حضرت عمر بن العزیز ؒ اسلامی تاریخ کا روشن باب۔ مجاہد خان ترنگزئی

0

خیر التا بعین حضرت عمر بن العزیز ؒ اسلا می تاریخ کے مایہ ناز خلیفہ،مسلمانوں کے بے نظیر عادل حاکم اور خدا ترس حکمران تھے۔وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں،جن کی خلافت نے خلافت راشدہ کا نمونہ پیش کیا،اور جن کے عدل وانصاف کی نظیر بعدکے زمانوں میں نہیں ملتی۔ ان کا نام اور کردار ان شاء اللہ تا قیامت بلنداور روشن رہے گا۔ ان کی محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور ان کا ذکر خیر ہمارے لیئے رحمتوں، سعادتوں،برکتوں اور فلاح کا باعث ہے۔اسی لیئے امام احمد بن حنبل ؒفرماتے تھے کہ جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھوجس کے دل میں عمر بن عبد العزیز ؒسے محبت کا جذبہ موجود ہو اور ساتھ ساتھ وہ شخص عمر بن العزیز ؒکی اچھا ئیاں اور خوبیاں بیان کرتا ہوتو ایسے شخص کے بارے میں یقین کرلو کہ اس کا انجام خیر وبرکت والاہوگا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ دنوں شام کے مقبوضہ شہر ادلب میں واقع عظیم اُموی خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ اور ان کی اہلیہ محترم فاطمہ بنت عبدالملک کی قبروں کو کھود کر ان کے اجسام کی بے حُرمتی کی ہے۔واقع کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں غم وغصہ کی لہر دوڑگئی ہے۔سوشل میڈیا صارفین اور دینی رہنماؤں نے انسانیت سوز واقعے کی شدید مذ مت کرتے ہوئے عالمی اداروں سے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا کے ساتھ عالم اسلام کو بھی کورونا وباء کی تباہ کاریوں سے بچنے کا چیلنج درپیش ہے،شام میں اسلامی تاریخ کے روشن باب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒاور ان کی اہلیہ کی قبروں کی بے حُرمتی انتہائی درجے کی غلیظ ذہنیت کا مظاہرہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ہمارے دین اسلام میں قبروں یا مردوں کی بے حُرمتی کی کوئی اجازت نہیں۔قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ ببانے کی اجازت نہیں، مگر قبروں کی حفاظت اور احترام لازم قرار دیا گیا ہے اور کوئی بھی ایسا عمل جس کی وجہ سے قبروں یا مردوں کی بے احترامی ہواس سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر چلنے، بیٹھنے اور انہیں تکیہ بنانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مردے کو تکلیف دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ اسے زندگی میں تکلیف دے رہے ہو ں،میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ناجائز،حرام، ظلم اور ذیادتی ہے جیسا کہ وہ زندہ ہوں اور اس کے ساتھ یہ معاملہ کیا جائے۔ ان دینی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ یہ وحشیانہ فعل وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کادین اسلام اور انسانیت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے شر سے نہ زندہ محفوظ ہیں اور نہ ہی تیرہ صدیاں قبل دنیا سے رخصت ہونے والے نیک سیرت اور تاریخ کے روشن کردار محفوظ ہیں۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ بنواُمیہ کے شاھی خاندان کے فرد تھے اور خلیفہ وقت عبدالملک بن مردان کا بھتیجا ہونے کے ساتھ 87ہجری سے ایک عرصہ تک مدینہ منورہ کے گورنربھی رہے۔اسی زمانے میں حضرت انسؓ بن مالک ؓ عراق سے مدینہ منورہ تشریف لائے،انہوں نے عمر بن عبدالعزیز ؒ کو نماز ادا کرتے دیکھا تو انہیں عمر بن عبدالعزیز کی کیفیت اتنی پسند آئی کہ حضرت انسؓ نے لوگوں سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز آنحضرت ﷺ کی نماز سے اتنی مشابہت رکھتی ہو جتنی کہ تمہارے اس امام کی۔ ایک جلیل القدر صحابی اور رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص کی جانب سے یہ بہت بڑی شہادت ہے۔
اس دوران ان کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کایہ عالم تھا کہ تاریخی روایات کے مطابق دمشق سے مدینہ منورہ کا سفر کرتے ہوئے ان کا ذاتی سامان سو اُونٹوں پر لد کر جاتا تھا۔ وہ اپنی خوش پوشاکی میں اپنے تمام معاصرین میں ممتاز تھے۔ خیبر کا معروف باغ”فدک“ بھی ان کے ذاتی تصرف میں تھا جس کا تقاضہ دختر رسول سیدہ فاطمہؓ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کیا تھا، لیکن حضرت صدیق اکبر ؓنے اسے بیت المال کی ملکیت قراد دیتے ہوئے وراثت کے طور پر منتقل کرنے سے انکار کردیا تھا، ایک دن ایک دوست نے اپنا خواب سنا دیا کہ جناب رسول ﷺ تشریف فرما ہیں،ان کے دائیں بائیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بیٹھے ہیں جبکہ سامنے عمر بن عبدالعزیز ؒ ہیں جنہیں مخاطب ہوکر رسول اللہ فرمارہے ہیں کہ: ”اگر تمہیں حکومت ملی تو اِن دونوں کی طرح حکومت کرنا“۔
