سورج یا چاند گرہن اور اسلامی تعلیمات (مجاہد خان ترنگزئی)

0

گرہن کے معنی ہیں:داغ لگنا،سیاہ ہوجانا،چنانچہ جب سورج یا چاند گرہن لگتا ہے تو اندھیر اچھا جاتا ہے۔سائنسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ زمین کے گرد چاند گردش کرتا ہے اور چاند زمین کی طرح تاریک ہے، وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے، جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے تو سورج کی رشنی زمین پر پہنچنے سے رک جاتی ہے جس سے ”سورج گرہن“ واقع ہوتا ہے۔ اور جب زمین درمیان میں آجاتی ہے اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی تو ”چاند گرہن“ واقع ہوتا ہے۔

 سورج گرہن کے متعلق مختلف مذاہب ماننے والوں کے مختلف نظریات ہیں۔بعض مذاہب والے اسے منحوس سمجھتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ خدا کے ناراض ہونے کی نشانی ہے۔ قدیم مذاہب میں سورج گرہن اور چاند گرہن کے متعلق عجیب وغریب قصے مشہور تھے۔عربوں میں مشہور تھا کہ سورج گرہن تب لگتا ہے،جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو۔ زمانہ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی موت یا کسی بڑے حادثہ پر سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ ہمارے پاکستان اور ہندوستان میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقعہ پرمعذروں بچوں کو اگر مٹی میں دبادیاجائے اور یہ سورج گرہن کا دھوپ اس پر لگے تو وہ صحتیاب ہوجاتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقعہ پر حاملہ عورتیں چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں،کیونکہ سورج یا چاند کے گرہن ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کا ہونٹ وغیرہ کٹ جاتا ہے، حالانکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے،نہ شرعی اعتبار سے اور نہ ہی سائنس کے اعتبار سے،یہ صرف لوگوں کا وہم اور جاہلا نہ بات ہے۔

 اسلام میں سورج کی سائنسی حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن میں واضح طور پر بتا یا گیا ہے کہ سورج اور چاند خدا کے معین کردہ راستے پر چلتے ہیں اور گردش میں ہیں۔

سورج اور چاند گرہن ا للہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے جوقادرِ مطلق اللہ تعالیٰ سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی پر بھی ہے وہی اللہ تعالیٰ ان کو ماند کردینے پر بھی قادرہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا،اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے،جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔ ”بخاری شریف“میں ہے:

”حضرت ابوہریرہ حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت کرتے ہیں انہو ں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہواتو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام ورکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکر الٰہی اوردعا واستغفار کی طرف دوڑو“۔

احادیث مبارکہ سے ایسے وقت میں جو کچھ ہدایات مذکورہ ہیں ان میں سب سے پہلے مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا ہے۔سورج گرہن کے موقع پر پڑھی جانے والی نماز کو ”صلاۃ الکسوف“، جبکہ چاند گرہن کے موقع پر پڑھی کانے والی نماز کو ”صلاۃ الخسوف“ کہتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر استغفار کرنا ہے۔ تیسرے نمبر پر ذکر واذکار (تسبیح،تحمیدم تکبیراور تہلیل) میں مشغول رہنا ہے۔ چوتھے نمبر پر صدقہ خیرات کرنا ہے۔

”جدید سائنسی تحقیق کے مطابق کسوف وخسوف کے لمحات انتہائی نازک ہوتے ہیں، کیونکہ خسوف کے وقت چاند سورج اور زمین کے درمیان حائل ہوتا ہے، تو سورج اور زمین دونوں اپنی کشش ثقل سے اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ان لمحات میں خدانخواستہ اگر کسی ایک جانب سے کشش غالب آجائے تو اجرام فلکی کا سارا نظام درہم وبرہم ہوجائے گا، لہذا ایسے وقت میں رجوع الی اللہ کے سوا چارہ نہیں‘‘ (درس ترمذی ۳۲۳/ ۲)

 غرضیکہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا نہ دخل ہے اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے،اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے کیونکہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک ورازق بھی۔

نبی اکرامﷺ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوئے تھے اس لیے اگر ایسے موقع پر باہر نکلنے سے بچا جائے،اور بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ اے لوگو! جب تم کو یہ موقعہ پیش آئے تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ۔دعا مانگو، تکبیر وتہلیل کرو،نماز پڑھو اور صدقہ وخیرات ادا کرو۔(مسلم)

ایسے وقت میں براہ ِ راست سورج کو نہ دیکھا جائے تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا، کیونکہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کی احتیاط مطلوب ہے، کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جوتکلیف اورآسانی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی، اگر چہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر واسباب ضرور اختیار کرنے چائیں۔لہذا جب بھی سورج گرہن ہوجائے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.