”مجھے ہے حُکمِ اذاں“(ماہم حیا صفدر)

0

مدینہ منورہ میں مسلمان ابھی مکمل طور پر سیٹلڈ نہیں ہوئے تھے۔ منافقین اور یہود و نصاریٰ کی دیگر شرارتوں میں سے ایک شیطانی عمل یہ بھی تھا کہ مسلمان عورتیں جب گھر سے باہر (بول و براز یا دیگر اہم امور انجام دینے کی خاطر) نکلتیں تو ان پر آوازے کستے اور چھیڑ چھاڑ کرتے۔ ان کے یوں تنگ کرنے سے مسلم خواتین کا باہر نکلنے عذاب بنا ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے دربارِ رسالت ﷺ میں اپنا مسئلہ بیان کیا۔ حضرت عمرؓ نے بھی پردے کے بارے میں اپنی رائے دی۔ جب منافقین اور یہود و نصاریٰ سے بات کی گئی تو انہوں نے عذر پیش کیا کہ انہیں پتہ نہیں چلتا کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں۔ اس لیے وہ دیگر عورتوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی اپنی شرارتوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر کوئی نشانی ہو جائے گی تو آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ آیاتِ حجاب اتریں۔ سورہ نور میں احکاماتِ پردہ بیان ہوئے۔ ”تاکہ تم پہچان لی جاؤ!“ کا مقصد یہی تھا۔ اس کے بعد جب مسلم خواتین ان احکامات کے مطابق اپنے آپ کو اپنے اللہ کے کہے ہوئے طریقے سے ڈھانپ کر نکلتیں تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ ان پر آوازے کسے یا ان سے بدتمیزی کر گزرے۔ اللہ پاک نے ایک ایک چیز کو اچھے سے، تفصیل سے سمجھا دیا۔ پردہ کیسے کر کے نکلنا ہے سے لے کر نامحرم سے بات کرنی ہے تو کس ٹون میں کرنی ہے۔ گھر میں ٹکی رہو، دورِ جاہلیت والا ”تبرج“ نہ کرو، بازار میں تیز خوشبو لگا کے نہ جاؤ، اشد ضروریات کے لیے باہر نکلنا ہے تو کنارے کنارے چلو، کیسے چلو، کیا کرو سب کہہ دیا۔ مرد کو پہلے ہی کہہ دیا نظر جھکا لو، اپنی نظریں نیچی رکھو! ہر امر، ہر کام میں میرے اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔ نظر اٹھنا باعثِ فساد ہے تو بالکل اسی طرح عورت کا اپنے سِتّر نہ ڈھانپنا، اپنے جسم کی نمائش کرنا، دعوتِ نظارہ دینا بھی فساد کا باعث ہے۔
مرد و عورت دونوں کو اپنے اپنے حقوق و فرائض دے کر ان کی حدود بتا دی گئیں۔ قانونِ فطرت ہے کہ ایک بھی حد توڑے گا تو نتیجہ فساد اور خرابی کی صورت نکلے گا۔ عورت کو مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران بھی مجمعے سے دور رہنے کی تلقین کی گئی۔ عورت کو جہاد و دیگر ایسے فرائض سے بھی آزاد کیا گیا۔ وہ ہمارے اسلام کا دور تھا۔ وہ ریاستِ مدینہ تھی کہ جہاں فاحشہ عورت اور فحش مرد دونوں کو سزا دی جاتی تھی۔ وہ ہمارے پاک نبیﷺ کا دور تھا کہ نابینا صحابی کی آمد پر حضرت عائشہؓ، امن المومنین کو اندر جانے کا حکم دیا کہ وہ نابینا ہے تو کیا ہوا تم نہیں۔
وہ ریاستِ مدینہ تھی، وہ خلفائے راشدین کا دور تھا۔ وہ عمرِ فاروقؓ کا دورِ عدل و انصاف تھا کہ ایک عورت مدینہ سے شام تک بلاخوف و خطر سفر کر سکتی تھی۔
رفتہ رفتہ وقت بدلا۔ مسلمان غیروں کے رنگ میں رنگنے لگے۔ مغرب کے چالاک مرد نے ایک چال چلی۔ جو ”فرائض“ عورت کے متعلق اسے سونپے گئے تھے، اس نے ”حقوق“ کے سنہرے پیکٹ میں لپیٹ کر عورت کو پیش کر دیے۔ مغرب کی کم فہم عورت نے اسے ”آزادی“ خیال کیا اور خوشی سے قبول کر لیا۔ یوں چالاک مغربی مرد اپنی ذمے داریوں سے آزاد ہوتا گیا۔ مغربی خطوں میں واقع مسلم ممالک نے یہ اثرات جلدی قبول کیے۔ مغربی معاشرے نے زن و مرد کو مادر پدر آزادی دی، شتر بیمہار کر دیا۔
