دوتاریخی مقامات کا سفر حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

مولانافضل ہادی ملک کے معروف دینی ادارہ جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث ہیں اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں عظیم مذہبی سکالر،معروف کالم نگار،حضرت الاستاذ امام اہل سنت محدث ومفسر حضرت مولاناسرفرازخان صفدررحمہ اللہ کے جانشین اور صاحبزادے ،شیخ الحدیث حضرت مولانازاہدالراشدی کے نائب کے طورپر امامت وخطابت کے فراءض سرانجام دے رہے ہیں ،موصوف تاریخ کابہت اچھا ذوق رکھنے والے، جیدعالم دین، کہنہ مشق مدرس اور عربی کے بڑے ماہر شاعرہیں ان کا تعلق ہزارہ کے مردم خیزخطہ آلائی سے ہے ،جامعہ اشاعت الاسلام مانسہرہ میں بھی کئی برسوں تک استاذرہے ہیں ،آج کل وفاق المدارس العربیہ کے امتحانات کے سلسلہ میں مرکزی جامع مسجد مانسہرہ میں نگرانِ اعلیٰ کی حیثیت سے تعینات ہیں ،ان کے ساتھ مفتی امان اللہ شازلی نائب کے طورپر اپنے فراءض نبھارہے ہیں ،دودن قبل انہوں نے فون پر بتایا کہ ہم سیداحمدشہیدکی شہادت کے بعد مجاہدین کے مراکزکامشاہدہ کرنا چاہتے ہیں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ،جمعیت علماء اسلام اوگی کے دفترسے ہم نے سفرشروع کیا ، ہماراپہلامطلوب جسکوٹ کے قریب واقع وہ تاریخی قلعہ تھا جہاں 1832ء سے لے کر 1835ء تک مجاہدین اسلام کا مرکز رہا ،امیرالمومنین حضرت سید احمدشہید اور ان کے سپہ سالار مولاناشاہ محمداسماعیل شہید 6 مئی 1831ء کو بالاکوٹ کے مقام پر جام شہادت نوش کرگئے توباقی ماندہ مجاہدین نے جماعت کے ایک پرانے ساتھی شیخ ولی محمدکو اپنا امیر مقررکرکے جہاد کے عمل کا تسلسل برقرارکھا، یہ بے سروسامان مجاہدین کچھ عرصہ بٹگرام کے علاقہ بھوج درہ اور کوہان میں رہے یہاں سے بتکول (آلائی)وہاں سے سنڈاکئی (شانگلہ) اور وہاں سے بونیرکے علاقہ ناواگئی چلے گئے اور وہاں سابقہ مرکز پنجتارمنتقل ہوگئے ، اسی اثنا میں نواب آف امب پائندہ خان نے اگرورکے خوانین کو اپنے علاقہ سے بے دخل کرکے کوزہ بانڈہ کے قریب چوہان جانے پر مجبورکیا ، اگرورکا علاقہ خالی تھا ،پائندہ خان نے مجاہدین کو پیغام بھیجاکہ مجھ سے سید احمدشہید کے دور میں کوتاہیاں ہوئی ہیں میں اس کی تلافی کے لئے اگرور آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے سابقہ جرائم معاف ہوں اور اس علاقہ میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایاجاسکے ،شیخ ولی محمدنے مولانا نصیرالدین منگلوری کی قیادت میں مجاہدین کی ایک جماعت امب بھیج دی ،امب پہنچنے پر پائندہ خان نے مولانانصیرالدین کے ہاتھ پرباقاعدہ بیعت توبہ کرتے ہوئے فسق وفجور سے تائب ہوکر اطاعت شریعت کا اقرارکیا اور ساتھ ہی اگرور اور جسکوٹ کے قلعہ حوالے کرنے کا عہد نامہ بھی لکھ کر دے دیا ، اس طرح مولانانصیرالدین منگلوری