چنانچہ جب بعدمیں انہیں خلافت کے منصب کے لیئے چنا گیا اور لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو انہیں رسول اللہ ﷺکا حکم یاد آیا اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کا دوران کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔عمر بن عبد العزیز ؒ نے عمر ثانی بننے کا فیصلہ کرلیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ عزم مضبوط ہوں تو سہولت کی زندگی ترک کرکے فقروفاقہ کی راہ اختیار کرنا مشکل نہیں ہے۔سب سے پہلے ”فدک“باغ بیت المال کو واپس کردیا اور پھر اپنی اہلیہ اور گھر کے دیگر سامان یہ کہہ کرکہ یہ بیت المال کے مال سے بنے ہیں،بیت المال کے خزانہ میں جمع کرادئیے اور پھر شاھی خاندان کا اجلاس بلواکر اعلان کیا کہ میں نے اپنا باغ اور اہلیہ کے زیور اُترادئیے ہیں اور اب تمہارے پاس بیت المال کی جو چیز بھی ہوں،دو ہفتے کے اندر وہ واپس کردے ورنہ میں کوئی اور راستہ اختیار کروں گا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دو ہفتے کے اندر بیت المال کو اس کے اثاثے اور رقوم واپس مل چکی تھیں اور اُمت مسلمہ ایک بار پھر خلافت راشدہ کی برکات سے مستفید ہورہی تھی۔
پھر ایک وقت خلیفہ پر ایسا بھی آیا کہ ایک روز گھر آئے،اہلیہ سے پوچھا کہ اگر ایک درہم کہی رکھا ہوا ہو تو مجھے دے دو، راستے میں ایک دوکان پر انگور دیکھ کر کھانے کو جی چاہا،لیکن جیب میں پیسے نہیں تھے۔ اہلیہ نے جواب دیا کہ جب آپ کے پاس نہیں ہیں تو میرے پاس کہاں سے آئیں گے؟۔ناز ونعم میں پلے ہوئے شہزادے پر یہ وقت بھی آیا کہ ایک دفعہ بیماری کی حالت میں برادرنسبتی بیمار پرسی کے لیئے آئے، بہنوئی کی حالت دیکھ کر بہن سے جھگڑ پڑے کہ خدا کی بندی امیر المومنین کالباس اس قدر میلا ہوچکا ہے، اُترواکر کیوں نہیں دیا؟ اس پر ملکہ نے جواب دیا ”بھائی امیر المومنین کے پاس دوسرا جوڑا نہیں کہ انہیں وہ پہنا کر ان کے جسم کا یہ لباس دھوسکوں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی اس مشقت وقناعت کا صلہ اُمت کو یہ ملا کہ ہر گھر میں خوشحالی اور برکت کے چشمے پھوٹ پڑے۔اسی دور کے بارے میں مؤزخین لکھتے ہیں کہ مالدار لوگ اپنی زکواۃ ادا کرنے کے لیے مستحقین تلاش کرتے تھے اور پوری سوسائٹی میں انہیں کوئی مستحق نہیں ملتا تھا۔اور امیر المومنین کے عدل وانصاف کا ایسا دور تھا کہ انسان تو کیا جانور بھی محفوظ تھے۔ دمشق سے سینکڑوں میل دور ایک چرواہا بکریاں چرارہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے بکری اُٹھا کرلے گیا۔ چرواہے نے بلند آواز سے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز ؒکا انتقال ہوگیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمیں کیسے پتہ چلا؟ جواب دیا کہ بھیڑیے کی اس حرکت سے معلوم ہوا، اس لیے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؒجیسا عادل حکمران سروں پر ہوا ور بھیڑیا بکری لے جائے۔اس کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ بات درست تھی اور اسی رات عمر بن عبدالعزیز ؒ کا انتقال ہوچکا تھا۔ انتقال کا وقت قریب ہوا تو آپ کی زبان پر سورۃ القصص آیت نمبر 83جاری تھی جس کا ترجمہ یہ ہے ”یہ عالم آخرت ہم اُن ہی لوگوں کے لیئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد، اور نیک نتیجہ متقی لوگوں کو ملتا ہے۔ پھر آپ دنیا سے وصال فرماگئے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی تاریخ کے اس اس روشن باب امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز ؒ اور اس کے اہلیہ کے قبروں کی بے حُرمتی کرنے پر حکومتی او رسفارتی سطح پر مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ ہے۔ گزشتہ روز وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکریٹری مولاناحنیف جالندھری جا نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اس حوالے سے ملاقات کی ہے اور وزیر خارجہ کی جانب سے عالمی فورم پر آواز اُٹھانے اور ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی کرائی گئی ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.