جنرل الیکشن2018 ’’عوامی عدالت’’ ووٹ کی عزت تحریر:۔ امان اللہ خلیل باجوڑ

0

ما ضی پر ایک نظر . ائندہ منتخب ہونیوالی حکومت ،اس کو درپیش چیلنجیز و ائندہ پانچ سال کے لے نا گزیر منصوبہ بندی مندرجہ بالا وہ چند ایسے موضوعات ہے جس کے بارے میں ہر محب وطن پاکستانی کے دماغ میں ہر وقت مختلف قسم کے سوالات پیدہ ہوتی ہےٍ لیکن میرے جیسے عام ادمی کیلیے ان جیسے بڑے موضوعات پر بحث کرنا ’’چھوٹی منہ بڑی بات ‘‘ والے محاورے سے کم نہیں عوام کا رد عمل ووٹ کے زریعے : دنیا کے تاریخ پر نظر ڈالا جائے تو مختلف ادوار میں ریاستوں کو چلانے کیلے مختلف طریقے رائج رہی ہیں لیکن اج کل دنیا میں ما سواے چند ممالک پوری دنیا میں جمہوری طرز حکومت رائج ہے اور اسکی بنیادی وجہ مختلف اقوام و نسلو ں کا مختلف تحزیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک ہی ریاست کے اندر ذندگی گزارنا ہے چونکہ ایک ہی ریاست میں بیک وقت مختلف من قوانین نہں چل سکتی۔ اس لیے دنیا کے بیشتر اقوام نے جمہوریت ہی پر اکتفا کیا ہے دور جدید میں عنقریب وہ ممالک جہاں جمہوری طرز حکومت سے مختلف طرز حکومت قا ئم ہے ۔ اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے جمہوری طرز حکومت اپنانا پڑیگی، نظر یہ پاکستان کے مطابق ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے سے ہمارا وہ مقصد جس کیلئے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ہم پوری طرح تو کامیاب نہ ہو سکے بہر حال ہمارے ملک کا جمہوریت مغربی طرز جمہوریت سے مختلف ضرور ہے ،جمہوریت جو بھی ہو لیکن اس کا مقصد عوامی رائے کے زریعہ بلوسطہ بلاواسطہ حکومت قائم کرنا ہوتا ہے اور اس اسکے نتیجے میں کیسے متعین مدت کیلئے ریاست کی ذمہ داری عوام ہی کی نمائندوں کو دی جاتی ہے، اور اگر منتخب حکومت کی کارکردگی ناقص ہو تو عوام ائندہ الیکشن میں ان لوگوں کو رد کرکے نئے لوگوں کو آئندہ معینہ مدت کیلئے ریاست چلانے کی زمہ داری سونپ دیتی ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستانی عوام نہ اِدھرکے رہے نہ اَدھرکے رہے نہ ہم خالص اسلامی نظام قائم کرسکے اور نہ ہی جمہوریت کو صحیح معنوں میں عوام کے فلاح کیلئے استعمال کرسکے ،ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم دوسرے جمہوری قوتوں سے ذیادہ ترقی کر چکے ہو تے کیونکہ ہمارے جمہوریت میں لفظ اسلام کا استعما ل ہوچکا ہے ۔
لیکن ہمارے پسماندگی کا اصل وجہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اپنے مذہب سے مخلص ہے اور نہ تو عوام اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ووٹ ڈ التے وقت اپنے ضمیر کے آواز کے مطابق ووٹ کا استعمال کریں ۔لیکن اِن دونوں پسماندگی کے اجزاء کے ذمہ دار عوام نہیں بلکہ حکومتیں ہے کیونکہ آئین میں صرف یہ شق ہے کہ اس ملک میں’’ شریعت اسلامی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گی‘‘ کافی نہیں ۔