مجاہدین کی ایک جماعت لے کر اگرور آکر1832ء میں جسکوٹ کے قلعہ میں فروکش ہوئے اوراسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی، جہاں سے تین سالہ دور میں مجاہدین نے سکھوں کے ساتھ کئی خون ریز معرکے سرکئے ،جن میں بھیرکنڈ،ملک پور ،جبوڑی ،سچاں ،بٹل،لاچی منگ، جبڑاور کئی دیگر علاقوں کی لڑائیاں مشہور ہیں ،تاریخ کی کتابوں میں یہ قلعہ جسکوٹ کے نام سے یادکیاجاتا ہے اور موجودہ گاءوں ’’ قلعہ گے ‘‘اسی قلعہ کے مقام پر آباد ہے ،اس کے لئے ہم نے قلعہ گے کے جناپروفیسر سید حبیب اللہ شاہ کے صاحبزادے سید ضیاء اللہ شاہ کاکاخیل کو ساتھ لیا اور اس قلعہ کے مقام پر چلے گئے ،قلعہ گے گاءوں کے جنوب سے ایک دیوار شروع ہوتی ہے جو مغرب سے شمال تک طویل مسافت طے کرتی ہوئی پانی کی ندی پرپہنچ جاتی ہے ،ہم نے قلعہ گے کے عقب میں اس تاریخی قلعہ کی طویل دیوارکامشاہدہ کیا جو بڑے بڑے دیوہیکل پتھروں سے بنی ہوئی آج بھی موجود ہے اور اپنی عظمت رفتہ کی نشانات کے مشاہدہ کے ساتھ ساتھ اپنی شکستگی پر آنسوبہاتے ہوئے بزبانِ حال دنیا کی بے ثاتی کا اعلان بھی کررہی ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اس کے دین سے غفلت میں پڑے ہوئے بڑے بڑے محلات اور عالیشان کوٹھیوں میں عیش وعشرت کرنے والوں کے لئے ایسے مقامات تازیانہَ عبرت ہیں ،اگر کوئی سبق حاصل کرنا چاہے، اس موقع پر ہمارے میزبان سید ضیاء اللہ شاہ کاکاخیل نے اس جگہ کے متعلق کئی عجیب وغریب داستانیں سنائیں جو سینہ بسینہ بزروگوں سے منتقل ہوکر آئی ہیں ،لیکن ہم انہیں کانوں سے ٹکرانے کے بعد وہیں دوسرے لوگوں کے لئے چھوڑ ناپسندکیا،اس تاریخی قلعہ کی دیواروں کی تصویریں کیمرہ میں محفوظ کرتے ہوئے یہاں سے ہم ترند(ضلع بٹگرام )کے لئے روانہ ہوگئے ، مولانانصیرالدین نے جب جسکوٹ کے قلعہ میں قیام کرکے اطراف وجوانب میں جہادی معرکے شروع کئے ،سکھوں اور ان کے بہی خواہوں کو پریشان کرنا شروع کیا تو مولاناغلام رسول مہر کے مطابق دیشانیوں نے بہت بڑالشکر تیارکے مجاہدین پر شبخون مارنے کا پروگرام بنایا وہ چھیڑمنگ کے مقام پر جمع ہوگئے ،مولانانصیرالدین نے پیش قدمی کرتے ہوئے ان کو پسپائی پر مجبور کیا اور ترند کے قلعہ پر قابض ہوگئے ،جوتاریخ میں شاہی خان کے قلعہ کے نام سے مشہور ہے،بعض دیگرمورخین کے مطابق شاہی خان نے خود آکر علاقہ کے لوگوں کی بغاوت کا شکوہ کرتے ہوئے مجاہدین کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جو مجاہدین نے قبول کی اور اس طرح شاہی خان کا قلعہ بھی مجاہدین کے قبضہ میں آگیا،شاہی خان موجود خان آف ترندسابق صوبائی وزیر حاجی محمدیوسف خان کے پرداداتھے ،یہ قلعہ جسکوٹ کے قلعہ سے بہت زیادہ محفوظ اور مستحکم تھا اس لئے مولانانصیرالدین نے اسی قلعہ کو اسلامی حکومت کا دارالخلافہ قراردیا ،اس دا الخلافہ سے آلائی تا دہمتوڑ ایک شانداراسلامی حکومت قائم رہی ، اس تین سالہ دور میں یہاں بڑے بڑے حالات وواقعات رونماہوئے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں ہے،ترند پہنچ کر ہم نے کچھ مقامی لوگوں سے گفتگوکی مگر ان میں کسی کوان تاریخی واقعات اورمقام کے بارہ میں کوئی علم نہیں تھا،البتہ انہوں رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ حاجی صاحب ہی اس کے بارہ میں کچھ بتاسکتے ہیں آپ ان سے ملاقات کرلیں ،اس کے بعد ہم نے حاجی یوسف خان سے ملاقات کی اور ان سے اپنی آمدکامدعابیان کیا تو انہوں نے حسب روایت اکرام کیا اور ملک کی سیاسی صورت حال پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ میں تین سال کی عمر میں یتیم ہوچکا تھا چودہ سال کی عمر میں مجھے خانگی ملی ،چچاکمال خان نے مجھے سکول میں داخل کیا لیکن حالات کی سنگینی کی بناپر میں تعلیم حاصل نہ کرسکا اور ساری عمر مقامی پنچایتوں ،جرگوں ،سیاست اور لوگوں کی خدمت گزاری میں مصروف رہا ،اس لئے مجھے تاریخ کی طرف رخ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ،بہرحال ترند میں اس دور کے قلعہ کے نشانات میں سے کوئی نشان اب باقی نہیں ہے ،حاجی یوسف خان نے اپنے دادشاہی خان کے زمانہ کے قلعہ کو مسمار کرکے نئے مکان بنائے ہیں ،لیکن اس متبرک مقام پر تین سال تک مجاہدین کے اخلاص وللہیت،نعرہ تکبیر کی آوازیں ،تہجدکے وقت ان کی سحرگاہی ،تسبیح وتہلیل ،نمازوتلاوت،حدودوقصاص،ان کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ،تیراندازی اور دیگر اسلامی اعمال وشعائر کی برکات اب بھی موجود ہیں ،جن کو اہل بصیرت ہی محسوس کرسکتے ہیں ،سیداحمدشہید کی تحریک کو موجودہ نسل صرف اتناجانتی ہے کہ وہ ہندوستان سے آئے اور بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کرگئے ،حالانکہ ان کی اصلاحی اور جہادی کارناموں سے صحابہ کرام کے دورکی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور ان کی شہادت کے بعد ان کی تحریک کے مجاہدین نے جو تسلسل قائم رکھا بونیر،سوات،باجوڑ،مہمند،صوابی ،اٹک بٹگرام اور مانسہرہ کا چپہ چپہ ان کی جہادی کارناموں کی گواہی دیتا ہے ،انگریز کی مضبوط حکومت کو انہوں نے سوسال تک پریشان کئے رکھا ،جنگ امبیلہ اس دورکا مشہور معرکہ ہے جس میں ہزاروں انگریز ی فوج تہ تیغ ہوگئی تھی،قیام پاکستان تک ان مجاہدین نے جہادکاعلم بلندکئے رکھا اور پھر جہاد کشمیر میں حصہ لے کر اپنے حصے کافریضہ بھی انہوں نے اداکیا ،امام المجاہدین حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی;231;،امام انقلاب مولاناعبیداللہ سندھی ;231;،امام الہندمولانا ابولکلام آزاد;231;،حضرت حاجی ترنگزئی;231; اور دیگر مجاہدین بھی اسی جہادی تحریک کے تسلسل کے طورپر کام کرتے رہے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.