فاٹا انضمام ایک درست عمل تھا۔ (مولانا خانزیب)

0

پختونخوا کے نئی اضلاع میں فی الوقتی طور پر حکومت وقت کی نااہلی اور کچھ یہاں پر ملکی سویلین اداروں کی غیر منظم ڈھانچے کی وجہ سے کچھ عرصہ سے کچھ لوگ ایسا تآثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ سب کچھ فاٹا انضمام کی وجہ سے ھے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا اوریہ کہ انضمام  ایک غیر مناسب اقدام تھا مگر حقیقت ایسی نہیں ھے یہ باتیں اور افواہیں وہ لوگ پھیلا رہے ہیں جنکو ان علاقوں میں رھنے والے ان انسانی المیوں کا احساس نہیں ھے جو یہاں پر ایک باقاعدہ ملکی نظام کے نہ ہونے کے سبب پیدا ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ھے کہ زمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں کچھ نہ کچھ وقت ضرور لگتا ھے کسی پسماندہ خطے کو اٹھانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ھے۔ فاٹا اصلاحات ایک تاریخی عمل تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا ھے ہم اس درست تاریخی عمل کا تجزیہ کرتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل ایک کے تحت سابقہ فاٹا پاکستان کا حصہ تھا اور اسکو ملک کے دوسرے اکائیوں کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا جبکہ  آئین کے آرٹیکل 247(b) کی رو سے فاٹا کو پارلیمنٹ کی حدود سے خارج قرار دیا گیا تھا

آئین کے آرٹیکل1 کے حوالے سے فاٹا کلُی طورپر ملک کا حصہ تھا لیکن تضاد یہ تھا کہ آئین ہی کے آرٹیکل 247(b) کی رو سے اسے پارلیمنٹ کی حدود سے خارج قرار دیا گیا تھا اور اس کے معاملات چلانے کے حوالے سے اسے صدر پاکستان کے سپرد کر دیا گیا تھا جو اسے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی مرضی سے اس پر حکومت کر سکتا تھا۔  جس کے نتیجے میں آئین کے رو سے اس خطے میں ہونے والے ہر جبر اور لاقانونیت کو تحفظ دیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ سن تہتر کے آئین کو ہمیشہ اس ملک میں پارلیمانی سیاست کے ماحول کا کارنامہ گردانا جاتا ھے اور اسمیں کافی حدتک حقیقت بھی ھے لیکن بدقسمتی سے اس بیمثال آئین میں بھی سابقہ فاٹا کے حوالے سے امتیازی شقیں شامل کی گئ تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس خطے کے باشعور لوگ اس مثالی آئین اور اس کے ان دفعات سے شاکی رھتے تھے۔  یہ گلہ اور شکایت کافی حدتک حق بجانب بھی تھی کیونکہ اگر پچاس سال پہلے ملکی پارلیمان اس ستائیس ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے اور اس میں بسنے والی ایک کروڑ باسیوں کو آئین کے تحت ملک کے دیگر علاقوں کی طرح زیر دست لاتے انکو وہ تمام آئینی و دستوری حقوق دیئے جاتے جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل تھے تو شائد آج یہ علاقہ اس ملک کا  بہتا ہوا ناسور نہ ہوتا ۔یہاں بدامنی نہ ہوتی یہاں کی ساٹھ فیصد ابادی اپنے جنت نظیر وطن سے نقل مکانی پر مجبور نہ ہوتی یہاں غربت بیروزگاری اور حکومتی عملداری کے حوالے سے مشکلات نہ ہوتی جو اج بھی بڑی شدت کیساتھ موجود ہیں۔ یہ حقیقت ھے کہ ماضی میں سابقہ فاٹا کو ریاست کی غلط خارجہ پالیسی کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا اور اسکو قربانی کا بکری بنایا گیا تھا  ان غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں میں اس خطے کے، تاریخی، سماجی، و،معاشی، حالات کو پس پشت ڈال کر مخصوص مقاصد کے حصول کو مقدس بنایا گیا تھا۔ ان تمام تر مقاصد کے حصول کی خاطر اور اسے جائز وروا رکھنے کیلئے یہاں پر ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کو پیدا کیا گیا تھا جو بدقسمتی سے مغل،فرنگی اور پھر پاکستان کے دور تک رھا جنکو صرف اپنے مفادات کا حصول مقدس تھا اور یہاں پر آنے والے ہر آفیسر کی خوشامد اور اسٹیبلشمنٹ کے ہر ناجائز کو جائز کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا اس عرصہ میں ان علاقوں میں اسی جنگی ماحول اور لاقانونیت کے شکنجے میں ایک پوری نسل جوان ہوئی جو اپنی بدبختیوں  دیگر ملک اور باقی دنیا کی خوشحالی اور ترقی کو دیکھ اور سمجھ رہے تھے وہ اپنی علاقے کی بدحالی اور باقی دنیا کی خوشحالی کا تجزیہ کرتے تھے  وہ اس فرسودہ پسماندہ قبائلیت کے ماحول سے اپنے آپ اور وطن کو نکالنا چاھتے تھے جس کیلئے انتھائی مناسب اور دیرپا حل پختونخوا کے صوبہ کیساتھ انضمام تجویز کیا گیا فاٹا کا انضمام نہ تو جلد بازی میں ہوا ھے جیسا کہ کچھ ناعاقبت اندیش سمجھ رہےہیں بلکہ اس کیلئے پورے تیس سال پرامن سیاسی جدوجھد کی گئ ھے اور نہ ہی اس عمل پر اس خطے کے باشعور نوجوان طبقے کوکوئی پشیمانی ھے کیونکہ کسی قوم و خطے کی مستقبل کی تبدیلی اسے بربادیوں کے راستے سے بچاکر مستقل طور پر ایک روشن مستقبل کی راہ پر ڈالنا کوئی ایک دوسال کا عمل نہیں ہوتاھے بلکہ بہتر سال تک اگر کسی علاقے کو ہر طرح کے، ائینی، انسانی، سیاسی معاشی، اور، سماجی ،حقوق سے آپ محروم کرینگے تو جو خلا ان محرومیوں کے نتیجے میں تخلیق ہوگا اس کو پر کرنے میں یقیناً کچھ وقت لگیگا ۔

