ذخیرہ اندوزی کا ذمہ دار کون؟(رضوان اللہ باجوڑی)

0

معاشرے کے کسی بھی ذی شعور انسان سے پوچھ لیجیے کہ حالیہ حکومت کی کارکردگی کیا ہے؟ تو وہ آپ کو صفر نہیں بلکہ منفی صفر کا بتائیں گے۔ قوم کو   بحران پر بحران کا سامنا ہے۔ اقتدار میں لانے کے بعد جی ہاں "لانے” کے بعد مہلت مانگی گئی  کہ سو دن کی مہلت دیجیے۔ دیکھ لینا! جادو کی چھڑی سے کس طرح  سب کچھ ٹھیک کرتا ہوں۔ اگر  شہر در شہر دودھ وشہد کی نہریں نہیں بلکہ تلاطم خیز موجیں نہ بہاؤں تو میرا نام تبدیلی سرکار نہیں ہوگا۔  سؤ دن گزرنے پر جب قوم نے استفسار کیا تو بڑی دلیری اور ڈانٹ ڈپٹ سے مطالبہ ہوا، پنسٹھ سال کا گند اتنے قلیل عرصہ میں صاف کرنا کیسے  ممکن ہے؟ اس لیے  مزید وقت دیجیے۔ اس کے  بعد معیشت کو بام عروج پر لے جانے کے لیے شیخ چلی کا طرہ امتیاز اپنایا گیا اور تبدیلی سرکار نے  قوم  سے خطاب کرتے ہوئے انڈے اور مرغیاں دینے کا کہا۔ معلوم نہیں وہ منصوبہ کس حال میں ہے، کٹوں والے منصوبہ کا تو سرے سے پوچھیے نہیں، وہ سردخانے میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔

 راتوں رات جب روپے کی قیمت اس قدر بُری طرح گرتی ہے کہ  ماضی میں گویا اُس کی مثال ملنا ہی مشکل ہوتی ہے اور جب  قوم پوچھتی ہے تو مثالی وزیر اعظم ارشاد عالی فرماتے  ہیں کہ مجھے تو خود  ٹی وی سے معلوم ہوا کہ روپے کی قیمت اس طرح گری ہے۔ پوری دنیا میں جب پیٹرول سستا ہوتا ہے تو پاکستان میں سستا ہونے کے بعد مافیا اُسے غائب کردیتی ہے۔ خان کی حکومت مافیا کے سامنے بے بسی کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوتی ہے یا عمداً آنکھیں بد کردیتی ہے کہ مافیا ہمیں اپنا حصہ دیتی رہے، قوم کےساتھ جو مرضی مافیا کی، وہ  کرتی رہے۔ عوام کے شکوہ اور شکایت پر پیٹرول مہیا کرنے کا حل یہ نکالا جاتاہے کہ اسے مہنگا کیا جائے لیکن مہنگا ہونے پر جوں  ہی تنقید کی جاتی ہے تو ٹی وی پر آکر خان گویا ہوتے ہے کہ اس فیصلے سے  تو بعض وفاقی وزراء  بھی لاعلم ہیں۔ ستیاہ ناس ہو کیمرہ کا یہاں پر کپتان کی حکومت میں  کوئی بھی ایشو ہوتا ہے، ماضی والے کپتان کا کنٹینر پر کھڑے ہوکر اُسکا حل فوراً  پیش کیا جاتا ہے۔ قوم پوچھتی ہے یہ دو رنگی کیوں ہے؟ جواب ملتا ہے یہ دو رنگی نہیں  بلکہ یوٹرن  ہے، جو کہ عظیم لیڈر کی علامت ہوتی ہے۔ یہ سب  کچھ وطن عزیز میں ہوتا رہا کہ وبائی مرض نے پوری دنیا کو یرغمال بنانا شروع کیا، پاکستان میں یہ بیماری باہر سے آئی اور حکومت کی نا اہلی سے آئی۔ تفتان بارڈر پر غفلت کا علم سبھی کو ہے، جب بیماری یہاں پھیلی اور پھولی تو بروقت تدارک کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اوسان خطاء ہوگئے، جن وزراء نے انکا مقابلہ کرنا تھا اُن میں سے کوئی کہتا "کورونا کاٹتی کیسی  ہے؟”تو کوئی کہتی ہے کو ویڈ 19 کا مطلب ہے کہ اسکے اُنیس پوائنٹس ہوتے ہیں۔لاحول ولاقوة الا بالله!

