تحریک آزادی میں علماء ہزارہ کا کردار (قسط نمبر1) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

آزادی وطن وہ عظیم نعمت ہے جس کے لئے ہزاروں انسانوں نے تن من دھن کی قربانیاں پیش کی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے میں آزادی کی یہ عظیم الشان نعمت ہمیں ملی ہے،آزادی وطن کے لئے پورے ملک میں علماء کرام اور عوام الناس نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں،ہزارہ کے علماء کرام بھی اس جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ یہاں کے علماء نے تحریک آزادیئ وطن کی ہرجدوجہد میں میں قائدانہ کردار اداکیاہے،آج میں قارئین کے سامنے ان نڈربیباک اور مجاہد علماء کرام کا مختصر تذکرہ کرناضروری سمجھتا ہوں جن کی قربانیوں کی بدولت آج ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں،یہ ہمارے محسن ہیں جنہوں نے ہماری آزادی کے لئے اپنے راحت وسکون کوقربان کرکے ہمیں غلامی کی زنجیروں سے نکالا،ان لوگوں کو پہچاننا،ان کی قربانیوں کو نئی نسل تک پہنچانااور ان کے حق میں دعائے خیر کرنا ہمارافرض بنتا ہے(۱)حضرت مولانا قمرعلی شہید ؒ: مولانا قمر علی موضع گھنول علاقہ کاغان کے رہنے والے تھے۔اعوان قوم کے سردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ فراغت کے بعد آپ نے سیاسی زندگی کاآغاز علی برادران اور مولانا ابو الکلام کی معیت میں شروع کیا۔ آپ انگریز کو تشدد سے نکلالنے والوں کے حامی تھے۔ مذہبی عالم اور تحریک آزادی کے مبلغ کی حیثیت سے تقریریں کرتے تھے، اور انگریز کے طرفدار علماء اور پیروں کے فتوؤں اور تقریروں کا توڑ کرنے میں سرگرم رہتے۔ مولانا قمر علی صاحب نے تحریک آزادی کو جہاد قرار دیا تھا۔ ہزارہ کے کونے کونے میں تحریک آزادی کو کامیاب طریقہ پر چلایا، 1931 میں آپ کو گرفتار کرکے ایبٹ آباد جیل میں محبوس کر دیاگیا،اور کوڑوں کی سزا بھی دی گئی۔ آپ کے ایک رفیق کار میاں عبدالقیوم بفوی بھی انگریز سرکار کے تشدد کا نشانہ بنے۔ آخری تقریر آپ نے خاکی کے مقام پر کی،انگریز گورنمنٹ نے وارنٹ جاری کئے،لیکن مولانا قمر علی صاحب انگریز گورنمنٹ کے حدود سے نکل کر مجاہدین چمر قند کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ 1935ء میں جب مجاہدین چمر قند و حاجی تر نگزئی مولانا فضل واحد (م 1937ء) نے آزاد قبائل کے ساتھ مل کر انگریزوں پر حملہ کیا، تو مولانا قمر علی صاحب بھی اس معرکہ میں شریک تھے،اور لڑائی میں شدید زخمی ہوئے۔ مجاہدین آپ کو اٹھا کر جلال آباد (افغانستان) لے گئے۔ زخم شدید تھے، جانبر نہ ہو سکے، انجام کار اپنی آرزو کے مطابق آزاد ملک میں شہید ہو کر مدفون ہوئے۔
مولانامحمدعرفان ہزاروی ؒ:ابوالمعارف مولانا محمد عرفان تنولی قوم سے تعلق رکھتے تھے،اور موضع پکھوال،ضلع مانسہرہ کے رہنے والے تھے، درس گاہِ مینڈوسے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔تحریک آزادی کی پاداش میں انگریز حکومت نے آپ کو گرفتارکیا،2تا5دسمبر 1927ء کو پشاور میں جمعیۃ علماء ہندکا آٹھواں اجلاس رائیس المحدثین حضرت مولانا محمدانورشاہ کشمیری ؒکی زیر صدارت منعقد ہوا۔اس اجلاس میں مولانامحمدعرفان صاحب ؒکی شرکت کی اجازت کوجیل سے شرکت کی اجازت دے دی گئی،آپ شریک ہوئے مگر اس کے ساتھ ہی مولانا اسحاق مانسہروی ؒکوحکومت کی طرف سے اجلاس میں اجازت نہیں دی گئی جس پراجلاس میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی جلاوطنی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔: تحریک خلافت میں مولانا محمد اسحاق مانسہروی ؒ کے ساتھ شامل رہے ان کے ساتھ ہی گرفتارہوئے رہائی کے بعد بمبئی چلے گئے اور مولانا محمد علی جوہر اورمولانا شوکت علی کے رفیق کار رہے اور آخردم تک ان کا ساتھ دیا کئی دفعہ جیل گئے،بہت بڑے عالم اور فلسفی تھے،بہترین معلم تھے۔تقریر اردوٹکسالی زبان،فصیح وبلیغ اور لچھے دار ہوتی تھی۔16/مارچ 1939ء کو صبح دس بجے حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال فرمایا۔
