ہزارہ کی عظیم علمی روحانی اورسیاسی شخصیت حضرت مولاناسید غلام نبی شاہ رحمہ اللہ ہم سے جدا ہوگئے۔ (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0


اہل علم ابھی حضرت مولاناڈاکٹر عبدالرزاق سکندرؒ کی وفات کے غم سے سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ ایک اور غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا،ہزارہ کی عظیم علمی،روحانی اور سیاسی شخصیت استاذ العلماء فخر السادات،پیرطریقت، شیخ الحدیث حضرت مولاناسید غلام نبی شاہ رحمہ اللہ کی وفات سانحہ پیش آیا،حضرت شاہ صاحب طویل عرصہ سے علیل تھے صاحب فراش تھے،کئی دنوں سے چنار ہسپتال ایبٹ آباد میں زیر علاج تھے،3جولائی 2021ء ہفتہ کی شام کو آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ1936ء کو ”کھن“علاقہ کونش ضلع مانسہرہ میں جناب ہادی شاہ صاحب کے گھر پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کرنے کے بعد کامرہ اٹک چلے گئے صرف ونحوکی کتابیں پڑھیں پھر مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ میں مولانا محمداسلم ڈھینڈوی ؒاور مولاناعزیزالرحمن کوہاٹی ؒسے پڑھتے رہے بعد ازاں جامعہ اشرفیہ لاہور میں امام الکل شیخ الحدیث حضرت مولانا رسول خان ہزاروی ؒ سے بیضاوی کا کچھ حصہ پڑھا۔ مدرسہ انواریہ ساہیوال میں مولانا عبدالحنان تاجک ؒسے حمداللہ اور بیضاوی کا بقیہ حصہ پڑھا۔دارالعلوم محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ میں قاضی عصمت اللہ ؒ سے چند کتابیں پڑھیں۔1963میں دورہ حدیث جامعہ صدیقیہ گوجرانوالہ میں مولاناقاضی شمس الدین ؒسے پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔دورہ تفسیرگوجرنوالہ میں امام اہل سنت شیخ التفسیروالحدیث حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدرؒاور راولپنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ سے پڑھا۔بیعت کا تعلق مولانا قاضی نومحمدؒ سے تھا قیام گوجرانوالہ کے دوران انہی کے ساتھ تبلیغی جلسوں میں شریک ہوکر تقاریرکرتے تھے۔فراغت کے بعد جامع مسجد جبوڑی ضلع مانسہرہ کے خطیب مقررہوئے اور وہیں 1964ء میں جامعہ حنفیہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی،جس کو ہزارہ کی سرزمین کے سب سے بڑے مدرسہ کا اعزازحاصل ہے۔ 2005ء تک وہیں تشنگان علوم کو سیراب کرتے رہے 8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیززلزلے نے مسجد ومدرسہ کو شدید متاثر کیا جس کی وجہ سے مانسہرہ میں پہلے سے جاری مدرسہ سید احمدشہید میں تمام طلبہ سمیت منتقل ہوگئے۔اس کے بعد چنار روڈ پر عظیم الشان مسجد ومدرسہ کی بنیاد رکھی اور قلیل عرصہ میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
1964 میں آپ جمعیۃ علماء اسلام میں شامل ہوئے اور جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے چلنے والی ہرتحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ کیا1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں آپ کو پابندسلاسل بھی ہوناپڑا،جہاں مفکر اسلام حضرت مولانامفتی محمودؒکے ہمراہ 3ماہ قیدمیں ہری پور جیل میں گزارے اور وہاں جیل حضرت مفتی صاحب سے علم میراث کی مشہورکتاب ”سراجی“بھی پڑھی۔1999ء میں آپ جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر منتخب ہوئے، کئی بار قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔2002ء کے الیکشن میں تقریباً جیت چکے تھے مگر جنرل مشرف اور اس وقت کے گورنرکی سازشوں سے ان کی جیت ہارمیں تبدیل کی گئی۔آپ علاقہ کے انتہائی معروف ومقبول خطیب تھے،جمعیت علماء اسلام کے مشن اور نظرئیے پر غیرمتزلز اعتماد ویقین رکھتے تھے۔