حیائی اور بے پردگی کوروکنے کئے احکامات صادرفرمائے تاکہ معاشرہ اس قسم کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے،سورہئ نورمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اور عورتوں کو چاہئے کہ اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالیں رہیں“(النور ۱۳)یعنی دوپٹہ سروں سے چہرہ اور گلے کو ڈھانکتے ہوئے سینہ کو بھی اچھی طرح چھپائیں،اس میں ضمناً چہرے کا ڈھانکنا بھی آگیا کیونکہ اصل جمال اور فتنہ کاسامان ہی چہرہ ہے لہذاچہرے کا حجاب بطریق اولیٰ ثابت ہوگیا۔اسی آیت میں آگے عورتوں کو زمین پر پیر پٹخ کر چلنے کی ممانعت آئی ہے اور یہ ممانعت اس لئے ہے کہ کہیں پازیب کی جھنکار اور زینت سے واقف ہوکر کوئی گرویدہ نہ ہوجائے،حالانکہ نقاب میں رہ کر پیرپٹخنے والی کالی گوری،جوان،بوڑھی،حسین اور بدصورت کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے،اگر پازیب کی آواز کو پردہ میں رکھا گیا ہے توکیا یہ ممکن ہے کہ ایک حسین وجمیل جوان عورت کو سرخی پاؤڈر اور زیب وزینت کی تمام فتنہ سامانیوں کے ساتھ کھلے چہرہ گھومنے کی اجازت ہوجائے؟ہاں بڑی عمر کی بوڑھی عورتوں کے لئے چہرہ کھول نے کی اجازت دی گئی ہے مگر اس کے بارہ میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے ”بوڑھی عورتیں جن کی عمر بالکل ختم ہو،اور ان میں اب کسی کوترغیب باقی نہ رہی ہو(سورہ نور ۰۶)،قرآن مجید میں صرف انہیں کو(فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُناح)کے الفاظ سے چہرہ کھولنے کی اجازت ضروردی ہے،لیکن آگے (وَاِنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ)کی ترغیبی الفاظ لاکر ان کو بھی ترغیب دی ہے کہ چہرہ کو ڈھانکنا تمہارے لئے بہرحال افضل ہے،یہاں (اِنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ)سے پورے یا آدھے کپڑے اُتارنا نہ تو مرادے نہ عرفا ًایسا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عالم ومفسرنے یہ معنی لئے ہیں،یہاں اجازت چہرہ کھولنے کی دی جارہی ہے،بوڑھیوں اور صرف بوڑھیوں کو چہرہ کھولنے کی اجازت،واضح مطلب یہی ہے کہ ان سے کم عمر والیوں کو چہرہ کھولنے کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں ہے۔آیت حجاب کی تفسیر میں قرآن پاک بہترین ماہر حضرت عبداللہ بن عباس ؓکا فرمان ان الفاظ میں ہے کہ ”مسلمان عورت کو جب کسی مجبوری سے باہر نکلنا پڑے تو ان کو جلباب یعنی بڑی چادریں اپنے سروں پر اس طرح اوڑھ لینا چاہئے کہ رخسار،گردن،گلا اور سینہ پوری طرح چھپ جائے اور راستہ دیکھنے کے لئے صرف ایک آنکھ کھلی ہونی چاہئے،صحابی کی تفسیر حجت ہی نہیں بلکہ بقول بعض علماء مرفوع حدیث کادرجہ رکھتی ہے،حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو عورتیں ایسی توضع وانکساری سے سروں پر کالی چادریں ڈال کر نکلتی تھیں گویا ان کے سروں پر کوئے بیٹھے ہوں جو ذرا سی حرکت سے اُڑجائیں گے۔دور نبوی میں صحابہ کرام کی عورتیں مکمل پردے میں نکلتی تھیں،جس کی واضح دلیل بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺنے عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم ارشاد فرمایا تو بعض صحابیات نے عرض کیا کہ ہم میں سے بعض کے پاس جلباب (بڑی چادر)نہیں ہے،تو ارشاد نبوی ہوا کہ”خواتین اپنی بہنوں کو اپنے جلباب میں کرلیا کریں“اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ صحابیات بغیر حجاب کے باہر نہیں نکلتی تھیں۔