کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے جہاں ایک طرف دولت کی پیداوار،تعلیم،ٹیکنالوجی اور پروفیشنل ازم پر زور دیا جاتاہے وہاں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتاہے کہ وہاں کی ریاستی پالیسیاں معاشرتی انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کریں ، چین نے اپنی مرکزیت اور ایک پارٹی والے نظام کے تحت ان دونوں ہی تقاضوں کو پورا کیا اور کچھ ایسا ہی 1949 میں اس وقت کے موجودہ حالات کی صورت میں نمودار ہونے والے چین نے کیا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد دنیا کے بیشترممالک کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی دوسری بڑی اکانومی بن گیا،چین نے یہ سب کچھ پانے کے لیے ڈسپلن کارکردگی اور پروفیشنل ازم کے ساتھ کام کیاجس کی وجہ سے 1980 کی دہائی تک چین دنیا کا ایک طاقتور ترین ملک بن گیا،اور آج بھی اسی ڈسپلن اور کارکردگی کے معیارکو جاری رکھتے ہوئے چین کا یہ ماننا ہے کہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے عمل کو مزیدتیزی سے آگے بڑھایا جائے ،تاکہ نمبر دو کی پوزیشن سے آگے نکلتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بن جائے ،چین نے ترقی کا جب عمل شروع کیا تو صنعت وحرفت کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بننے والی بجلی اور پانی کی کمی کو سب سے پہلے پورا کیا اور ایک تسلسل کے ساتھ اس پر کام کیایعنی زراعت کے لیے پانی اور صنعت کا پہیہ چلانے کے لیے بجلی پیدا کرنے پر کام شروع کیا،جس کے تحت چین نے چھوٹے بڑے ڈیم کثیرتعداد میں بنائے تاکہ پانی کو وافر مقدار میں محفوظ کرکے زراعت کے لیے استعمال کیا جائے اور سستی بجلی بنائی جائے اس کے علاوہ چین نے کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا اور نیوکلیئر سے بجلی کو پیدا کیا اور پھرڈیموں میں پانی بچاکر پانی سے بجلی پیدا کرنے کاعمل بھی شروع کردیا اوروہ چین جو کبھی پانی اور بجلی کی وجہ سے محرومیوں کا شکارتھا وہ بجلی پیدا کرنے کے ساتھ اسے بیچنے کے قابل بھی ہوگیا، چین نے اس عمل کے ساتھ ساتھ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے عمل کو جاری رکھا ترقی کے اس سفر میں بڑھتے ہوئے کارخانوں میں انصاف اور فوری ردعمل کے تقاضوں کو پوراکرنے کے لیے چین نے کرپشن کنٹرول کرنے کے عمل پر بھی کام شروع کردیا کیونکہ کسی بھی اقتصادی عمل میں ترقی کے بعد جب دولت کی فراوانی کا عمل شروع ہوتاہے تو اداروں میں لالچ اور کرپشن کا عمل بھی اکثر شروع ہوجاتاہے جس کے لیے کرپشن کنٹرول کرنے کے لیے انہوں نے ایک ایسا قانون بنایاکہ چوری کوئی بھی کرے سزا یکساں معیار پر بھی دی جائے گی قانون سب کے لیے برابر ہوگا چاہے وہاں کاوزیر ہو یا پھر ایک معمولی سا نوکر احتسابی عمل کی کامیابی کے بعد چین نے ایک ایسی جامع حکمت عملی پر کام شروع کیا جس سے چین میں موجود ہر گھر میں خوشحالی کا دور دورہ شروع ہوا یعنی غربت کا خاتمہ چین نے ایک پالیسی کے تحت غربت اور افلاک کو کنٹرول کیا اور آج وہ اس مقصد میں بہت بڑی کامیابی حاصل کرچکاہے اور آنے والے دنوں میں چین غربت ختم کرنے میں سو فیصد کامیاب دکھائی دیتا ہے ، ہم نے دیکھا کہ چین نے کس طرح سے کئی سو ملین لوگوں کو غربت سے نکالا اس مقصد میں چین کا کوئی اور مفاد نہ تھا کسی سے کوئی جنگ نہیں تھی بس ایک ایجنڈا تھا اور وہ تھا دولت کمانا اور وہ بھی اپنے ملک کی ترقی اور اپنی عوام کے لیے بلکل اسی طرح جن ممالک نے دولت کمانے کے لیے اپنی اقتصادیات اور صنعتی عمل کو فروغ دیا علم کو وسعت دی وہ آج کم یا زیادہ مگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہیں مگر پاکستان میں قیام پاکستان سے لیکر اب تک یعنی بہتر سالوں تک لوٹ مارکا بازار گرم رہا کسی ایک شعبے پر بھی توجہ نہ دی گئی جو آیا اس نے غربت ختم کرنے کی بجائے غریبوں کوختم کیا، عوام اور ملک پر پیسہ لگانے کی بجائے اپنے بینکوں کو بھرا اپنے محلوں کو وسیع کیا کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے یہاں انصاف کا یہ عالم رہا کہ ایک غریب شخص کو توسزا ملی مگر پیسے والا مجرم ہمیشہ بچ کر نکلتارہا، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم کسی بھی ایک شعبے میں ترقی نہ کرسکے ، یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر، کے مترادف جہاں تھے وہی کھڑے رہے ، مگر چین جو دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے مگر آج دنیا کی ایک کامیاب اور بھرپور ریاست کے روپ میں غربت زدہ ممالک کو ایک پیغام دیتی ہے کہ آواور ہم سے سیکھو کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی کیسے ممکن ہوتی ہے ، چین نے اپنے عمل سے ہرقسم کی ایکسپورٹ کو منافع بخش بنا دیایا، مگر آج جو ہم چین کو اپنا سب سے اچھا دوست اور ہمسایہ مانتے ہیں سوائے ایک دوستی کے چین سے ہم کچھ نہ سیکھ سکے حتیٰ کہ اپنا قبلہ تک درست نہ کرسکے جس کی وجہ گزشتہ حکومتوں کی کرپشن اور لوٹ مار تھی جس نے پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کو کہی کا نہ چھوڑا، بھارت سے جہاں کشمیر کے معاملے میں پاکستان کا جھگڑا ہے وہاں لداخ کی وجہ سے بھارت کا چین سے بھی جھگڑا رہتاہے لداخ بھی اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ چین ہے مگر آج چائنہ انڈیا سے 5 گناہ زیادہ طاقتور ملک ہے جس کہ وجہ سے انڈیا بھارت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے وجہ صرف ایٹمی پاور نہیں بلکہ وہ تمام شعبے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے جس میں اس نے انڈیاتک کو اپنا ماتحت کررکھاہے نتیجہ لداخ پر حالیہ جھڑپ جس پر انڈیا نے پوری دنیا کے سامنے چینی افواج اور حکومت سے معافی مانگی ، آج ہمارے پاکستان میں علم اور ٹیکنالوجی محدود ہے پروفیشنل ازم کی طرف توجہ نہایت ہی کم ہے اور ملک میں ہرطرف جاری سیاسی چپقلش کی وجہ سے ہر چیز متنازع سی دکھائی دیتی ہے ملک کی عدالتوں میں چوری اور ڈاکوں کے کیسسز کی بھرمار ہے جس نے انسانی فلاح کے عمل کو بہت آہستہ کیاہواہے چین کی نسبت اگر جمہوریت کی بات کرے تو جمہوریت ایک اچھی چیز ہے مگر اس کے ساتھ شہریت کے اصولوں اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتاہے جس کی الف اور ب تک کا ہ میں معلوم نہیں ہے بس جمہوریت اور آمریت کی ایک رٹ لگارکھی ہے ، پاکستان میں چھوٹے چھوٹے ٹھیلے چھوٹی بڑی شاہراہوں پراکثرکھڑے ملتے ہیں جس پر خریداروں کا بے پناہ رش لگارہتا ہے جس کی وجہ سے اکثر سڑکیں بلاک رہتی ہیں کہنے کو تو یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر جن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے ان ملکوں نے اپنی ترقی کو گراس روٹ لیول سے شروع کیا ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر توجہ دی ۔ آج پاکستان میں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی ہیرا پھیری کرکے کمارہاہے آج ہر کوئی ایک رات میں ہی اقتدار حاصل کرلینا چاہتاہے ہر آدمی پلک جھپکتے میں ہی امیر آدمی بن جانا چاہتاہے ،ہم صرف اس انتظار میں رہتے ہیں کہ مغرب سے ایڈ مل جائے فلاں سے پیسہ مل جائے بس یہ ایک سوچ ہم پر حاوی رہتی ہے مگر یہ جاننے کی کبھی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ترقی کے لیے ایک تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر محنت کے ساتھ زہنی سوچ کا بھی عمل دخل ہوتاہے ابھی بھی وقت ہے مگر اس کے لیے ہ میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کی قدر کرنا ہوگی ایک قوم بننا ہوگا کرپشن سے پاک معاشرے کے لیے کام کرنا ہوگا ۔ چین کی اس کہانی میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے اس عمل کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو غربت کو کنٹرول کرنے کے لیے واضح اور مسلسل کوششیں کرنا پڑتی ہیں سبق یہ ہے کہ صرف صنعتی ترقی سے غربت ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ غربت ختم کرنے کی پالیسیاں بھی نافذ کرناپڑتی ہیں ۔ ختم شد
۔