دہائیاں اوردوہائیاں محمد ناصراقبال خان

0

 

پاکستان میں کئی دہائیوں سے مٹھی بھر پوش طبقہ سفیدپوش طبقات پرراج جبکہ اپنے مفادات کیلئے ان کا استعمال اوراستحصال کررہاہے۔ کئی دہائیاں ہوگئیں لیکن بیچارے عام لوگ آج بھی اپنے حقوق کیلئے دوہائیاں دے رہے ہیں۔ہماری ریاست میں آمریت کاسورج سوانیزے پرہویانام نہاد جمہوریت رائج ہو، ملک اورعوام کوسرمایہ دار اشرافیہ نے یرغمال بنایاہوا ہے۔پرویزمشرف کی آمریت اورعمران خان کی جمہوریت جبکہ ان دونوں کے طرزحکومت میں مجھے توکوئی فرق نہیں لگتا۔ محض چہروں کی تبدیلی سے پاکستان میں خوشحالی نہیں آئے گی،امن وآشتی اورآسودگی کیلئے عوام نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ اس نظام نے ان سے انتقام لیا۔ حقیقت میں جمہوریت ''جمہور'' سے اِنتقام کادوسرانام ہے۔عام لوگ ملک میں اُس نظام کے منتظرہیں جس کاوعدہ بابائے قوم ؒ نے کیا اورجس کیلئے پاکستان معرض وجودمیں آیا تھا۔ایسانظام جہاں عام آدمی کی عزت نفس پرحملے نہ ہوں،جہاں کسی نادار کی عزت نہ اچھالی جائے، کسی مفلس کے بچے پرکوئی رئیس زادہ اپناکتا نہ چھوڑے۔جہاں بیٹیوں اورمستقبل کے معماروں کامعصوم بچپن اوران کی آبرومحفوظ ہو۔جہاں ہر سائل کوبھاری قیمت کے بغیربروقت انصاف ملے۔جس طرح ہمارے معاشرے میں 7/24 بنیاد پرمجرمانہ سرگرمیاں ہوتی ہیں،جس طرح دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کیلئے ہسپتال اورتھانے7/24بنیادوں پرکام کرتے ہیں اس طرح انصاف کے ایوانوں سے بھی 7/24بنیادوں پرعدل کی فراہمی ازبس ضروری ہے۔مجرمانہ سرگرمیوں کی سرکوبی کیلئے نظام عدل کوبھی مستعد مجرم کااس رفتار کے ساتھ تعاقب،محاصرہ اورمحاسبہ کرناہوگاورنہ وہ زندگی بھر عدل کے آگے آگے دوڑتا اورچھپتا رہے گا۔پاکستان کیلئے ایسانظام ناگزیر ہے جہاں ادارے سیاست اورحکام منافقت سے پاک ہوں۔جہاں سرکاری آفیسرزاوراہلکار ''سیاست ''نہیں ''ریاست'' کیلئے کام کریں۔حلف کی روسے ان کی وفاداریاں اورتوانائیاں '' اہل سیاست'' نہیں '' ریاست ''کے ساتھ ہوں۔
 کنٹینر کی چھت سے تبدیلی کانعرہ لگانیوالے اقتدارمیں آنے کے بعدخودتبدیل بلکہ بے نقاب ہو گئے ہیں،کاش تبدیلی سرکار کے سرخیل نے دھرنے کے دوران تقریر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیلیورکرنے کیلئے کوئی تدبیراورکوئی ٹیم بنائی ہوتی۔اگرعوام اپنااوراپنے بچوں کامستقبل روشن دیکھناچاہتے ہیں توانتخابات میں امیدواروں کوان کی شہرت یامالی حیثیت نہیں بلکہ صلاحیت اورقابلیت کی بنیادپرمینڈیٹ دیاکریں۔ہماری سیاست میں تھانہ کلچر کی تبدیلی ایک ہاٹ ایشو ہے اوراس پرووٹ بھی ملتے ہیں۔