 وزراء کے بعد سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے جیالے عذرخواہ بن کر کہتے ہے ہمیں کورونا جیسی آفت کا سامنا ہے اس لیے اس سنگین صورت حال  میں حکومت پر تنقید درست نہیں۔

 بھائی کورونا کا تو صرف تین ماہ ہوگئے ہیں اس سے قبل  سولہ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے، حکومت نے اُس میں کیا کار کردگی دکھائی ہے؟

یہ بہانے اپنے دل بہلانے کے واسطے تو درست ہیں مگر قوم کو اس  سے فریب نہیں دیا جاسکتا۔ ساتھ ساتھ  قوم کو ملامت  کرنا شروع کیا  کہ حکومت کیسی ٹھیک ہوسکتی اور   مدینہ کی ریاست کیسی بن سکتی ہے  جبکہ آپ لوگ  کبھی سینیٹائزر  تو کبھی ماسک کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں  عجیب منطق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اللہ ان جیالوں کو  فہم نصیب فرمائے۔ قوم نے آخر کتنے خرید لیے جس سے مارکیٹ میں قلت کا سامنا ہے۔ ظاہر  ہے چند لالچ پرستوں نے یہ سب کچھ غائب کیا ہے اور سرکاری اہلکار  کو اُن  سے اپنا حصہ ملتا رہتا ہے اسی لیے تو اُنکے سامنے بے بس ہے۔ ورنہ ان چند لالچ پرستوں کو پکڑ کر عبرت کا نشان کیوں نہیں بناتے؟ اس لیے نااہلی کو چھپانے کے لیے خدارا! قوم کو ملامت نہ کیجیے۔

اگریہ سب کچھ قوم ہی نے درست کرنا ہے تو پھر حکومت کی ذمہ داری اور اہمیت کیا ہے؟

یہ بات درست ہے کہ عوام اور حکومت دونوں کو ایمانداری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کسی ایک طرف سے حالات درست ثابت نہیں ہوسکتے لیکن تحریک انصاف کے جیالوں کو صرف یہ بات خان کی حکومت میں کیوں یاد آتی ہے کہ جب تک عوام ٹھیک نہیں ہوتی، حکومت ٹھیک ہونے کا سوال کیسے  ہوسکتا ہے۔ عوام کے اعمال کے مطابق ہی  حکومت آتی ہے۔ بھائی ماضی کی  حکومتوں میں آپ کا یہ نظریہ کہاں  تھا کہ اسے بیان کرتے۔ اس لیے اپنے دلوں کو فریب میں مبتلاء نہ کریں اور کھل کر بقیہ عوام کا ساتھ دیں تاکہ اس نااہل حکومت سے اہل پاکستان کو چھٹکارا نصب ہوجائے۔

بحثیت مسلمان ہم میں سے ہر اک کو فرداً فرداً چاہے وہ جس شعبہ میں ہو  کسی طرح بھی ایمانداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آئیے! اس کے لیے  تاریخ اسلام کے اک اہم واقعہ کا مطالعہ کرتے ہیں :

"حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو بھیجا کہ کوئی اچھا سا گھوڑا منڈی سے خرید لاؤ ـ غلام ایک بہترین گھوڑا 300 درھم میں خرید لایا اور ادائیگی کے لیے اس کے مالک کو بھی ساتھ لے آیا ـ

 حضرت جریرؓ نے جب گھوڑا دیکھا تو وہ گھوڑا تین سو درھم سے زیادہ قیمت کا معلوم ھوا ـ

 آپ  نے مالک سے کہا کہ اس کی قیمت زیادہ کرو تمہارا گھوڑا اعلی نسل کا ھے،اس نے کہا کہ چار سو دے دیجیے، فرمایا یہ بھی کم ہیں کہنے لگا پانچ سو دے دیجیے، فرمانے لگے شاید تمہیں گھوڑوں کی نسل کی شد بد نہیں یا پھر تم بہت مجبور ھو اور میں تمہیں تمہاری مجبوری اور لاعلمی کا نقصان نہیں پہنچنے دوں گا، اس کے بعد اس کو ۸۰۰ درھم دے کر گھوڑا خرید لیاـ

گھوڑا بیچنے والا دعائیں دیتا ہوا رخصت ھو گیا۔ تو غلام نے تعجب سے کہا کہ اچھا بھلا اپنی مرضی سے تو ۳۰۰ میں بیچ رہا تھا ، آپ نے خواہ مخواہ سے اتنے پیسے دے دیے !!

حضرت جریر بن عبداللہؓ نے فرمایا کہ خواہ مخواہ میں نہیں بل کہ رسول اللہ ﷺ سے کی گئی بیعت کی وفا میں، مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی تھی کہ میں اپنے مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرونگا” ـ

 اس لیے مجھے اپنے بھلے کی نسبت اپنے مسلمان بھائی کے بھلے کی زیادہ فکر رہتی ہے۔”

یہ ہوتی ہے امت اور اپنی قوم سے سچائی اور ایمان داری۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے ملک و ملت کے ساتھ سچائی اور دیانت داری کا مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.