خدا کریں کہ اس خطے کے باسی جلد سیاسی شعور کیساتھ بیدار ہوجائے تو ان دیرپا مقاصد کا حصول کوئی ناممکنات میں سے نہیں ۔سابقہ فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام تاریخ کے درست سمت میں ایک درست قدم ھے اسکی وجہ یہ ھے کہ 1901 سے پہلے جنوبی وزیرستان سے لیکر باجوڑ تک کے علاقے پختونخوا کا ،تاریخی، لسانی، جغرافیائی ، ثقافتی، اور ،معاشی، طور پر باقاعدہ حصہ تھے تمام علاقوں کا مرکز ھزاروں سال سےپشاور تھا جیسا کہ اب ھے نہ تو آپ یہ علاقے  پشاور سے کاٹ سکتے ہیں اور نہ  ہی آپ پشاور کو ان علاقوں سے۔ جو لوگ فاٹا کو علیحدہ صوبہ دینے کا مطالبہ کرتے تھے انکی اکثریت مراعات یافتہ طبقے پر مشتمل تھی علیحدہ صوبہ چونکہ پاکستان کے موجودہ سیاسی معروضی صورتحال میں ممکن نہیں تھا اس لئے اس غیر فطری مطالبےکی آڑ میں وہ اصلاحات کے عمل کو سبوتاژ کرکے اپنے مفادات کے بچاؤ کیلئے راہ نکالنا چاھتے تھے اسی لئے تو اس طبقے نے  2016 سے پہلے کبھی بھی علیحدہ صوبہ کا مطالبہ نہیں کیا تھا علیحدہ تشخص کی بات ایک ،ڈھگوسلے، کے سوا کچھ نہیں علیحدہ حیثیت وتشخص میں تو آپ بہتر سال تک پڑے تھے پھر کیوں آپ اسکی تبدیلی چاھتے تھے یہ زمانہ انسانی سماج کی تاریخ کے حوالے سے الگ تھلگ رھنے کا نہیں ھے بلکہ پوری دنیا جداگانہ حیثیت سے نکل کر اب ایک گلوبل ویلج بن چکی ہیں آپ وقت اور زمانے کی رفتار کو نہیں سمجھیں گے بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے ارتقاء پذیر ماحول کی ضرورت کے مطابق اپنے اپکو اور اپنے ماحول کو ایڈجسٹ نہیں کرینگے تو حیوانات کے ہزاروں ناپید اجناس کی طرح پناہ ہونگے۔  علیحدہ صوبے کا مطالبہ اس مراعات یافتہ طبقے نے اسوقت کیا جب ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ووٹ بینک کو انضمام کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوا تو اس طبقے کو اپنے تحفظ کیلئے ایک آسرہ مل گیا اور پھر اس غیر فطری اکٹھ کو قبائل کی آواز کہا گیا چونکہ یہ پانچ فیصد مراعات یافتہ طبقہ اس علاقے کی بربادیوں میں خوش تھا جبکہ باقی پچانوے فیصد عوام پتھر کے دور سے بھی بدترین دور میں زندگی بسر کررہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ قوم کی اکثریت میں انکی آواز ہمیشہ کیلئے دب گئ ۔ جب پارلیمنٹ سے آئینی بل جمہوریت کی روح کے مطابق پاس ہورہا تھا تو کچھ سیاسی لوگوں اور اس مراعات یافتہ طبقے کی غلط اپروچ کی وجہ سے آئین میں اس طرح سے ان نئی اضلاع کے مفادات کو تحفظ نہیں دیا گیا جتنا کہ ہونا چاھئے تھا جنمیں پچاس سال تک اس علاقے کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ کرنا این ایف سی ایوارڈ کا تصفیہ اور ایک طویل المیعاد ڈویلپمنٹ کے منصوبوں کیلئے جامع پلاننگ کرنا مگر ان لوگوں کی غیر فطری مخالفت نے آئین میں ہمارے مفادات کو نقصان پہنچایا ھے جسکا تدارک اب آنے والے وقتوں میں عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ آئین میں اس خطے کے بہتری کی خاطر مزید رعایتیں حاصل کریں۔ چونکہ پچیسویں آئینی ترمیم کو عملی جامہ پہنانا اور اس میں کئے گئے وعدوں کا ایفاء حکومت وقت کی زمہ داری ہے جس میں ابتک موجودہ حکومت ناکام نظر آرہی ھے مگر ان وقتی ناکامیوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انضمام کا عمل غلط ہوا ھے جیسا کہ کچھ لوگ اپنی منفی سیاست کو ترویج دینے کیلئے ایسا تآثر دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ انضمام کا عمل اب باقاعدہ طور پر آئین کا حصہ ھے اس تمام پراسس کو اس خطے کے پچانوے فیصد عوام کی تائید حاصل تھی اور اب بھی ھے۔