قاری میر عبداللہ:امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے ان سے مل کر کابل پرووژنل گورنمنٹ آنڈیا(عارضی حکومت ہندوستان)حکومت موقتہ بنائی پشاور میں مولانا عبدالرحیم پوپلزئی اس حکومت موقتہ ہند کے افسر اعلیٰ تھے ان کے ماتحت سرائے صالح (ہری پور)میں قاری میر عبداللہ مرحوم کام کرتے تھے،مولوی فضل ربی جو پکھلی کے مشہورانقلاب پسند عالم تھے،اکثر قاری صاحب مرحوم کے پاس آتے جاتے تھے قاری میر عبداللہ کا عہدہ حکومت موقتہ ہندمقیم کابل کی طرف سے میرآلائی تھا جس کا متراد ف لفظ انگریزی زبان میں کرنل ہے۔کابل سے جو خطوط ہندوستان کے لیڈروں میں تقسیم کے لئے آتے تھے وہ میر آلائی قاری میرعبداللہ ساکن سرائے صالح کے انتظام سے نشر ہوتے تھے۔ایک دفعہ جب مولانا غلام ربانی لودھی اسلامیہ کالج پشاور سے گرمی کی تعطیلات پر سرائے صالح آئے ہوئے تھے،تو انہوں نے کابل سے آئی ہوئی چٹھی کی ساٹھ قلمی نقول تیار کیں،جنھیں میرآلائی قاری میر عبداللہ صاحب ؒ نے سموگڑھی ضلع اٹک کے ایک حافظ صاحب کو دیکر اندرونِ ہند بھجوایا…..مولوی محمدعثمان صاحب گورنمنٹ کنٹریکٹر ساکن ہری پور کے بیان کے مطابق حضرت مولانا احمدعلی ہوری ؒایک شخص کو (انگریزی سوٹ بوٹ میں ملبوس)سرائے صالح بھیجتے رہتے تھے ریلوئے اسٹیشن پر وہ شخص اکیلااُتر کر قاری میر عبداللہ سے ملاکرتا اور مولوی عثمان صاحب ؒ اسے اسٹیشن ہی سے واپس کردیا کرتا،وہ لاہور سے مجاہدین کے لئے روپیہ اور نامہ وپیام لایاکرتاتھا،اس طرح سے لاکھوں روپیہ یہاں پہنچا،جوکمال امانت اوردیانت سے آگے پہنچتا رہا۔سرائے صالح سے قاری میرعبداللہؒ بمعہ ایک نوجوان پٹواری گوہر سلطان مرحوم کو ساتھ لے کر براہِ سرائے نعمت خان اور اوگی کے راستے چمرقند کے جایا کرتے تھے روپیہ گوہر سلطان کے پاس ہوتا تھا،جس کو برقعہ اوڑھاکر قاری صاحب ساتھ لے جایا کرتے تھے،راستہ میں وہ استفسار پر کہہ دیتے کہ یہ برقعہ پوش ان کی بیوی ہے،اُن کے ساتھ بقول مولانا غلام ربانی صاحب لودھی ؒ،محمداکبرخان مرحوم عرف ”اکبرا“ساکن شاہ محمد بھی مجاہدین کے پاس جایاکرتے تھے۔
حافظ احمددین:حافظ احمدگل بن محمدگل مانگل ایبٹ آباد کے رہنے والے تھے 1909ء میں زیارت بیت اللہ کے لئے گئے مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ قیام کیا اور وہاں کے اہل علم سے استفادہ کیا واپس آنے کے بعد حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے منسلک ہوگئے،ریشمی خطوط کی ترسیل اور اندرون ملک کی مراسلت ایک عرصہ تک ان سے متعلق رہی،جب اس تحریک کا رازافشاء ہوگیا تو روپوش ہوکر قبائلی علاقہ میں کچھ عرصہ قیام پذیر رہے،اس کے بعد واپس آگئے اور تمام عمر گمنامی میں بسر کرکے 1958ء رحلت فرمائی
حضرت مولانا گل حسنؒ :مولانا گل حسن 1291ھ کو جناب محمدسلیمان کے گھر بفہ ضلع مانسہرہ میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر مولانا احمد سکندرپوری کے ہاں تشریف لے گئے اور ان سے چند کتابیؓ پڑھیں۔اس کے بعد غورغشتی میں مولانا قطب الدین سے استفادہ کیا اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند چلے گئے 1311ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1315ھ میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب ؒ سے دورہ حدیث پڑھ کر سندفراغت حاصل کی۔ تحریک خلافت میں علاقہ پکھل کے صدرتھے۔مولانا محمداسحاق مانسہروی ؒ کے ساتھ مل کر نمایاں کام کیا۔حضرت شیخ الہند کے رفیق کار مولانا فضل ربی صاحب (جو آپ کے پھوپھی زاد بھائی تھے)کی رشتہ داری اور آپ کی نمایاں خدمات کی وجہ سے آپ پر مختلف قسم کے الزمات لگائے گئے اور تین سال قید کی سزاسنائی گئی۔مگر ابھی صرف تین ماہ جیل میں گزارے تھے کہ رہائی مل گئی،پھر درس وتدریس اور وعظ وتبلیغ کاسلسلہ شروع کیا۔زریعہ معاش زمینداری تھا 18 سال تک خود زمینداری کے ساتھ دینی خدمات انجام دیں۔12 مارچ 1964ء کو بخار کی تکلیف سے ہری پور ہسپتال میں انتقال ہوا،13 مارچ کو بفہ میں آپ کی نماز جنازہ اداکردی گئی اور وہیں دفن ہوئے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.