قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں اور بہتر حکمرانی کے حصول کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے چند بڑے سربراہوں کو ہٹاکر اہم ارکان میں ردوبدل کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ وفاقی کابینہ میں کچھ اہم تبدیلیاں بھی ممکن ہیں جہاں محکموں میں ہٹائے جانے اور اس میں ردوبدل کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔کہا جارہا ہےکہ حکومت کے اندر کچھ طاقتور حلقے معاشی کارکردگی خصوصاً کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے انتظام پر ناراض ہیں، گندم اور چینی کے طویل بحران کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے حکومت پر دباؤ ڈالا لیکن متعلقہ اقتصادی وزارتوں نے اہم فیصلے لینے میں زیادہ وقت لیا۔ذرائع کا کہنا ہےکہ اب حکومت اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ معاشی محاذ پر نئے چہرے لانے کیلئے اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں بچا ہے۔اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت وفاقی کابینہ میں کلیدی تبدیلیوں کے سلسلے میں پچھلے دو دنوں سے افواہوں کی لپیٹ میں ہے، ایک وفاقی وزیر نے تبصرہ کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا لیکن ایک بات کی تصدیق کی کہ پچھلے کچھ دنوں سے کھانے پینے کی اشیا پر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دباؤ بڑھا ہے۔سابق مشیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر اعظم کے موجودہ معاون خصوصی برائے محصولات وقار مسعود کےبارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں اہم عہدے تفویض کئے جاسکتے ہیں۔تاہم ترین کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا لیکن جب پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت نے ان سے کہا تھا کہ وہ موجودہ حکومت میں شامل ہوجائیں لیکن شوکت ترین نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ان کے خلاف چار مقدمات زیر التوا تھے۔ وزارت داخلہ ، توانائی اور دیگر سے متعلق کچھ اور تبدیلیاں آئندہ چند روز میں ہونے کا بھی امکان ہے۔ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر مہینے بعد کچھ رپورٹرز انھیں فون کرکے وفاقی کابینہ میں کلیدی تبدیلیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ گورننس بہتر بنانے کے مطالبے میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا کچھ وزراء، مشیر ڈیلیوری کو بہتر بنانے کے لئے دباؤ محسوس کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں سے متعلق کوئی خاص بات نہیں سنی۔