شہزاد اکبر، زلفی بخاری اور شیخ رشید کے پاس دو دو گاڑیاں ہیں جن میں ایک 1800 سی سی اور ایک 4600 سی سی بلٹ پروف گاڑی ہے۔سینیٹ آف پاکستان میں وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی کے پاس گاڑیوں کی تفصیلات پیش کر دی گئیں۔ سینیٹ میں وقفہ سوالات میں کابینہ ڈویژن نے تحریری جواب میں وزراء، مشیر ان اور معاونین خصوصی کے پاس گاڑیوں کی تفصیلات پیش کیں جس کے مطابق ان کے پاس 1800 سی سی سے لیکر 4600 سی سی تک گاڑیاں ہیں۔چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس 2017 ماڈل کی 4600 سی سی کی بلٹ پروف گاڑی ہے۔اس کے علاوہ مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر، معاون خصوصی ذلفی بخاری اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے پاس دو دو گاڑیاں ہیں جن میں ایک 1800 سی سی اور ایک 4600 سی سی بلٹ پروف گاڑی ہے۔ علی زیدی اور سیکرٹری داخلہ کے پاس بھی 4600 سی سی بلٹ پروف گاڑی ہے۔ شہریار آفریدی، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، اعجاز شاہ، اسد عمر، مراد سعید، شفقت محمود، طارق بشیر چیمہ، عمر ایوب، رزاق داؤد، ڈاکٹر فیصل سلطان، زرتاج گل، فیصل واوڈا، بابر اعوان، غلام سرور، شہزاد ارباب، صاحبزادہ محمود سلطان، معید یوسف ، فواد چوہدری، فخر امام، حماد اظہر، شہزاد قاسم، ندیم افضل چن، شہباز گِل، عاصم سلیم باجوہ، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر وقار مسعود، عبدالحفیظ شیخ، خسرو بختیار، زبیدہ جلال، علی امین گنڈا پور، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، امین الحق اور تابش گوہر کے پاس 1800 سی سی کی گاڑیاں ہیں۔محمد میاں سومرو، شبیر علی اور علی محمد خان کے پاس 1800 سی سی اور ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں۔ وزراء اور مشیران کی گاڑیوں پر گزشتہ تین سال میں ایندھن پر 4 کروڑ 68 لاکھ روپے، مرمت پر 3 کروڑ 88 لاکھ روپے اخراجات آئے۔بابر اعوان نے سینیٹ میں جواب دیا کہ اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کے ایک جہاز پر 550 افراد کا عملہ ہے، دنیا کا معیار 150 افراد ہے، پی آئی اے میں چھانٹی کر رہے ہیں، جتنا اضافی اسٹاف ہو چاہے مستقل یا کنٹریکٹ پر اسے ہٹایا جائے گا۔ وزارت مکانات و تعمیرات نے تحریری جواب میں بتایا کہ اسٹیٹ آفس میں ریکارڈ جلنے کے معاملے کی ایف آئی اے نے تحقیات کی، ملزم سے متعلق کوئی ثبوت اور معلومات نہیں ملی، اس مقدمے کو بند کر دیا گیا ہے۔