 اب  جو مشکلات ان علاقوں میں ہیں یہ انضمام کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ ،ایف سی آر، کے اس طویل المیعاد لاقانونیت کے برکات ہیں جو اب بھی اس خطے کے مستقبل سے چمٹنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ،بدامنی ،  لاقانونیت ، بی روزگاری ،غربت ، تعلیم ،صحت، حکومتی اداروں کا عدم استحکام، اور حکومتی عملداری کی کمزوری یہ سب کچھ اس دور کے برکات و ثمرات ہیں جب یہاں پر ایف سی آر، کا راج تھا پولٹیکل ایجنٹ کی بادشاہی تھی اور مراعات یافتہ طبقے کو پرمٹ ،بھوت بنگلہ سکولوں ،ہسپتالوں، اور لیویز کی اسپیشل سپاہیوں کی تنخواہوں کی مد میں لاکھوں روپے ماہانہ وظائف ملتے تھے اسوقت اس خطے کا سارا سماجی ڈھانچہ برباد ہوکے بھی ٹھیک تھا کیونکہ کچھ اس میں خوش تھے مگر اب جب رفتہ رفتہ لاقانونیت کا خاتمہ ہورہا ھے صوبہ سے مستقل طور پر ملکی ادارے آرہے ہیں پولیس تھانے اور چوکیاں بن رہی ہیں عدالت کا محکمہ آیا ھے اس علاقے کی ترقی کا پہیہ گھومنے والا ھے تو اچانک سب کچھ خراب پڑا ہیں کہ رٹ لگائی جارہی ہیں! ارے بھائی سب کچھ آج خراب نہیں ہوا ھے یہ بہتر سالوں سے خراب پڑا تھا مگر آپ کو نظر نہیں آرہا تھا امید کا دامن تھامے رکھیں اس خطے کے محرومیوں کیلئے آواز اٹھائیں آٹھ دھائیوں کی مشکلات ان شاءاللہ ضرور ختم ہونگی مگر ہم نے اب آگے بڑھنا ھے انضمام کی شکل میں جو تاریخی عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچا ھے اس کو مزید دیرپا بنانا ہیں مایوسیاں پھیلانے والے اس خطے کے خیر خواہ نہیں کیونکہ مؤمن کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ نہ کوئی رسم رواج ہم سے چھین سکتا ہیں نہ ہی ہمارا جرگہ سسٹم کیونکہ سابقہ فاٹا کے علاؤہ سارے پختونخوا  میں ہزاروں سال سے پختون آباد ہیں ہم قبائل کوئی علیحدہ مخلوق نہیں ھے کیونکہ تمام پختون قبائل ہیں مگر ذرہ بندوبستی علاقوں اور اپنے ماضی کی پسماندگی کا تجزیہ حقیقت کی نظر سےکریں سب کچھ معلوم ہوجائگا ہم قوم میں کسی قسم کی تفریق کے روادار نہیں ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب ہمارا مستقبل پختونخوا کے ساتھ جوڑا ھے کوئی مشر ہو سیاسی ہو غیر سیاسی ہو مذہبی جماعت کا ہو یا جوان طبقہ ہو ہر ایکپر اس تباہ وبرباد دھرتی کا حق بنتا ھے کہ ہم اپنی محرومیوں اور پسماندگی کے خاتمے کیلئے خود مؤثر آواز اٹھائیں اور ماضی کے دھرتی ماں کی قرضوں کو چکانے کا حق ادا کریں۔۔۔۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.