ایسے مغرب نما مسلم معاشرے پسماندہ مسلم ممالک و روایتی معاشروں کی نظروں میں آئے تو بغاوت نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ زن و مرد اس بھیڑ چال کا حصہ بننے کے لیے سربکف میدانِ ”بیعملی“ میں کود پڑے۔ ایک عجیب سی نفسا نفسی اور دھینگا مشتی شروع ہو ئی۔ مشرقی مرد بھی مغربی مرد کی طرح غیرت و کردار کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں لگ گیا۔ مشرقی عورت بھی مغربی عورت جیسی ”آزادی“ کی خواہش کرنے لگی۔ اس سب نے معاشرے میں وہ بگاڑ پیدا کیا ہے کہ الاماں۔
زمانہ جاہلیت والا ”تبرج“ لوٹ آیا۔ ”پرانے“ کو ”نیا“ بنا کر پیش کیا گیا جسے ہاتھوں ہاتھ لینے کا شوق ہر دل میں پیدا ہو گیا۔
اب آتے ہیں اپنے معاشرے کی طرف۔ اپنے ملک پاکستان کی طرف۔ آئے دن ریپ کیسز کی خبریں آتی ہیں تو کبھی غیرت کے نام پر قتل کی۔ عورت بلاشبہ مظلوم ہے۔ مگر ہر کہانی میں نہ ظالم مکمل ظالم ہوتا ہے نہ مظلوم مکمل مظلوم۔ اگر نوبیاہتا عورت پر جہیز کم لانے پر گیس کا چولہا پھٹ جاتا ہے تو ویسے ہی اکثر نوبیاہتا عورت کسی آشنا کے ساتھ مل کر سسرال بھر کو زہر دے کر فرار ہو جاتی ہے۔ عورت ماں کے روپ میں بیٹی کو تو ”اگلے گھر جانا ہے“ کی ٹیپ روز سناتی ہے، گھر کے کام سکھانے سے لے کر سسرال والوں کی خدمت تک کے پاٹ پڑھاتی ہے مگر بیٹے کو تھوڑی سی انسانیت بھی سکھانے سے قاصر ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ کہتا ہے کہ مرد کو بس جنم دے کر سپیرئریٹی کمپلیکس کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ گھر میں گوشت بنا ہے، ”اچھی بوٹی بھائی کے لیے“ یہ مقولہ ماں کے روپ میں بیٹھی عورت کا ہی ہوتا ہے۔ بھائی نے بہن کو کھیلتے میں مار لیا، ”وہ بھائی ہے، وہ لڑکا ہے“ کی گردان یہی عورت سناتی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اس انڈر پراسیس مرد کے دماغ میں خناس بھرنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد ایک لڑکی کو سب سے زیادہ طعنے سسرال میں اکثر ساس اور نند کے روپ میں بیٹھی عورت سے ہی سننا پڑتے ہیں۔ شوہر سے زیادہ ”پہلا لڑکا ہو“ کی چاہ دادی کو ہوتی ہے۔ سارا سال گھر بھر کی خدمت کرنے والی اگر ایک دن بیمار ہو جائے اور شوہر چائے کا کپ بنا دے، ”رن مریدی“ کا لیبل یہی عورتیں لگائیں گی۔
معاشرے میں پھیلتے بے حیائی کے ناسور کی پرورش میں بہت سے عوامل کردار ادا کر رہے ہیں۔ نکاح جیسا جائز اور حلال بندھن لاکھوں کروڑوں کی گیم بن گیا ہے۔ جبکہ نمود و نمائش کا شوق، برینڈز کا خبط اور دیگر چیزیں ”بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ“ کلچر کو پروموٹ کر کے جنسی تسکین کے راستے ہموار کر رہی ہیں۔ ان ڈائریکٹ نفس کی تسکین کے یہ ذریعے نوجوان نسل کو برباد کئے دیتے ہیں۔
