قومی اسمبلی نے بچوں کے تحفظ اور ان کے لیے الگ نظام انصاف سے متعلق 2 بل متفقہ طور پر منظور کرلیے۔
بل وفاقی وزیر انسانی حقوق ممتاز تارڑ نے پیش کیے جن کے تحت بچوں کے تحفظ کے لیے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی سربراہی میں مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے گا جبکہ جرائم میں ملوث کمسن بچوں کے لیے الگ عدالت قائم کی جائے گی جو مقدمے کا 6 ماہ میں فیصلہ کرے گی۔
کمسن ملزم کو پولیس کی تحویل میں دینے یا جیل بھیجنے کے بجائے مشاہدہ گھر میں رکھا جائے گا ، اس کی شناخت افشا کرنے پر 3 سال قید کی سزا اور جرمانہ کیا جاسکے گا۔
تحفظ اطفال بل 2017 کے مطابق عدالت کمسن بچے کو نقصان پہنچنے کے خطرے کے پیش نظر خاندانی تحویل میں دینے پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔
حکومت ایکٹ کے نفاذ کے بعد جلد ازجلد تحفظ اطفال کے ادارے قائم کرے گی جبکہ تحفظ طفل و نگہداشت فنڈ قائم کیا جائے گا۔
نظام انصاف برائے کمسن بل 2017 کے تحت جرم کے شکار ہر کمسن بچے کو ریاست کے خرچ پر قانونی معاونت ملے گی، بچے کو تحویل کے 24 گھنٹے میں اس کے حقوق بارے آگاہ کیا جائے گا۔
بل کے مطابق حکومت کی طرف سے 10سالہ تجربے کا حامل وکیل معاونت کیلئے فراہم کیا جائےگا۔
حکومت ایکٹ کے نفاذ کے 3 ماہ میں ایک یا زائد عدالت برائے کمسن اشخاص قائم کرے گی۔کمسن بچوں کے تمام مقدمات ٹرائل کورٹ سے بچوں کی عدالت میں منتقل کیے جائیں گے۔
بل کے تحت نظربندی کے امتناع سے متعلق کسی جرم میں کمسن کو گرفتار نہیں کیا جائےگا، قابل ضمانت جرم کے کمسن ملزم کو ضامن یا بغیر ضامن کے رہا کردیا جائےگا جبکہ کمسن کو کسی حالت میں پولیس کی تحویل یا جیل کے بجائے مشاہدہ گھر میں رکھا جائے گا۔
16 سال سے زائد عمر کے سنگین جرم میں گرفتار کمسن کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جائے گا۔ کمسن سے ایس پی کی نگرانی میں سب انسپکٹرعہدے کا پولیس افسرپوچھ گچھ کرسکے گا۔
کمسن لڑکی کو مرد پولیس افسر گرفتار نہیں کرسکے گا جبکہ کمسن لڑکیوں کو لڑکیوں کی پناہ گاہ میں رکھا جائے گا۔