اس کا مطلب صرف ’’نہیں‘‘ہے حالانکہ نظریہ پاکستا ن کے مطابق ہمارے آئین میں’’ نہیں‘‘ ساتھ ساتھ ’’امر ‘‘بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔ جس کا مطلب ’’امربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ یہ شق تو پارلیمنٹ کو شریعت کے خلاف قانون سازی سے تو روکتی ہے لیکن اِ س میں دین اِسلام کے نظام کو تقویت دینے اور پروان چھڑنے کا کوئی ذکر نہیں دورجدید میں دنیا کے تمام ممالک کے تہذیبیں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئی ہے ہم نے صرف لفظ’’ نہیں‘‘ پر اکتفاکیا ہے اور دوسرے مذہب کے کلچر اور نظریات بلا واسطہ ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں ،خدانخواستہ اگر مغربی کلچر اور نظریات کا ہمارے معاشرے پر اسطرح اثرانداز ہونا برقرار رہا تو خدانخواستہ ہمارے آنے والے نسلیں ہمارے ملک کے نام سے لفظ ’’اسلامی‘‘ نہ نکال دیں ،اور دوسرے شق میں ترمیم نہ کردیں ، اِس شق کے حفاظت کیلئے سخت سے سخت قانونی سازی کی جائے، بحر حال ! اسلئے بہت جلد ایسی قانون سازی ناگزیر ہے ۔ کہ جس طرح مغربی معاشرے کے اثرات ہم پر اثر انداز ہورہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بنیادی اسلامی تعلیمات کو تعلیمی نصاب میں شامل کر کے اس کے پاس کرنے کے بغیر طلباء کو فیل تصور کیا جائے ۔اس کے علاوہ ملک کے تمام سیاسی جماعتیں کہتی آرہی ہے کہ ووٹ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرا ان صاحبان سے درخواست ہے کہ اسلام کو صرف مذہبی جماعتوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے،بلکہ اس کی حفاظت ،اس کی تعلیمات کو عام کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے ،لہذا پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے نمائندوں کے بشمول صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کیلئے کم از کم ہفتے میں ایک بار ایسے کلاس کا اہتمام کیا جائے۔ جس میں بنیادی اسلامی تعلیمات اور خوف خدا پر مشتمل قرأن و آحا دیث کے مواد شامل ہوں،اور اس کلاس میں درس و تدریس پر مامور علماء کا تعلق کسی سیاسی مذہبی جماعت سے نہ ہو تاکہ عام سیاسی پارٹیوں کو اعتراض نہ ہو۔ اگر مندرجہ بالا کام کیا جائے تو عام سیاسی پارٹیوں کا مذ ہب کے نام پر سیاست کرنے کا شکوہ بھی دور کیا جاسکتا ہے اور مذہبی سیاسی جماعتوں اور عام سیاسی پارٹیوں کے درمیان خلیج بھی کم ہو سکتاہے ۔
ہمارے ملک میں جمہوریت کے ہوتے ہوئے پھر بھی عوام اپنے ضمیر کا آزادنہ فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک ز ندگی کے بنیادی ضروریات کئی عشرے پہلے حاصل کرچکے ہیں،اور آج کل سہولیات اِ ن کے عوام کے مطالبات میں شامل ہوتی ہے ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ملک کے آبادی کا ما سوائے چند فیصد کے تمام عوام تا حال سکول ، کالج،ہسپتال،سڑک ،پینے کے صاف پا نی جیسے بنیادی ضرویات سے محروم ہے ۔ اس حل میں عوام ووٹ کی اہمیت کیسے جانے گی ؟اور اس سے بڑھ کر سب سے بڑ ا مسئلہ عوام کو سستا انصاف کی فراہمی کا فقدان ہے ۔ ہمارے ملک کے بیشتر عوام نہ چاہتے ہوئے بھی تھانہ تحصیل کے غرض سے امیدواروں کو ووٹ دیتی ہے ابھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام الیکشن 2018میں عوام اپنے نمائندوں کا چناؤکس معیار پر کریگی؟ ماضی میں جتنا اکثر منتخب نمائندوں کا رہا۔ اس سے تھوڑا کم عوام کا بھی رہا ہے ،کیونکہ ہم نے اِن لوگوں کو کام کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کہا کرتے تھے، حق مانگنے سے نہیں چھیننے سے ملتی ہے !