رہی سہی کسر ٹک ٹاک اور سنیک ویڈیوز نامی ایپس نے پوری کر دی ہے۔ عورت جو چراغِ خانہ تھی شمع محفل بننے کے درپے ہو گئی ہے۔ پورن سائٹس تک تو شاید رسٹکرڈ رسائی ہوتی ہو گی مگر یہ ”پورن سائٹس لایٹ“ چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھی پہنچ میں ہیں۔ کہیں نوے سالہ حاجی بابا اچھل رہے ہیں تو کہیں اسی سالہ نانی چھڑپے لگا رہی ہیں۔ کہیں چوسے ہوئے آم کی گٹھلی جیسا نوجوان سٹار بن رہا ہے تو کہیں اپنی نسوانیت کے کھلے نظارے دینے والیاں آنے والی نسل کی رول ماڈلز بن رہی ہیں۔ چند لائیکس اور فالورز کی خاطر یا چند روپے کمانے کی خاطر ایسے ایسے بیہودہ مناظر فلمائے جاتے ہیں کہ الاماں۔ ان ایپس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے۔
حال ہی میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا ہے کہ چودہ اگست کو ایک ٹک ٹاکر لڑکی جو اپنے ”دوستوں“ (نامحرم مرد حضرات) کے ساتھ ویڈیوز بنانے اور ”یومِ آزادی“ منانے گئی تھی اس پر ”درندے“ پل پڑے اور اس کے ساتھ بدتمیزی کی۔ موصوفہ نے قبل ازیں اپنے وہاں آنے کی اطلاع دے دی کہ فینز حضرات وہاں آ جائیں۔ چودہ اگست کو ہونے والا سانحہ سترہ اگست کو وائرل ہوا تو کہا گیا کہ لڑکی کے ساتھ چار سو افراد نے اجتماعی بدتمیزی کی ہے۔ ایک بار تو دل ٹھہر گیا کہ یہ سب کیا ہے؟ ویڈیوز دیکھیں، انٹرویوز سنے، مختلف آرائیں پڑھیں اور پھر کچھ نتائج نکالے۔ہماری قوم ہمیشہ کی جذباتی ہے۔ ہر سانحے یا واقعے پر ہم دو دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں اور آپس میں دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں۔ ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ:لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔وہ غلط تھی تو بھی اس کے ساتھ غلط کیوں کیا؟وہ مجمعے میں گھس ہی گئی تھی تو بدتمیزی کیوں کی؟ (یعنی بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھایا تھا تو اس نے پتیلا کیوں چاٹا)چار سو افراد کو سرِ عام پھانسی دی جائے۔
مغرب کی مثالیں بھی پیش کی جا رہی ہیں کہ وہاں ایک عورت ننگی بھی گھس جائے تو وہ آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ عورت کی مرضی کے خلاف اسے کوئی نہیں چھو سکتا۔ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا دھڑا کہتا ہے;
کیا وہ واحد لڑکی تھی وہاں؟ اور کوئی فیملی یا عورت نہیں تھی؟وہ مرد اتنے ہی وحشی اور درندے تھے تو اس منہ زور ریلے نے کہیں اور رخ کیوں نہیں کیا؟ کہ وحشیوں کا تو کام ہی بلا تفریق و تمیز جو سامنے آئے اسے بھنبھوڑ دینا ہوتا ہے۔اس نے اطلاع دے کر اپنے فینز کو بلایا کہ جو آنا چاہے اور ویڈیوز، سیلفیز بنوانا چاہے آ سکتا ہے۔
کچھ ویڈیوز دکھائی گئیں جس میں موصوفہ نامحرم مردوں یعنی درندوں کے لنگوٹیوں کے ساتھ فریش موڈ میں ہیں۔ بانہوں کے حلقے میں کھڑی مسکرا مسکرا کر ویڈیوز بنوا رہی ہیں۔ کیا سیلفیز اور ویڈیوز کے لیے اپنے جسم کو چھونا جائز قرار دے رکھا تھا؟مجمعے کی طرف فلائنگ کسز اچھالنے کی باتیں اور مناظر بھی گردش میں ہیں۔جن کے ساتھ گئیں، وہ بھی نامحرم مرد تھے۔ گھر والے کہاں تھے؟ عورت کو ابھی آزادی نہیں نصیب کہ گھر والے ”دوستوں“ کے ساتھ کہیں بھی منہ اٹھا کے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔تین دن تک خاموشی کس لیے تھی؟ اگلے دن نارمل ویڈیوز اور تصاویر اپلوڈ ہوئیں۔کیا یہ سب پری پلانڈ اور پبلسٹی کے لیے تھا کہ موصوفہ کے فالورز لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