پاکستا ن میں تھانہ کلچر کی ''تبدیلی ''پرسیاست کرنیوالے کئی آئے اورکئی گئے لیکن لاہور کے اچھی نیت اوراعلیٰ تربیت کے حامل ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان نے محض سات ماہ میں لاہورپولیس کارویہ اورتھانوں کا ماحول بدل دیا تھاپھر انہیں سی پی او میں ٹرانسفر کردیا گیا اوراس تبدیلی کاسفر وہیں رک گیا جویقینا ان کی دوبارہ تقرری سے اس مقام سے پورے اہتمام کے ساتھ دوبارہ شروع ہوگاجہاں رکا تھا۔پولیس کلچر میں تبدیلی اندرسے آئے گی،اس کیلئے پولیس کو نیک نام اورکہنہ مشق محمدطاہر،زیرک بی اے ناصراورانتھک اشفاق احمدخان سے پروفیشنل آفیسرزکے تجربات،مشاہدات اوران کی انتظامی صلاحیتوں سے استفادہ کرناہوگا۔ ارباب اقتدار سے ریاستی نظام میں تبدیلی کی امیدر کھنا بے سودہے کیونکہ تھانہ کلچر کی تعمیری تبدیلی سے ان کی منفی سیاست نابودہوجائے گی اسلئے وہ پولیس کواپنے زیراثررکھناچاہتے ہیں۔
  میں سمجھتاہوں کسی شہرمیں ڈیلیور کرنے کیلئے ڈی آئی جی،سی پی اویاڈی پی او کامقامی ہوناضروری نہیں،پروفیشنل انجینئر جہاں بھی جائے گا وہ اپنے منفردکام سے اپنامقام بنائے گاجبکہ اناڑی انجینئر جہاں بھی جاتاہے ناکامیاں اس کے ساتھ سایہ کی طرح چلتی ہیں۔پنجاب میں مسعود شاہ کانام آج بھی ان کے کام کی بدولت احترام سے لیاجاتا ہے،ان کاتعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔جو مسعودشاہ کودیکھتاوہ انہیں آئی جی نہیں فارن سیکرٹری سمجھتا۔ان کی پنجاب میں پہلی تقرری آئی جی کی حیثیت سے ہوئی،کوئی ان کی ایمانداری کی قسم نہیں اٹھاتا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے پنجاب پولیس کی مجموعی بہتری کیلئے قابل قدرخدمات انجام دیں۔اس طرح نیک نام جاویداقبال سندھ کے فرزند تھے وہ بھی بحیثیت آئی جی اس عہدمیں پنجاب آئے جب تخت لاہور پر شہبازشریف براجمان تھے۔جاویداقبال اپنے اصولی موقف پرڈٹ جا تے تھے،وہ سابقہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کی موجودگی میں ان کے ساتھ اختلاف کااظہارکرد یتے تھے،تاہم بینظیر بھٹو کو جاویداقبال کے اوصاف حمیدہ بہت پسندتھے۔ایک بار وہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کے ساتھ ایک اجلاس میں شریک تھے جہاں ایک غیرملکی وفد نے پنجاب پولیس کوبدعنوان کہا، اس پرجاویداقبال وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر احتجاجاً اٹھ کرچلے گئے اورانہوں نے سی پی اوکی بجائے اپنے گھر جانا پسندکیا جس پر شہبازشریف کی ہدایت پرچیف سیکرٹری انہیں منانے کیلئے ان کے گھر گئے اورمنت سماجت کے بعد انہیں فرض منصبی کی بجاآوری پر آمادہ کیا۔بحیثیت آئی جی پنجاب ''جاوید''کے اصولی وآئینی کردار سے ان کا''اقبال'' بلندہوا۔ پنجاب پولیس میں آج بھی جاویداقبال کانام عقیدت سے لیا جاتا ہے اورلوگ ان کے دورمیں پولیس کی نیک نامی اورکامیابی وکامرانی کیلئے ہونیوالی اصلاحات کی نظیر پیش کرتے ہیں۔پولیس ایگزیکٹو بورڈ کے قیام کاکریڈٹ بھی جاویداقبال کوجاتا ہے۔لہٰذاء کسی شہر میں بہترین انتظامی امور انجام دینے کیلئے مقامی ہوناضروری نہیں۔ڈی آئی جی اشفاق احمدخان اورایس ایس پی محمدنویدسے خدادادصلاحیتوں کے حامل آفیسرکو جہاں بھی تعینات کیاجاتاہے وہ وہاں کایا پلٹ دیتے ہیں۔
اشفاق احمدخان کاخاندانی پس منظراوران کی پروفائل قابل رشک ہے،انہوں نے یتیمی کے باوجود زمانہ طالبعلمی سے پروفیشنل زندگی کے دوران قدم قدم پرچیلنجز کا بھرپورمقابلہ کیا،ان کی تربیت اورشخصیت سازی کاکریڈٹ ان کی باوفا،باصفااورشفیق ومہربان والدہ کوجاتا ہے۔ اشفاق احمدخان نے بہاولپورمیں ڈی پی او  جبکہ فیصل آباداورگجرانوالہ میں سی پی او کی حیثیت سے اپنی قیادت اور خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ 2مئی 2019ء کوڈی آئی جی آپریشنزلاہور تعینات جبکہ30نومبر2019ء کوسی پی اومیں ٹرانسفر ہوئے،انہوں نے اس وقت تقرری کیلئے اثرورسوخ استعمال کیا اورنہ 3جون2020ء کودوبارہ تعیناتی کیلئے اپنے تعلقات کاسہارالیا۔پنجاب کے زیرک آئی جی شعیب دستگیر نے پولیس فورس کی نیک نامی کیلئے اشفاق احمدخان کی اچھی شہرت،صلاحیت اورقابلیت کودیکھتے ہوئے ا نہیں دوبارہ تعینات کیا۔اصولی طورپربی اے ناصرکوبھی دوبارہ سی سی پی اولاہورتعینات کیاجاناچاہئے یاپھرراؤسردارعلی خان،احسان طفیل،فیاض دیو،شہزادسلطان اورفاروق مظہر میں سے کسی ایک کویہ منصب دیاجائے کیونکہ اس عہدہ کیلئے ایڈیشنل آئی جی ہونا ضروری ہے۔شعیب دستگیرپنجاب پولیس کے معاملات میں دباؤیامداخلت برداشت اور پروفیشنل ازم پر کمپرومائز نہیں کرتے۔شعیب دستگیر کی کمانڈ میں پنجاب پولیس ٹیک آف کی پوزیشن میں آگئی ہے،پنجاب پولیس کے کپتان شعیب دستگیر پروفیشنل ٹیم ممبرزکے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں اسلئے انہوں نے لاہور کااہم محاذاپنے بااعتماد ٹیم ممبر اشفاق احمدخان کے سپرد کیا۔پہلے بھی پروفیشنل اورانتھک اشفاق احمدخان نے لاہورمیں آتے ساتھ جس طرح اپنے کام سے اپناتعارف کروایا انہیں اس تاریخی شہرمیں کسی نے اجنبی نہیں سمجھا۔انہوں نے تھانوں کے سرپرائز وزٹ کئے،اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کی عزت نفس کچلنے کی بجائے ان کامورال بلندکیااورایک عزت دار کی طرح انہیں عزت دی۔ایک روزکسی تھانے کاسرپرائزوزٹ کرتے ہوئے وہاں ان کا ایک سائل سے آمناسامنا ہوا جوکسی نامعلوم جیب تراش کیخلاف قانونی کارروائی کیلئے آیاتھا جبکہ اس نے اپنے آبائی شہرواپس جانا تھا تواشفاق احمد خان نے اسے سفر کیلئے اپنی جیب سے مناسب رقم دے دی۔لاہورائیرپورٹ پرہونیوالے دوہرے قتل کے بعدانسداددہشت گردی عدالت کے باہر گھات میں بیٹھے دس بارہ مسلح عناصر کو بروقت گرفتارکرکے لاہورکوکشت وخون سے بچانا،کرکٹ میچز کے کامیاب انعقادکیلئے محفوظ ماحول فراہم کرنا اورماہ محرم میں امن وامان برقراررکھنااشفاق احمدخان کی کمٹمنٹ اورقابلیت کاثمر ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنزاشفاق احمدخان کی لاہورمیں دوبارہ تقرری کی نویدسعید مجھے برادرم سلمان پرویز نے دی۔