اس دفعہ اگر شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن بنائی گئی تو یہ الیکشن پاکستان کے تاریخ کا انوکھا الیکشن ثابت ہو سکتاہے کہنے کا مطلب کسی خاص پا رٹی کے طرف اشارہ کرنا ہر گز نہیں بلکہ یہ بات ہر کسی کو ذہن نشین کرنی چاہیے امیدوار خوا کسی بھی پارٹی کا ہو یا آزاد ہو ۔ عوام ما ضی کی نسبت ووٹ کے زریعے بہتر فیصلہ کریگی کیونکہ اب عوام تنگ آچکی ہے اگر امیدوار پہلی دفعہ الیکشن لڑرہاہو تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں کہ اِ نہوں نے اس سے پہلے منتخب ہوئے بغیر عوام کی کتنی خدمت کی ہے ؟ اگر کسی پاٹی کا امیدوار ہو اور پہلی دفعہ الیکشن لڑرہاہو تو اسکی پارٹی کی کارکردگی ملک کے دوسرے حصوں میں کیسی رہی ہے ؟ اگر امیدوار سابقہ ممبررہ چکا ہو تو اسکی ماضی کی کاکردگی پر سوچ کر فیصلہ کریگی اس دفعہ کسی بھی پارٹی ورکر اپنے پارٹی امیدوار پر اندھا اعتماد اگر کریگی بھی لیکن عام آدمی کا ووٹ صرف مندجہ بالا تین پیمانوں پر تھول کر اپنے حق میں استعمال کروایاجاسکتاہے اور ظا ہر ی سی بات ہے کہ کسی بھی حلقے کے تمام ووٹرکسی پارٹی کے ورکر ز نہیں ہوتے بلکہ الیکشن میں جیت کا ذیادہ تر دارومدار عام آدمی کے ووٹ پر ہوتا ہے ۔عوام کا یہ فیصلہ ملک کے ترقی کے پہیئے کو توانائی دے سکتی ہے، اور تمام امیدوار کو ماضی میں اپنے فرائض میں کوتاہی پر ندامت اور مستقبل میں صحیح طریقے سے نبھانے کا احساس دلاسکتی ہے۔حکومت کسی کو ملی گی؟ اس کو درپیش چیلنجزکیا ہو گی؟ اور وہ اس کیلئے کیا حکمت عملی مرتب کرکے چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکے گا ؟
ویسے تو ملک میں بے روز گاری کا شرح اتنا ذیادہ ہے کہ عام آدمی بڑے سے بڑے ایشو پر تبصر ہ کرنے سے نہیں گھبراتا، بلکہ جتنے زمینی حقائق وا ضح ہوتی ہے اس کے بر عکس پاکستانی سیاست کا پارہ اوپر یا نیچے جانا بھی انتہائی باریک بینی سے سمجھنا پڑتا ہے ۔ بحر حال! یا تو زمینی حقائق کے بالکل بر عکس فیصلہ آئے گا اور یا مرکز میں کو ئی بھی پارٹی اتنی سیٹیں حاصل نہیں کر سکی گی کہ وہ اپنا علیحدہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجا ئے گی۔اس بات پر تبصرہ کرنا کہ کون کس کے ساتھ اتحاد کریگا ۔الگ لمبی بحث ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مخلوط حکومت کے صورت میں ایسے پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوگا ۔ جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ حتمی فیصلہ اللہ بہتر جانتا ہے اور 26جولائی کے ابتدائی چند گھنٹوں میں وقت فیصلہ کریگی لیکن حکومت کو چند چیلجز درپیش ہو گی جس سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی کیا ہونا چا ہئے؟ حکومت جس کی بھی آئیگی خدارا اپنے درمیان اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ملک کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھ پاؤں بن کر شانہ بشانہ چلنے کا عہد کریں ۔ اگر ایک دوسرے پر سبقت لینی ہے تو ایک دوسرے سے بہتر کار کردگی میں سبقت حاصل کریں نہ کہ اپنے پوزیشن کو اچھا دکھانے کیلئے ایک دوسرے کے پاؤں پر کلہاڑی مارے ،آئندہ پانچ سالوں کیلئے ناگزیر منصوبہ بندی میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہونی چاہیے ۔
