ماہ صفر اور منگھڑت عقائد (مولانا مجاہد خان ترنگزئی )

0


کل آفس میں چھٹی سے چند منٹ پہلے ایک آفس کو لیگ نے سوال پوچھا کہ جی ماہ صفر شروع ہوچکا ہے اور اسمیں مختلف بلا ئیں اُترتی ہیں تو مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتا دے کہ میں وہ پڑھ کر اس کے شر سے محفوظ رہ سکوں۔ ساتھی کا سوال سُن کر مجھے دور جاہلیت کے وہ عقائد یاد آئے جو میں نے طالبعلمی کے زمانے میں کتابوں میں پڑھے تھے اور اساتذہ کرام سے سُنے تھے۔
عوام میں اس ماہ صفر المظفر کے بارے میں انتہائی غلط اور منگھڑت باتیں مشہور ہیں۔ لہذا میں نے دوست کو اس ماہ کے حوالے سے کچھ تفصیل دی اور ساتھ ہی کچھ شرعی مستند معلومات بھی شیئر کی۔ ساتھی نے بتایا کہ یہ باتیں تو اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہے لہذا اگر اس پر کچھ لکھا جائے تو بہتر رہے گا۔ میں نے بھی اس وقت قلم اُٹھا یا اور اس موضوع پر لکھنا شروع کیا۔
زمانہ جا ہلیت میں لوگ صفر کو نا مرادی، ناکامی، بے خیری اور بے برکتی کا مہینہ تصور کرتے تھے اور اسے منحوس سمجھتے تھے۔ شیخ القرآن محمد طاہر ؒ نے اپنے کتاب ”ضیا ء النور“ میں شیخ ابو علی زورقی اصفہانی سے نقل کیا ہے کہ اس مہینے کو صفر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس مہینے میں ”صفر یہ“ نامی مقام کو جاتے اور وہاں کھانا تیار کرتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں اُن کے علاقوں میں آب وگیاہ کی کمی یا ختم ہونے کی وجہ سے چوپایوں میں دودھ کم ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ علاقے دودھ سے خالی ہو جاتے تھے۔ اس بناء پر اس مہینے کو صفر (خالی اور بے خیر مہینہ)کا نام دیا گیا۔
دور جاہلیت میں ماہ صفر میں بعض اتفاقی مصائب وحوادث، فتنے، مصبیتں، بلائیں وبائیں پیش آتی تھیں جن کی بنیاد پریہ عقیدہ قائم ہوگیا تھا کہ یہ مہینہ مصبیت زدہ ہے۔ یوں اس مہینے کو نحوست والم کا مہینہ قرار دیا گیا۔
زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی، بیاہ،اور ختنہ وغیرہ) قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے۔بہت سے حضرات اب بھی جو یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں، وہ اس ماہ میں میں کسی کام کی ابتدا نہیں کرتے اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ یہ مبارک نہیں ہے، پس وہ لوگ اس ماہ میں سفر کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ اگر ہم نے سفر کیا تو دشمنوں سے سامنا ہوجائے گا، اسی طرح نکاح ودیگر خوشی کی تقریبات کا انعقاد بھی اس ماہ میں کرنے سے کتراتے ہیں، ان حضرات کا عقیدہ ہے کہ اگر اس ماہ میں کوئی خرید وفروخت کی (مثلا کار، گھر، کارخانے، زمین وغیرہ) تو وہ تجارت منافع بخش نہ ہوگی، حالانکہ یہ عقیدہ سراسر غلط ہے وجہ یہ ہے کہ کسی ایک مہینے کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام مہینے اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان مہینوں میں افعال واعمال کرتا ہے، سو ہر وہ مہینہ (زمانہ) مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہر وہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے اور اس طرح گنا ہ گار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، سو وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب ومشاکل سے مامون ومحفوظ نہیں رہتا۔لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل درنسل آج تک چلا آرہا ہے، حلانکہ سرکار دوعالم ﷺ نے بہت ہی واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے تو ہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تر دید اور نفی فر مادی اور علی الا علان ارشاد فرمادیا کہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری دوسرے کو (خود بخود) لگ جانے (کا عقیدہ)، ماہ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص) پرندے کی بدشگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ چنانچہ حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری ؓ آپ ﷺ سے نقل کرتے ہیں (ولا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر ولاغول)۔
”نہ کسی بیماری میں بذات خود کسی کو لگنے کی صلا حیت ہے، نہ کسی چیز میں بد فالی ہے، نہ کوئی بد روح ہے، نہ ماہ صفر میں کوئی نحوست یا بلائیں ہیں اور نہ ہی کوئی بھوت پر یت ہے“۔مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد وباطل خیالات ونظریات عقائد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسے نظریات وعقائد کی سرکار دو عالم ﷺ نے تردید کی ہے۔
ماہ صفر کے بارے میں نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنان اسلام نے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جسیے مکروہ اور گھناؤ نے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اور اسی روایت سے لوگوں کو اس غلط عقائد وتوھمات میں مبتلا اور پختہ کرتے رہتے ہیں۔ مثلا ً نبی کریم ﷺ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے ”(من بشرنی لخروج صفر بشرتہ باالجنۃ)”جو مجھے صفر کے ختم ہوجانے کی خوشخبری دے گا میں اُسے جنت کی خوشخبری دیتا ہوں“۔ اس روایت سے استد لال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ طریقہ استد لال یہ ہے کہ چونکہ اس مہینے میں نحوست تھی، اس لیئے نبی کریم ﷺ نے اس مہینے کی صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔
آئمہ حدیث نے اس حدیث کو موضوع اور منگھڑت قرار دیا ہے اور اس کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کرنا نا جائز کہا ہے۔ ان آئمہ میں ملا علی قاری ؒ نے الا سرار المرفوعہ، علا مہ محمد طاہر پٹنی ؒ نے تذکرۃ الموضوعات اور علامہ عجلونی ؒ نے کشف الخفا ء میں اس کو موضوع، من گھڑت اور جھوٹی روایت کہا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت یہ پیش کرتے ہیں کہ ”بدھ کا دن دائمی نحوست کا دن ہے جو مجھے خروج صفر کی بشارت دے گا میں اُسے دخول جنت کی بشارت دیتا ہوں“۔ اسی روایت کو قزوینی، تفسیر قرطبی، درمنثور، سنن کبریٰ، بہقی، علامہ پٹنی اور ابن جوزی ؒ نے ذکر کیا ہے کہ یہ روایت موضوع اور جھوٹی ہے۔ اور غالباً اس من گھڑت روایت کی بناء پر عوام خصوصاً عورتیں بدھ کے دن کو منحوس سمجھتے ہیں، کوئی اچھایا مثبت کام نہیں کرتے، کپڑے وغیرہ تک نہیں دھوتے،جو کہ ایک غلط نظریہ ہے۔ "آپ کے مسائل اور ان کاحل” میں مولانا یوسف لدھیانوی ؒ لکھتے ہیں ”ماہ صفر کی نحوست کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں“۔
الغرض اللہ تعالیٰ کی تقدیر وتاثیر میں زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ لہذا صفر کا مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے۔ ہمیں اسلامی عقائد اور اسلامی اصول سیکھ کر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیئے اور جو بات دین میں نہ ہوں اسے دین کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ نیز نفع ونقصان کے اختیار کا سوفی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیئے۔ کہ جب وہ خیر پہنچا نا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچاسکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کردے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.