امریکہ میں نسلی فسادات تحریر: حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0


|

25مئی کو امریکی شہر مینی سوٹا پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کی موت کے بعد امریکہ بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے،امریکی پولیس افسرنے ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کو پکڑ کر ہتھکڑی لگانے کے بعد گھٹنے کے نیچے دبادیا تھا،جارج فلائیڈ اس پولیس افسر سے سانس رکنے کی شکایت کرتارہااور دس منٹس تک پکار پکار کر کہتا رہا کہ”پلیزمیں سانس نہیں لے پارہا’مجھے قتل مت کرو”مگر اس پولیس افسرکے کان پر جوں تک نہ رینگی اور نتیجہ یہ ہواکہ وہ سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ،اس پر شہرکے سیاہ فام لوگوں میں غم وغصہ کی ایک لہرپیداہوئی اور سیاہ فام لوگوں نے احتجاج شروع کیا ،ابتداء میں یہ احتجاج صرف دوریاستوں منی سوٹااور لوزیانہ میں پیداہواپھر دیکھتے ہی دیکھتے نسلی فسادات کا یہ سلسلہ پورے امریکہ میں پھیل گیا ،واشنگٹن ڈی سی سمیت تمام امریکی ریاستیں اس احتجاج اور نسلی فسادات کی زدمیں آگئیں،احتجاج کے دوران مظاہرین نے سرکاری ونجی املاک کوشدید نقصان پہنچایا ،بے شمار مکانات ،دکانیں ،بینک،اور دیگر عمارتوں کو توڑ پھوڑکرجلادیا ،گاڑیوں اور مارکیٹوں کو نظرآتش کردیاگیا ،بینکوں اوردکانوں کو لوٹاگیا ،کئی پولیس اسٹیشنوں کا جلایاگیا ،پولیس کی گاڑیوں کو بھی جلانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ،پولیس نے بھی کئی مظاہرین پر گاڑیاں چڑھانے اور انہیں بری طرح روندنے کی کوششیں کیں ،امریکی معاشرہ جو سب سے زیادہ مہذب معاشرہ کہلاتاہے ان مظاہروں اور پرتشددکاروائیوں سے اس کے مہذب ہونے کی قلعی بھی پوری طرح کھل کر دنیا کے سامنے آگئی ،جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا مگر اس کے باوجود احتجاج اور جلائو گھیرائو کا یہ سلسلہ رک نہ سکا ، پولیس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کے لئے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سمیت واٹر کیبن کا استعال بھی کیا ،مگر مشتعل مظاہرین کوکنٹرول کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ،مظاہرین اور پولیس کے درمیان کئی جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ،امریکہ میں نسلی فسادات کا یہ کوئی پہلاموقع نہیں ہے امریکہ بلکہ پورے یورپ میں سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان نسلی امتیاز کاخلیج ہمیشہ قائم رہاہے ،جس کی وجہ سے ان دونوں نسلوں میں شدید نفرتیں پائی جاتی ہیں ،جو موقع بہ موقع بڑھک اٹھتی ہیں،حالیہ فسادات کے دوران امریکہ کے کئی شہروں میں کرفیوکانفاذکیاگیا ،ہزاروں لوگوں کوگرفتار کیا گیا مگر اس کے باوجود نسلی فسادات کاراستہ روکا نہیں جاسکااور اب نسلی فسادات کایہ سلسلہ یورپ سمیت پوری دنیا میں پھیل چکاہے ،برطایہ،نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک میں شدید قسم کا احتجاج ہواہے ،امریکہ اور پورپ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہمیشہ غلاموں والاسلوک کیاگیا ہے ،امریکہ میں سیاہ فام افریقیوں کی آمدکا آغاز 1619ء میں ہوا جب افریقی ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کریہاں لایاگیا بعض مورخین کے نذدیک سیاہ فام غلاموں کی آمدکا یہ سلسلہ 1555ء میں شروع ہوا ،جب سیرالیون سے پکڑ ے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام ”گلوں ”کی صورت میں ہالینڈ کی بندرگاہ پر پہنچائے جاتے جہاں بحراوقیانوس کے راستے انہیں امریکہ لایاجاتا اس بناپر اس گھنائونے کاروبار کو TRADEATIANTCSIAVEکانام دیاگیا ،افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والے غلاموں سے لداہوا پہلاجہاز 1619میں ورجینیا میں لنگر اندازہوا اس کے بعد افریقیوں کا شکار ایک قوم کا کھیل بن گیا ،فرعون ،نمرود ،چنگیزاورہلاکوں کے ظلم وستم کی داستانیں زبانِ عام ہیں لیکن امریکی قوم کی ظلم وستم کی داستان ان سے بھی انوکھی تھی جہاں جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوتا توبستی بستیوں کو منہ اندھیرے گھیر کر عورتوں بچوں سمیت تمام لوگوں کو ہانک کر جہاز پر لاد دیاجاتا ،دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قذاق کم سن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر ان وحشی بھیڑیوں کے درمیان ”کثرت اولاد ”کامقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ وجود میں لائی جاسکے ،1898ء تک ایک کروڑ افریقی غلام بناکر امریکہ لائے گئے ،سفر کے دوران تشدد،بیماری اور دم گھٹنے سے 20لاکھ سے زیادہ یہ سیاہ فام موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ ”گڑبڑ”کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو ان کے پیروں میں وزن باندھ کر سمندرمیں پھینک دیاگیا ،زیادہ تر غلام بحراحمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑ کر لائے گئے ان غلاموں میں نصف تعداد نائیجیریا اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی ،اس کے علاوہ سینیگال ،لائیبریا ،کانگو اور گانا کے لوگ بھی پکڑے گئے اچھی صورت والی حبشی بچیاں ان اوباش قذاقوں کو بہت محبوب تھیں،پکڑے جانے والے ان افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعدادمسلمانوں پر مشتمل تھی ،ان غلاموں کی فروخت کے لئے ورجینیا ،شمالی کرولینا،جنوبی کرولینا،اور جارجیامیں منڈیاں قائم کی گئیں ،اُس وقت امریکہ بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13کالونیوں پر مشتمل تھا جنہوں برطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیاتھا ،1776ء میں انہی 13 کالونیوں نے ریاستوں کی صورت اختیار کرلی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی بنیاد پڑگئی ،امریکہ کے پرچم پر 13سرخ وسفید پٹیاں انہی ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں 1625ء میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی1980 افراد پر مشتمل تھی ،عددی اعتبار سے غلام ملکیوں سے زیادہ تھے جنہیں قابوں میں رکھنے کے لئے بدترین ہتھکنڈے اورظلم وبربریت کے نت نئے ضابطے وضع کئے گئے سرکشی کی فوری سزاپھانسی تھی اور یہ سزااس شدت وکثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کے لئے اس کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا ،جلادی کا کام مجرم کے خونی رشتہ دار سے لیاجاتاتھا ،یعنی بھائی اپنے بھائی کو یاباپ اپنے بیٹے کو پھندالگاتا ،پھانسی کے علاوہ بورے میں بندکرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مارڈالنا،خنجرپھونک کر ہلاک کرنا ،زندہ جلانا،غلاموں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا ،پائوں میں وزن باندھ کر دریابردکردینا بھی اس دورکی ایسی سزائیں تھیں جن کے ذریعے سیاہ فام لوگوں کوہلاک کیاجاتاتھا ،اس طرح بدترین تشددکے ذریعے سیاہ فام لوگوں کی تعداد کوکم سے کم ترکرنے کے لئے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے گئے، آج امریکہ میں سیاہ فام لوگ پندرہ فیصدکی تعداد میں آباد ہیں ،امریکہ ہی نہیں بلکہ یورپ میں سفید فام لوگوں نے سیاہ فام لوگوں کوہمیشہ دوسرے درجہ کاشہری سمجھا ہے ،ان کی جان ومال اور عزت آبرو کوآج تک کوئی حیثیت نہیں دی گئی ،جس کا تازہ مثال جارج فلائیڈ اور دیگر سیاہ فام احتجاجی مظاہرین پر ظلم وتشدد کی کاروائیاں ہیں ،امریکہ اور یورپ اپنے آپ کومہذب کہلانے کا بڑاشوق رکھتے ہیں مگر ان کے ہاں رنگ ونسل کی بنیاد پر قائم نسلی امتیازات آج تک ختم نہ ہوسکے،امریکہ کاموجودہ صدر ٹرمپ خود نسلی تعصبات کا بہت بڑاعلمبردار ہے، جبکہ اسلام نے ساڑھے چودہ سوسال پہلے ان تمام نفرت آمیز چیزوں کو پائوں تلے روند ڈالنے کا نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ عملاًثابت کردیاتھا کہ نسلی طورپر کسی کوبھی کسی پر کسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیں ،موذن رسول ۖحضرت بلال رنگ کے کالے ،سیاہ فام اور حبشی تھے مگر حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر شخصیت سمیت تمام سفید فام مسلمان انہیں سیدنا]ہمارے سردار[بلالؓ کے نام سے پکارتھے ،صرف حضرت بلالؓ ہی سیاہ فام نہیں تھے ان کے علاوہ اور بھی کئی شخصیات کا تعلق سیاہ فام نسل سے تھا مگر اسلام نے کبھی بھی اس تفریق کو برداشت نہیں کیا ،ہمارے نبی کریم ۖنے حجة الوداع کے شہرۂ آفاق خطبہ میں ان نسلی امتیازات کو اپنے پائوں تلے روندکر انسانوں کو ایک ہی صف میں کھڑاکردیاتھا جس پر اسلام آج بھی قائم ہے ۔امریکہ کو اس مقام پر پہنچانے میں انہی سیاہ فام لوگوں کا خون پسینہ بلکہ ان کی ہڈیاں شامل ہیں ،جن سے جانوروں سے بھی زیادہ کام لیکر امریکہ کوایک خوبصورت اورترقی یافتہ ملک بنایاگیا مگر افسوس کہ امریکہ سمیت یورپ کےتہذیب یافتہ ممالک میں ان سیاہ فام انسانوں کو آج تک انسانیت کا درجہ نہیں دیاگیا ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.