(1)تعلیم( 2)صحت( 3)امن(4)معیشت میں استحکام( 5)آزاد عدلیہ( 6)بے روزگاری میں کمی لانا(7)توانائی کی کمی کو پورہ کرنا
(1)تعلیم :۔ملک کے ترقی کیلئے تعلیم کے اہمیت سے انکار کرنا دن کو رات اور رات کو دن کہنے کے مترادف ہے۔تعلیم ہی سے ملک میں امن و خو شحالی آسکتی ہے، اسکے علاوہ دنیا کے ساتھ ترقی کے دوڑمیں مقابلہ کرنا ،سیکورٹی کے مد میں ملک کی حفاظت کرنے کے لئے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نئے ہتھیار بنانے ہو۔صحت ہو یا توانائی کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنا ہو،تعلیم ہی کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ان تمام مقاصد کیلئے اولاََ ملک کے پسماندہ علاقوں میں ہر جگہ،گرلز،بوائز،پرئمری سے لیکرکم از کم ہائی تک اور کم ازکم ہر20کلومیٹرکے فاصلے پر ایک گرلزاوربوائزڈگری کالج قائم کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
(1) معیشت: مستحکم معیشت ملک کے ترقی کیلئے لازمی جُزہے جس کیلئے آنے والے حکومت کو کام کرنا ہوگا ورنہ اگر ہمارا ملک نے ماضی کے طرحIMFاور WORLD BANKسے قرضے لینے پر انحصار جاری رکھاتو ہم مستقبل میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اپ کو ’’DO MORE‘‘پالیسی کے طرف دھکیلتے رہیں گے، کیونکہ ایک طرف تو سود ،تو د وسرے طرف یہ دونوں ادارے سود کے ساتھ ساتھ اپنے مقروض ملک کو قرضے مشروط طور پر دیتے ہیں جو کھلم کھلاملک کے خود مختاری دھاوپر لگانے کے مترادف ہے ۔اسلئے نہ صرف مزید قرضہ لینا بند کرنا بلکہ واپسی کا مرحلہ شروع کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔جو غیبی طور پر ہر گز ممکن نہں بنے گی۔بلکہ اس کیلئے جامع منصوبہ کرنی ہوگی۔
(i)کرپشن کا خاتمہ : کرپشن کسی بھی مظبوط معیشت کا حامل ملک کوکینسر کے مریض کے طرح جینے کا قابل بننے نہیں دیتا ،کرپشن سے نمٹنے کیلئے ملک
کے تمام اداروں کیلئے از سر نوقانون سازی کے ضرورت ہے ۔ جس میں کسی بھی سرکاری ملازم پر کرپشن عائد ہوتے ہی نوکری سے برخاستگی،رقم کی واپسی اور طویل مدت قید با مشقت لازمی ہے ۔ ایوان بالا،زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب ممبران کا سالانہ اوریا حکومت کے خاتمے پر آڈٹ کو یقینی بنایا جائے۔
(2)ایوان بالا زیریں و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے تنخواہوں و مراعات میں 40فیصد مستقل کمی عمل میں لا یا جائے ،گریڈ 14سے اُوپر کے تمام اداروں کے ملازمین کے تنخواہوں میں سے ہر سال مرحلہ وار ایک ایک تنخواہ کاٹی جائے اور قومی خزانہ میں جمع کی جائے ۔
(3)آئندہ پانچ سالوں میں ما سوائے دفاع ‘ تعلیم اور صحت کے محکمے کو صرف اتنی بجٹ جاری کیاجائے جس سے ملازمین کے تنخواہ میں اور محکمہ دیوالیہ ہونے کا خدشہ نہ ہو

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.