قربانی کا سبق (مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

قربانی سیدنا ابراہیم ؑ خلیل اللہ کی اس عظیم سنت کی یا دہے جب اللہ رب العزت نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی عزیز ترین متاع، لخت جگر اور نور نظر حضرت اسماعیل ؑ کو میرے نام پر ذبح کردو۔ پھر دونوں باپ بیٹااللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے سامنے جھک گئے اور چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ بوڑھے باپ نے نوجوان بیٹے کو زمین پر لٹارکھا ہے۔ بیٹا خوش ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح ہورہا ہوں اور باپ بھی راضی ہے کہ اپنے بڑھاپے کی سب سے قیمتی دولت کوخداوند کے بار گاہ میں پیش کررہا ہوں۔ باپ چُھری چلانے والاہوتا ہے کہ غیب سے ندا آئی، اے ابراہیم ؑ! آپ نے خواب پورا کردیا، اب چھری بیٹے کی گردن سے اُ ٹھالو،آپ ؑ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس رسم عاشقی اور سنت کو زندہ و تابندہ کردیا کروڑوں مسلمان ہر سال اس ”ذبح عظیم“ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔

قربانی کے اس عظیم سنت میں ہمارے لیئے چند اہم اسباق پنہاں ہیں جسے ہمیں یاد رکھنا چاہئیے۔ پہلی سبق یہ ہے کہ قربانی حضرت ابراہیم ؑ کے جس عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے، اسکا دل ودماغ میں استحضار کیا جائے اور اس حقیقت کو سوچا جائے کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اوراس کی رضا جوئی کے لیئے تھا۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ ہم میں یہ جذبہ ہونا چاہئیے کہ اگر آج بیٹے ہی کو ذبح کرنے کا حکم باقی رہتا تو ہم بخوشی اس کی تعمیل کرتے۔ ہر والد کا جذبہ یہ ہوکہ میں ضرور اپنے لخت جگر کو قربان کرتا اور ہر بیٹے کا جذبہ بھی یہ ہوکہ میں قربان ہونے کیلئے بدل وجان راضی ہوتا۔

تیسری سبق قربانی میں یہ ہے کہ ہم اپنی محبوب اور قیمتی چیز کو اللہ کے راہ میں قربانی سے دریغ نہ کریں اور بخوشی اس کو قربان کردیں۔

چوتھی سبق اور قربانی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ جانور ذبح کرکے قربانی دینے کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفساینہ کو ایک ایک کرکے ذبح کر دیا جائے۔

پانچویں سبق قربانی میں یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے صرف ایک جانور کی قربانی نہیں کی، بلکہ پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارا، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا،فوراً اس کی تعمیل کی۔جان ومال،ماں باپ، وطن ومکان، لخت جگر الغرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان فرمایا۔ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا کہ دین اسلام کا جو بھی تقاضا اور جو بھی حکم سامنے آئے اس پر عمل کر گزریں گے۔

چھٹی سبق قربانی سے ہمیں یہ ملتی ہے کہ اس موقع پر غرباء و مساکین کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ ایسے عاجزومسکین بندے آج بھی موجود ہیں جو گوشت کھانے کو سال بھر ترستے ہیں اور یہی ایک موقع ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کوبھی گوشت کھانے کی تمناہوتی ہے۔ اگر گوشت سے ہم صرف اپنے فریزرز بھر لے اور اسٹور کرلیں تو یہ انتہائی بے مروتی ہوگی۔ اسلیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے بنائے جائے،ایک حصہ اپنے لیئے،دوسرا رشتہ داروں کیلئے ااور تیسرا غریب غرباء کے لئے الگ کرلیا جائے۔

ساتویں اور آخری سبق قربانی سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ جو بھی عمل کرو،اسمیں ریاء ونمود سے خود کو بچائے رکھو۔ کیونکہ عمل ریاء سے برباد ہوجاتی ہے اور اخلاص سے ہمیشہ کیلئے قائم رہتی ہے اور اللہ رب العزت کے بار گاہ میں شرف قبولیت بھی حاصل کر لیتی ہے۔ اس وجہ سے اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ”اِن جانوروں کے گوشت وخون اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ تمہاری پر ہیزگاری واخلاص پہنچتی ہے“۔ تو ہر عمل میں اخلاص ہونا چاہیئے۔ اللہ رب العزت ہمیں قربانی کے مندرجہ بالااسباق پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.