قیام پاکستان سے لیکر اب تک گزشتہ سالوں میں بہت سی حکومتیں آئیں اور متعدد وزرائے اعظم نے عوامی فلاح و بہبود کے دعوے و وعدے بھی کئے لیکن ان میں سے کم ہی ایفاء ہوسکے۔وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے پہلے روز سے ہی مستحق، نادار اور کمزور طبقات کو سہولیات کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کر رکھا ہے کہ نیا پاکستان ایک فلاحی ریاست کا قیام ہوگا، نچلے طبقے کو اٹھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے، امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پر خرچ کئے جائیں گے۔ ملک بھر میں لنگر خانے ان علاقوں میں کھولے گئے جہاں محنت کش و مزدور طبقہ بیروزگاری اور بھوک کا شکار ہے۔ چونکہ ریاست مدینہؐ میں کمزور طبقہ کی ذمہ داری ریاست لیتی ہے اور یہ فلاحی ریاست ہوتی ہے، ریاست مدینہ قرآن و سنت کی عملی تصویر تھی اور وزیر اعظم ریاست مدینہ کے تصور کی عملی تعبیر کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔آج تک کسی حکمران نے بھی ان مسافروں کا بھی نہیں سوچا کہ وہ بے یارومددگار اپنے گھر سے دورکسی دوسرے اجنبی شہر میں جو کسی ہوٹل میں قیام کی سکت نہ رکھتے ہوں اوراگر کسی مشکل سے دوچار ہو جائے تو وہ رات کہاں ٹھہرے گے، اگر بھوکے ہوں تو اپنا پیٹ کیسے بھریں گے؟۔بلاشبہ مفلسوں اور غریب مسافروں کے سرکاری قیام گاہیں کسی نعمت سے کم نہیں۔ عارضی پناہ گاہیں بلاشبہ ان کی انسان دوستی کا مظہر ہے۔ بے گھر افراد کیلئے بالخصوص جو راتیں فٹ پاتھ پر گزارتے ہیں شیلٹر ہومز کا منصوبہ پورے ملک میں بنایا گیا اور ان پناہ گاہوں میں سے ہر ایک میں 300 افراد کی گنجائش رکھی گئی ہے جنہیں دو وقت کا کھانا بھی دیا جا رہا ہے اور یہ شیلٹر ہومز مخیر حضرات کے تعاون سے چلائے جا رہے ہیں۔ اسے بلاشبہ ایک فلاحی ریاست کی سوچ لائق تحسین اور قابل تقلید انسان دوست قوم قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت کرپشن اور سیاسی مافیاکے خاتمے کی سوچ نے نئی نسل کو ایک نیاپاکستان دیا۔ پاکستان کی معیشت گزشتہ حکومتوں نے پہلے ہی تباہ کرکے رکھ دی تھی ملک پر عالمی قرضوں کی بھرمار کرکے قرضوں کوبے دردری سے اپنے اوپر استعمال کیا گیا اور لندن اور امریکا سمیت دنیا بھر میں جائیدادیں بنائی گئیں۔یقینی طور پر حکومت کو بہت سے درپیش چیلنجز کا سامناہے مگر معاشی بہتری کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جس انداز میں دلیرانہ فیصلے کیئے جارہے ہیں اس نے ناقدین کے منہ بند کردیئے ہیں۔ماضی میں بھی پاکستان کی مختلف حکومتوں کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے بیت المال اور زکوٰۃجیسے منصوبے سمیت لا تعداد پروگرام شروع کیے جاتے رہیں جن میں سے بیشتر ناکام ہوئے گویاغربت کو مٹانے کے لیے شروع کیے گئے پروگرام مٹ گئے مگر غربت نہیں مٹ سکی۔ اس وقت غربت میں کمی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں جا رہے ہیں۔احساس پروگرام ایک ایسی پالیسی ہے جس میں تبدیلی لاکر اسے بنیادی حقوق کا درجہ دیا جا رہا ہے جس کے تحت عوام کو کھانا اور رہائش مہیا کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت دگر گوں اور عدم استحکام سے دو چار معاشی حالات کے باوجود ملک میں مثبت تبدیلیوں کی کوشش کر رہی ہے۔