آپ نے ساری عمر درس وتدریس میں گزاری،ہزاروں طلباء نے آپ سے فیض حاصل کیا۔آپ انتہائی ملنسار اور سادہ طبیعت کے مالک انسان تھے۔بڑوں کا نہایت ہی اکرام اور چھوٹوں پر حددرجہ شفیق تھے۔14 جون 1984ء کو راقم الحروف نے دارالعلوم سعیدیہ میں حفظ قرآن کی تکمیل کی جس کے مہمان خصوصی حضرت شاہ صاحب تھے اور انہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے راقم الحروف کے سر پر رومال باندھا،اس کے بعد حضرت شاہ صاحب کے ساتھ تعلق رہا،1995ء میں جب مدرسہ مخزن العلوم کٹھائی میں طلباء نے پہلی دفعہ حفظ قرآن مکمل کیا تو میں نے حضرت شاہ صاحب کو دعوت دی،آپ نے بخوشی قبول کرتے ہوئے تشریف لائے اور اپنے پرسوز بیان سے سامعین کے دلوں کو محظوظ کیا۔1997ء میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی تو مانسہرہ سے علماء کاایک وفدحضرت مولانا قاری فضل ربی مرحوم سابق امیر جمعیت علماء اسلام ضلع مانسہرہ کی قیادت میں افغانستان گیا تھا اس وفد میں دیگر علماء کرام کے ساتھ اسیر ختم نبوت مفتی کفایت اللہ اوراستاذالعلماء حضرت مولانا سید غلام نبی شاہ صاحب ؒ بھی شامل تھے راقم الحروف کو بھی اس وفد میں شامل ہونے کا اعزازحاصل تھا،ہم جلال آباد میں افغان طالبان کے رہنما ملاصدراعظم سے ملے،ایک رات وہاں گزارنے کے بعد کابل چلے گئے،چار پانچ دن کابل میں گزارے،جہاں دیگر طالبان کمانڈروں کے علاوہ کابل کے پرفضامقام پر اینٹی کانٹی نینٹل ہوٹل میں مولانامحمدنبی محمدؒ سے ملاقات کی تھی اس سفرمیں حضرت شاہ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،آپ انتہائی کم آمیزمگر ہروقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں رطب للسان رہتے تھے،فضول،لایعنی گفتگو اور غیبت سے آپ کوسوں دوررہتے تھے۔2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی،قیام حکومت کے بعد جامعہ تحسین القرآن نوشہرہ میں جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کا پہلا اجلاس تھا جس میں راقم الحروف نے اپنے وزراء کی کچھ بے قاعدگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے غلطیوں کواجاگر کیا،وقفہ اجلاس کے دوران حضرت شاہ صاحب مرحوم مجھ سے ملے،گلے لگایا،ماتھاچوما اور میری باتوں کی تائید کرتے ہوئے ایک بزرگ کا واقعہ سنایااور پھر اپنی جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر مجھے عنایت کیا کہ تم نے وہی باتیں کردیں جو میرے دل میں تھیں اس لئے یہ پانچ روپے آپ کا انعام ہے۔حضرت شاہ صاحب نے مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مجاہدملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ساتھ مل کر نفاذاسلام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لیا۔حضرت ہزاوریؒ کے بعد ضلع مانسہرہ میں آپ ہی سب سے بااعتماداور باثر شخصیت تھے۔ تحریک ختم نبوت،تحریک ناموس رسالت،تحریک مدح صحابہ میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔آپ اسلاف واکابرکی رویات کے امین اور علم وعمل کاپیکر تھے،آپ صحیح معنوں میں محبوب العلماء والصلحاء تھے،ایک مرتبہ پڑھنہ ضلع مانسہرہ میں تبلیغی اجتماع تھا داعی کبیر حضرت الحاج عبدالوہاب رحمہ اللہ علماء کرام کے مجمع میں بیان کررہے تھے اتنے میں حضرت مولاناسید غلام نبی شاہ صاحب تشریف لائے تمام علماء فرط عقیدت میں اٹھ کر استقبال کرنے لگے حضرت حاجی صاحب ؒ نے بہت کہا کہ بیٹو بات سنومگرشاید حاجی صاحب کو آپ کے مقام کا صحیح اندازہ نہیں تھاپھر جب تک حضرت شاہ صاحب تشریف فرمانہیں ہوئے حاجی صاحب کو اپنابیان روکنا پڑا،حضرت شاہ صاحب جہاں تشریف لے جاتے لوگ پروانہ وار آپ کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔آپ کے نامور فرزند خطیب اسلام حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ ملک کے مشہورخطیب تھے۔