اشفاق احمدخان کس دن چارج لے رہے ہیں،میں نے یہ بات اپنے ایک دوست ایس ایس پی سے پوچھی تومعلوم ہو ا وہ تو اسلام آباد میں پچھلے آٹھ دس روزسے قرنطینہ میں ہیں یعنی وہ اپنی دوبارہ تقرری کے وقت لاہورمیں نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے اشفاق احمدخان کی لاہور سے تبدیلی اورسی پی اومیں تقرری سے اہل شہر کو شدیدجھٹکالگا تھا،لاہورمیں پولیس فورس کے متعدد مستعدآفیسرز بھی اداس ہوگئے تھے۔راقم سمیت متعدد کالم نگاروں اورکرائم رپورٹرزنے ا شفاق احمدخان کے اچانک ''تبادلے'' کولاہورکی سطح پرتھانہ کلچر کی''تبدیلی'' کیلئے بدشگون قرارجبکہ ان کی دوبارہ تقرری پرزور دیاتھا۔جوبات ہمیں چھ ماہ قبل سمجھ آگئی تھی وہ تبدیلی سرکار کوچھ ماہ بعدسمجھ آئی چلیں یہ بھی غنیمت ہے۔اشفاق احمدخان نے سی پی اومیں بھی منفردانداز میں اپنا فرض منصبی انجام دیتے ہوئے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی سوچ اورترجیحات کواپنامحوربنالیاتھا۔اشفاق احمدخان کی طرح جس آفیسر کے اپنے منصب سے کوئی نجی مفادات وابستہ نہیں ہوتے وہ نہ صرف ہرسیٹ پرایڈجسٹ ہوجاتابلکہ ڈیلیوربھی کرتا ہے۔شعیب دستگیر کے خواب کوشرمندہ تعبیر کرتے ہوئے اشفاق احمدخان نے کانسٹیبل سے اوپر تک ریکارڈاورشفاف ترقیوں کیلئے اپناپیشہ ورانہ،آبرومندانہ اوردانشمندانہ کرداراداکیا،یقینا وہ ڈی آئی جی آپریشنزلاہورکی حیثیت سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے مزید دوررس اصلاحات کریں گے،ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔
 شعیب دستگیر اپنے فرض شناس ڈی ایس پی حضرات کوسول ایڈمنسٹریشن کے مساوی تنخواہ اوردوسری مراعات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔زیادہ تر پولیس والے ڈی ایس پی کے منصب تک آتے آتے ضعیف اورریٹائرڈہوجاتے ہیں لیکن ان کے ناتواں کندھوں پربچوں بالخصوص بیٹیوں کی رخصتی کے اہم ترین''فرض ''کابوجھ ہوتا ہے۔سول ایڈمنسٹریشن میں آج تک کسی نے فرض کی بجاآوری کے دوران کسی قسم کے خطرات کاسامنا اور جام شہادت نوش نہیں کیا لہٰذاء ڈی ایس پی حضرات کی تنخواہ اے سی سے زیادہ نہیں توکم بھی مناسب نہیں بلکہ ریاست کایہ امتیازی اقدام ناانصافی کے مترادف ہے۔جس طرح سول ایڈمنسٹریشن میں اے سی حضرات سے چیف سیکرٹری تک ایگزیٹو الاؤنس دیاجاتا ہے اس طرح 1500سے زائدشہداء کی وارث پنجاب پولیس بھی بجاطورپر اس ایگزیٹو الاؤنس کی مستحق ہے۔کرونا کیخلاف بھی پولیس آفیسرز اوراہلکار ہراول دستہ کاکرداراداکرتے ہوئے جام شہادت نوش کررہے ہیں،کروناوبا کے نتیجہ میں شہیدہونیوالے سی آئی اے کے عامرڈوگر سمیت 1500شہیدوں کے وارث پنجاب میں بے وارث کیوں۔جواپنے حق سے محروم ہیں وہ شہریوں کے حقوق کی حفاظت کس طرح کرسکتے ہیں۔
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.