مجمعے میں کسی ایک نے بھی بڑھ کر مدد نہیں کی، کیوں نہیں کی؟ حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شرعی لحاظ سے کوئی کسی پر تہمت و الزام لگائے خواہ مرد عورت پر یا عورت مرد پر، تو ثبوت و شواہد دیکھ کے باکردار گواہوں کی گواہی سن کر فیصلہ کیا جائے۔ لیکن اگر بازار میں عورت بس اتنا ہی کہہ دے مجھے فلاں نے چھیڑا ہے تو وہاں کھڑے دیگر ”درندے“ بنا تصدیق کیے اس شخص کی درگت بنا دیتے ہیں۔
انٹرویو میں مظلومہ مکمل میک اپ زدہ ہیں۔ کہیں سے سُتا ہوا چہرہ دکھ رہا ہے نہ نوچا ہوا۔
اس کے بعد ایک ویڈیو ”ایک نامحرم مرد“ درندوں کی قبیل سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ ہی بنائی گئی ہے جس میں مکمل میک اپ کیے، ڈریس اپ ہوئے کہا گیا ہے میں نے کیا بگاڑا تھا؟ جبکہ ایسے سانحات تو حواس چھین لیتے ہیں کجا ایسے مطمئن و فریش ہو کر ویڈیو پہ ویڈیو ڈالنا۔وحشی درندوں کا مقصد، اس مجمعہ کا مقصد بس چھونا ہی تھا۔ (حیرت تو یہ ہے جب وہ خود ہنستے مسکراتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ سیلفیز بنوا رہی ہیں، ویڈیوز بنوا رہی ہیں، کسی نے بانہوں کے گھیرے میں لے رکھا ہے، چھونا اتنا آسان ہے تو یہ نوبت کیوں آئی؟)
بار بار پاکستان پر الزام لگایا جا رہا ہے اور ملک کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
یہ تو دونوں دھڑوں کا م قف ہے۔ اہلِ عقل و دانش بس یہی نکتہ اٹھاتے ہیں کہ بھلا ایک عورت کیوں چاہے گی؟ وہ خود اپنی عزت داؤ پر کیوں لگائے گی؟ صدیوں پیچھے جائیں تو ہمسرِ عزیزِ مصر بھی ایک عورت تھی جس نے یوسف علیہ السلام کو مقفل کر کے بھی کہا تھا میں نے نہیں اس نے مجھے بہکایا تھا۔ اور معاملہ نبٹنے پر عزیزِ مصر کے الفاظ تھے کہ ”بیشک یہ تمہارا ہی مکر ہے اور تم عورتوں کا مکر بڑا مکر ہے۔“
سستی شہرت کمانے کے لیے مرد ہو یا عورت کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ اس سب میں بیچارے شریف مرد ”نہ اِدھر کے، نہ اُدھر کے“ کی عملی تصویر بنے، ”بہن ہم شرمندہ ہیں“ کہتے ہلکان ہو رہے ہیں۔ احبابِ عقل و دانش کا کہنا ہے کہ وہ غلط تھی، اس نے غلط کیا تو بھی اس کے ساتھ غلط کرنے کی ہمت کیوں کی؟ مطلب اب اللہ کے قوانین کو للکارا جائے گا؟ مطلب آپ اس کے احکامات سے بے خبر ہیں؟ مطلب آپ کو نہیں پتہ کے گندے گندوں کے لیے، خبائث کے لیے خ ئث ہی ہیں۔ مطلب آپ آگاہ نہیں کہ شر کا نتیجہ خیر نہیں ہوتا؟ مطلب آپ نے کتے کو پتھر مارا، آپ نے مار ہی لیا تو کم ظرف کتے کو پڑے اونگھتے رہنا چاہیے۔ وہ ناہنجار کاٹ کھانے کو کیوں دوڑا؟ ان حساس طبیعت احباب کے مطابق بلی نے سو چوہے کھائے ہیں تو بھی اسے بی حجن ہی کہا جائے۔ منطقی، حقیقی اور دلائل پہ مبنی بات کرو تو ”وکٹم اشیمنگ“ کہہ کر شرم دلائی جاتی ہے۔ جبکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں وکٹم قبل ازیں تھوڑی سی ”شیم“ کر لے تو ”اشیمنگ“ والی نوبت ہی نہ آئے۔ مظلوم ہمیشہ مظلوم ہی ہوتا ہے کہاں لکھا؟ کون سی کتاب میں لکھا ہے؟ تحقیقات و تصدیق بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔ ایک طرف آپ کو ایک ”مظلوم“ کی غلطی کا علم بھی ہو پھر بھی آپ کہیں غلطی کی تو غلط کیوں ہوا؟ یہ موقف کیسا ہے؟ جو بونا ہے وہ تو کاٹنا ہے۔ جب میرا پاک خدا کہتا ہے کہ وہ رتی برابر ناانصافی نہیں کرتا، کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو وہ حق کہتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.