گزشتہ برس اپریل میں کوروناوائرس کی وجہ سے ان کے اچانک انتقال نے آپ کو غم سے نڈھال کردیا تھا۔جس کے بعد آپ کی صحت مسلسل گرتی رہی،لیکن تمام ضعف علالت کے باوجود آپ نے علمی مشعلہ ترک نہیں کیا۔20 جون 2021ء کو جامعہ سراج العلوم مانسہرہ میں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ کی یاد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولاناعبدالغفور حیدری،صوبائی امیر مولاناعطاء الرحمن،شاہین جمعیت مولانا حافظ حمداللہ،مولانا فیض محمد اور دیگر مہمانِ گرامی شریک ہوئے،کانفرنس کے بعد رقم الحروف،جناب مدثر اعوان اورمفتی امان اللہ شازلی حافظ حمد اللہ صاحب کے ہمراہ چنار ہسپتال ایبٹ آباد میں حضرت شاہ صاحب کی عیادت کے لئے حاضرہوئے،داکٹروں کی طرف سے ملنے کی اجازت نہیں تھی،مگر حافظ صاحب کے ساتھ راقم الحروف کو بھی ان کے خادم خاص مفتی سید ریاست شاہ نے اندجانے کی اجازت دے دی اور انہوں نے بتایا کہ شاہ صاحب بے ہوش تھے مگر حافظ صاحب کا سن کر ہوش میں آئے،ہم نے ملاقات کی، مصافحہ کیا،ہوش میں تھے بول نہیں سکتے تھے صرف سلام کا جواب دیا اور تمام تر علالت کے باوجود اسی محبت وشفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم دو نوں کا ہاتھ مصافحہ کے وقت اپنے ہونٹوں سے لگایا،کیاپتہ تھا کہ یہ حضرت شاہ صاحب کا آخری دیدار ثابت ہوگا۔ آپ ملک وملت کا عظیم سرمایہ تھے،ایک حق گو بے باک اور نڈر عالم دین تھے،حق بات کہنے میں کسی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے،اسلامی سیاست کے پاسبان تھے،آپ کی تاریخ ساز فکری جدوجہد،علمی کمالات،اخلاص وللہیت،شفقت ومحبت اورسادگی تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔،آپ نہ صرف ہزارہ بلکہ ملکی سطح کی عظیم علمی،روحانی،اصلاحی اور دینی شخصیت تھے۔آج صرف ہزارہ نہیں بلکہ پوراملک غم میں ڈوباہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی وفات سے جمعیت علماء اسلام،وفاق المدارس العربیہ،تحریک ختم نبوت سمیت تمام دینی تحریکوں کابہت بڑانقصان ہواہے،اللہ تعالیٰ آپ کی دینی،ملی،علمی،مذہبی،اصلاحی اور سیاسی خدمات کو قبول فرمائے۔حضرت شاہ صاحب اپنی تقریروں میں اکثر یہ شعر پڑھاکرتے تھے۔
میں خود غرض نہیں ہوں میرے آنسوپرکھ کے دیکھ فکر چمن ہے مجھ کو غم آشیاں نہیں ہے۔
ملک وملت کا خیرخواہ اور چمنستانِ محمدﷺکا بہی خواہ لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر سوئے عقبیٰ روانہ ہوئے۔رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃ ً،حضرت مولانا شاہ عبدالقادر آپ کے بڑے فرزند اور جانشین ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بھائی کے بعد اپنے عظیم والد کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق نصیب فرماکر ان کی صحیح جانشینی کاحق اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔اتوار کے دن ایک بجے ٹھاکرہ اسٹیڈیم میں آپ کی نماز جنازہ اداکردی گئی،جس میں بلاشبہ لاکھوں لوگ شریک ہوئے،آپ کاجنازہ مانسہرہ کی تاریخ کا سب سے بڑاجنازہ تھا جس میں ملک بھر سے آئے علماء،طلباء سیاسی زعماء،تاجرالغرض ہرمکتبہ فکر کے لوگ شریک ہوئے۔ٹھاکرہ اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی دوردورے سے آپ کے عقیدت مند آپ کو الوداع کرنے کے لئے آئے تھے۔آپ کے جسد خاکی کو آپ کے قائم کردہ مدرسہ سراج العلوم چنار روڈ کے احاطہ میں اپنے عظیم فرزند حضرت مولاناشاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ کے پہلو سپردِ خاک کردیا گیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.