قدرت کے سب مناظر ہی عجائبات کے مظہر ہیں قدرتی مناظر انسان کو خدائے وحدہ لاشریک کے عظمت پر قائل کرنے کی ترغیب دیتی ہے لیکن ان میں کچھ قدرتی مناظر اتنی(اتنے)حسین ہوتے ہیں جن کے خوبصورتی کے داد اہل کفر بھی دیئے جاتے ہیں۔ گذشتہ روز دفتر سے گھر پہنچتے ہی طوفانی بارش شروع ہوگئی، بارش تھوڑی ہی دیر برسی لیکن اتنی شدت کی تھی کہ پانی کے کثرت کے باعث پانی کے ریلے بہنا شروع ہوگئے۔
بارش کی شدت میں تھوڑی سی کمی نظر آئی تو ہم بھی بھیگے موسم کا لطف اٹھانے گھر سے کھلے فضا کے طرف نکلے۔ جیسے جیسے بارش میں کمی آتی گئی آسمان کے کنارے روشن ہونا شروع ہوگئے اس دوران آسمان کے مشرقی اور جنوبی کناروں پر بڑا دل آویز منظر دھنک یعنی قوس قزاح نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں فوری طور پر اپنے کیمرے کی آنکھ میں اس منظر کو محفوظ کرنے لگا۔ اردو میں اس منظر کو دھنک اور قوس قزاح کا نام سے یاد کیاجاتا ہے جبکہ مقامی پشتو زبان میں ہم اسے سرہ کاسہ شنہ کاسہ کہتے ہیں۔
دھنک کیا ہے آئیے آپ کو اس بہترین قدرتی منظر سے متعارف کراتا ہوں۔اردو لغات اور ویکیپڈیا کے مطابق دھنک یا قوس قزح (Rainbow) فطرت کا ایک مظہر ہے۔ جس میں بارش کے بعد فضا میں موجود پانی کے قطرے ایک منشور کیطرح کام کرتے ہیں۔ جب ان میں سے سورج کی شعائیں گزرتی ہیں اور یہ گزرنے کے بعد سات رنگوں میں بدل جاتی ہیں اور یوں آسمان کے اوپر ایک سترنگی کمان یا دھنک بن جاتی ہے۔ اسے قوس و قزح بھی کہتے ہیں۔ یہ نہایت خوشگوار منظر ہوتا ہے۔ دھنک یا قوس قزح میں کل سات رنگ شامل ہوتے ہیں ان میں سرخ (Red)، مالٹائی (Orange)، پیلا (Yellow)، سبز (Green)، نیلا (Blue)، جامنئی (Indigo) اور گہرا نیلا (Violet) شامل ہیں۔آسمانی کی افقی کناروں پر دھنک اس وقت نظر آتی ہے جب بارش کے قطرے فضا میں ہوں اور سورج کی روشنی دیکھنے والے کے پیچھے سے چھوٹے زاویے سے آ رہی ہوں۔ زیادہ خوبصورت دھنک اس وقت بنتی ہے جب آدھے آسمان پر بادل ہوں اور آدھا آسمان صاف ہو اور دیکھنے والے کے سر پر بھی آسمان صاف ہو۔ دھنک کے آبشاروں اور فواروں کے گرد بننے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔شعاع کا قطرے میں داخل ہونا، مڑنا، منعکس ہونا، پھر مڑنا اور سات رنگوں میں بٹنا دل آویز اور تعجب خیز منظر ہوتا ہے۔
دھنک اس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی کی شعاع پانی کے ایک قطرے میں داخل ہوتی ہے یہ قطرہ مثلثی منشور کی طرح کام کرتا ہے۔ پانی کے قطرے میں داخل ہونے کے بعد یہ شعاع مڑتی ہے قطرے کے آخر میں پہنچ کر یہ شعاع منعکس ہوتی ہے اور واپس مڑتی ہے قطرے سے باہر نکلتے ہوئے یو دوبارا مڑتی ہے اور سات رنگوں ميں تبدیل ہو جاتی ہے۔دھنک آسمان پر عملی طور پر موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک نظری مظہر ہے۔ جس کا مقام دیکھنے والے کی جگہ پر منحصر ہوتا ہے۔ تمام قطرے سورج کی شعاعوں کو موڑتے اور منعکس کرتے ہیں۔
لیکن چند قطروں کی روشنی ہی دیکھنے والے تک پہنچتی ہے۔دھنک یا قوس قزاح کے بارے میں سائنس کی کتب لکھتے ہیں کہ ایرانی ماہر فلکیات قطب الدین شیرازی یا اس کا شاگرد کمال الدین الفراضی پہلے لوگ تھے جنھوں نے دھنک کے مظہر کو صحیح صحیح بیان کیا۔ نیوٹن نے پہلی بار یہ ثابت کیا کہ سفید روشنی دھنک کے سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔تاریخ سائنس اور مفکرین اس کی جو بھی تشریح کریں جو بھی پس منظر اور حقیقت بیان کر وہ اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت لیکن اس تحریر کے ذریعے آپ کی توجہ اس جاذب نظر قدرتی منظر کے طرف مرکوز کرنا ہے سو آمدم برسر مطلب و مقصد آج کل ہونے والے بارشوں کے بعد اس منظر سے خوب لطف اٹھائیں۔
ڈاکٹر احمد ندیم رفیع صاحب اپنے محبوب کو مخاطب کرنے لیے حسن کی انتہا کی تشبیہ دھنک سے دیتے ہوئے فرماتے ہیں
دھنک کے رنگ فضا میں سجا رہی ہے ہوا کہ تیرا عکس اُفق پر بنا رہی ہے ہوا