افسوس صدافسوس ہے کہ آج مسلمانوں نے اسلام کے ان خوبصورت احکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے،پردہ اور حجاب کو دقیانوسیت اور قدامت پسندی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے،پردہ کرنے والی خواتین کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھاجاتا ہے،انہیں برے القاب سے یادکیاجاتا ہے،ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک روارکھاجاتا ہے۔بے پردگی کے سیلاب نے اچھے اچھے معززخاندانوں کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے،جدید دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید ذہنیت کی وجہ سے اب معاملہ بے پردگی سے آگے بڑھ کر اس قدر گھمبیر ہوچکا ہے کہ تعلیمی اداروں،دفتروں اوردیگر مقامات پرمردوزن کی مخلوط طرززندگی نے شرم وحیا کاجنازہ نکال دیا ہے،موبائل اور نیٹ نے تو انسانیت کو ننگ دھڑنگ کرکے رکھ دیا ہے۔معصوم اور نابالغ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے جو واقعات ہمارے ملک میں آئے روزرونما ہورہے ہیں ان کی وجہ سے تو انسانیت شرمسار ہوکر رہ گئی ہے۔ہمارے معاشرے میں وہی شخص معززسمجھاجاتا ہے جس کے گھر میں پردہ کی رکاوٹیں حائل نہ ہوں،یہ لارڈ میکالے کے اس نظام تعلیم کے اثرات ہیں جو انگریزحکومت نے اس خطہ میں اسی مقصدکے لئے رائج کیاتھا ورنہ اس سے پہلے قومی رہنما،سیاست دان،مربیانِ قوم،شاعر وادیب بے پردگی کو کسی صورت برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔بقول اکبر الہ آبادی
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑگیا
ٍٍ پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا
جب تک مسلمان احکامات خداوندی پر عمل پیر انہیں ہوں گے اور قرآن وحدیث کو اپنا مقتدیٰ نہیں بنائیں گے ان کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جائیں گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ ہم کوئی شتر بے مہار کی طرح ہرگھاٹ میں منہ مارنے والے نہیں بلکہ احکام الہی کے پابند اشرف المخلوقات میں سے امت محمدیہ ﷺ کے کلمہ گو مسلمان ہیں۔مولانا محمدطاہر تنولی صاحب نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس موضوع پر قلم اٹھایاہے اور قرآن وحدیث سے اس موضوع پر بہترین مواد جمع کیا ہے۔مولانا محمدطاہر تنولی جامعہ فاروقیہ کراچی کے فارغ التحصیل عالم و فاضل اور صاحب قلم شخص ہیں،جن کے مضامین ملک کے بیشتر اخبارا ت میں شائع ہوتے رہتے ہیں،انہوں نے پردہ کے موضوع پر کتاب لکھ کر اپنا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے پردے کا فضائل اور بے پردگی کے نقصانات قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ کے سامنے رکھے ہیں۔اللہ کرے کہ یہ کتاب قارئین کے لئے صراط مستقیم کی گامزن کرنے کا ذریعہ بن کر مولانامحمدطاہر تنولی کے لئے صدقہ جاریہ کی صورت اختیار کرلے،یہ کتاب مطالعہ کیجئے اور اپنی بچیوں کو کے ہاتھوں میں دے کر انہیں بھی پڑھوائیے تاکہ بے حیائی اور بے پردگی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا راستہ روک کر معاشرے کو مزید تباہی سے بچایاجاسکے۔بہر حال مولانا موصوف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں اس اہم موضوع پر قلم اٹھا کر اس ضرورت کوپوراکرنے کی کوشش کی ہے،حضرت مولانا قاری عبدالحلیم صابر صاحب بھی قابل صدمبارکباد ہیں جن کے تعاون سے یہ کتاب منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.