کروڑوں پاکستانیوں کو غربت کے چنگل سے نکال کر ایک مضبوط، محفوظ اور کامیاب ملک و قوم کے لئے نئے پاکستان کا غریب دوست ”پروگرام احساس“ کا مقصد عدم مساوات میں کمی، انسانی وسائل پر سرمایہ کاری اور پسماندہ اضلاع کی ترقی ہے‘ ’احساس‘ کی تخفیف غربت حکمت عملی کے چار بنیادی ستون ہیں اور یہ 115 پالیسی اقدامات پر مشتمل ہے۔ ”احساس“ کے چار بنیادی اجزاء میں طبقہ اشرافیہ کے قبضے کا خاتمہ اور حکومتی نظام کو مساوات کے لئے تیار کرنا، معاشرے کے کمزور طبقات کا تحفظ، انسانی وسائل کی ترقی اور ملازمتوں و روزگار کی فراہمی شامل ہے۔ بالخصوص خواتین کو با اختیار بنانے کے علاوہ ان کی مالیاتی شمولیت کا فروغ اور عوام کی ڈیجیٹل سروسز تک رسائی کے لئے ڈیٹا اور ٹیکنالوجی جیسے 21 ویں صدی کے جدید طریقوں کو بروئے کار لا کر فلاحی ریاست کی تشکیل ہے۔ یہ پروگرام انتہائی غریب افراد، یتیموں، بیواؤوں، بے گھر افراد، معذوروں، بے روزگاروں، غریب کسانوں، نادار مریضوں، محنت کشوں، کم آمدنی والے طالب علموں اور غریب خواتین کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کے لئے بھی ہے۔ دراصل یہ منصوبہ ان علاقوں کے بارے میں ہے جہاں غربت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں 38.8 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح غربت کا شکار ہیں اور 24.4 فیصد کے پاس اپنی بنیادی غذائی اور غیر غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے رقم نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں کئی اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں اور کئی کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ سماجی تحفظ کے دو پروگرام ”کفالت اور تحفظ“ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے نافذ کئے گئے ہیں۔ کفالت پروگرام ”ون وومن، ون بینک اکاؤنٹ پالیسی“ کے ذریعے تقریباً 60 لاکھ خواتین کی مالیاتی و ڈیجیٹل شمولیت کو یقینی بنا رہا ہے۔ تحصیل کی سطح پر 500 ڈیجیٹل مر اکز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں حکومتی ڈیجیٹل وسائل کو غریب خاندانوں کو غربت سے نکالنے کے لئے عوام کی بہبود کے لئے قابل رسائی بنایا گیا۔”تحفظ“ پروگرام کے تحت غریبوں کو کسی صدمے کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کیاجاتا ہے۔ یتیموں، سٹریٹ چلڈرن، موسمی تبدیلی کے ساتھ نقل مکانی کرنے والے افراد، خواجہ سراؤں، بچوں اور جبری مشقت کے متاثرین اور روزمرہ اجرت لینے والے ورکرز کے لئے پروگراموں کی کامیابی کے لئے این جی اوز کے ساتھ شراکت داری کے پراجیکٹ شروع ہیں۔ ہزار وں یتیموں کے لئے ”احساس ہومز“، سمیت کئی بڑے شہروں میں پناہ گاہیں، سود سے پاک قرضوں کے ذریعے غریبوں اور بے زمین کاشتکاروں کے لئے ہاؤسنگ سکیمز متعارف کرائی گئیں ہیں۔ 33 لاکھ لوگوں کے لئے 38 اضلاع میں صحت انصاف کارڈز جاری کئے جاچکے ہیں۔ پاکستان بچوں میں غذائی کمی کے لحاظ سے بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے قد، دماغ اور دیگر تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ اس سے معاشرتی اور مالیاتی مسائل جنم لیتے ہیں اور خاندان اور ممالک بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں میں سٹنٹنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے نیا کمیونٹی اینڈ ہیلتھ و نیوٹریشن اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔
قومی سنٹر فار ہیومن نیوٹریشن کے نام سے ملک میں اپنی طرز کا پہلا ادارہ قائم کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی لانے اور غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے (5 + 1) دیسی مرغیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں رہنے والی غریب آبادی کو بکریاں بھی مہیا کی گئیں تاکہ وہ اپنا روزگار بھی کما سکیں اور ان کی غذائی ضروریات بھی پوری ہو سکیں۔
”حکومت کی غریب دوست پالیسیاں“ ( تحریر: نبیلہ اکبر )
You might also like