تحریر: الہام آفریدی
خیبرپختون خواہ میں معلومات تک رسائی آر ٹی آئی کا بل 2013 میں صوبائی اسمبلی سے پاس ہوا آر ٹی آئی ایکٹ 2013 کے تحت ہر شہری عوامی اداروں سے معلومات حاصل کرسکتا ہے اور کوئی بھی سرکاری عہدیدار یا عوامی ادارہ معلومات کو عوام سے چھپا نہیں سکتا کیونکہ تمام محکمے عوامی فنڈز استعمال کرتے ہیں اور عوامی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کے پابند ہیں۔آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت خیبر پختونخوا کے شہری سرکاری اداروں کی کارکردگی، ملازمین کی تنخواہوں اور انہیں حاصل مراعات سمیت اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر کیے گئے اخراجات سے متعلق معلومات حاصل کر سکتا ہے اس قانون کے تحت عوامی سطح کی معلومات کو 10 دن کے اندر درخواست گزار کو مفت فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ مقررہ وقت میں معلومات نہ دیے جانے کی صورت میں متعلقہ محکمے کی شکایت رائٹ ٹو انفارمیشن کمشن میں کروا ئی جائے گی، جو معلومات کی فراہمی میں تاخیر پر متعلقہ ادارے سے پوچھ کرے گا. کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن بعض پابندیاں موجود ہیں۔جیسے قومی سلامتی سے متعلق حساس معلومات، کسی شہری کی ذاتی معلومات یا کوئی بھی ایسی معلومات جس سے کسی معصوم شہری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی شہری متعلقہ محکمے میں ایک تحریری درخواست جمع کراتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ انھیں کس قسم کی معلومات درکار ہے۔ متعلقہ افسر دس دن میں شہری کو جواب دینے کا پابند ہے اور اگر معلومات جمع کرنے میں وقت لگ رہا ہے تو محکمہ درخواست گزار کو 10 دن میں آگاہ کر کے مزید 10 دن کا وقت لے سکتا ہے اور 20 دن بعد بھی متعلقہ محکمے کی جانب سے جواب نہ ملنے یا معلومات دینے سے انکار پر انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا جاتا ہے۔
اس تمام عمل میں درخواست گزار معلومات کے حصول کا غرض و مقصد بتانے کا پابند نہیں مگر متعلقہ محکمہ کمیشن کے سامنے جوابدہ ہے کہ وہ معلومات کیوں نہیں دینا چاہتا۔آر ٹی آئی ایکٹ کا نفاذ عوام کو معلومات حاصل کرنے کا حق دیتا ہے جو اداروں کو شفاف اور جوابدہ بناتاہے اور ایک اچھی طرز حکمرانی میں مدد ملتی ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد عوام کو معلومات دینا ہے جس سے ادارں میں کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کے عمل کو فروغ ملتا ہے۔اس ایکٹ کے نفاذ سے پہلے عام آدمی کو اداروں سے عوامی معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں تھا،ایکٹ پر عملدرآمد کے باعث صوبے کا ہر شہری حکومتی اقدامات اور معاملات سے آگاہ و باخبر رہ سکتا ہے۔ محروم طبقات کو قومی و سماجی ترقی میں شمولیت کے مساوی مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنا کر کرپشن کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ احتساب کے عمل کو فروغ دے کر انداز حکمرانی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے نفاذ سے عوامی خدمات کی فراہمی کے نظام میں بہتری آئی ہے۔