پڑھنے والوں کا ایک بڑا طبقہ مجلد کتابیں خریدنے کے خلاف ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کے ساتھ تھوڑے سے پرانے لوگوں کو شامل کیا جائے، یعنی یہی کوئی پینتیس چالیس سال کی بات کی جائے تو ہمارے معاشرے نے کوئی بڑا مسئلہ نہیں دیکھا۔ جنگ عظیم کے بارے میں کتابیں اور کہانیاں تو ہمارے پاس موجود تھیں اور فلموں نے اس فینٹیسی کو کبھی ختم نہیں ہونے دیا۔ لیکن کتاب اور فلم آپ کو جتنا مرضی یقین دلائیں، حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگ، وبا، قحط یا ایسی کسی چیز نے ہمارے معاشرے کو اس کی بنیادوں سے ہلا کر نہیں رکھا۔
طالبان اور ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بہرحال موجود تھیں لیکن وہ ہماری زندگیوں کو اس طرح سے متاثر نہیں کرسکیں کہ نظام زندگی بالکل بدل کر رہ جاتا جیسے کہ اب کورونا وائرس نے ہمیں ہماری زندگیوں میں پہلی بار مکمل طور پرجھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپنی زندگی، معمولات اور ترجیحات سب کچھ نہ صرف نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت پڑگئی ہے بلکہ بہت حد تک بدلنا بھی مجبوری بن گئی ہے۔ یہ تبدیلیاں ہر شعبہ زندگی پر اثر انداز ہورہی ہیں لیکن جس طرح سے کورونا وائرس کے اثرات نے کتاب اور اس کے وابستگان کو متاثر کیا ہے شائد ہی کوئی اور شعبہ زندگی متاثر ہوا ہو۔
لاک ڈاؤن، بے یقینی اور پیسوں کی بچت و کمیابی نے ہمیں کتابوں سے بہت حد تک دور کردیا ہے۔ دکانیں بند ہیں، کوئی پتہ نہیں کہ وہ کب کھلیں اور جب کھلیں گی تو لینے والے دوبارہ سے اسی طرز زندگی میں کتاب خریدیں گے کہ نہیں؟ یہ سوال بہت سوں کو پریشان کرتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے لوگ پڑھنے والوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بجٹ میں کتابوں کی خریداری کو شامل رکھیں تاکہ کتاب اور اس کے وابستگان ہمت نہ ہاریں۔ لیکن حقائق اور سچ کچھ اور بھی ہیں جنہیں ہم بہت کم اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں۔ آج اسی سچ کو ایک بار بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں پچھلے دس پندرہ سال میں اسمارٹ فونز کی وافر دستیابی اور ارزاں نیٹ پیکیجز نے پڑھنے والوں میں ایک نئے طبقے کو جنم دیا ہے، جسے کتاب پڑھنے کا بالکل شوق نہیں اور وہ مجلد کتابیں خریدنے کے بھی خلاف ہے۔ یہ پی ڈی ایف میں کتابیں پسند کرتے ہیں اور اس پسندیدگی کی ہزار وجوہات ہیں۔ جیسا کہ ہزاروں پی ڈی ایف کتب ایک چھوٹی سی یو ایس بی میں سما جاتی ہیں اور گھروں میں جگہ کا مسئلہ بھی نہیں بنتا۔ اگرچہ باقی دنیا میں بھی پی ڈی ایف ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں ہزاروں لاکھوں نوجوان پی ڈی ایف خریدنے کے بجائے ایک دوسرے سے اس کے لنکس مانگتے ہیں اور واٹس ایپ سمیت کئی سوشل میڈیا سائٹس پر موجود گروہ ہر نئی کتاب کا پی ڈی ایف بنا کر ایک دوسرے کو بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ جب مفت کی کتاب ملنے لگے تو کون بے وقوف ہوگا جو کبھی خریدنے کے بارے میں سوچے گا۔
ہمارے ملک میں پبلشرز کی ایک بڑی تعداد اس پی ڈی ایف کلچر کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے اور ہر روز کسی نئے پیغام سے نوجوانوں کو درخواست کی جاتی ہے کہ مفت پی ڈی ایف لکھاری اور پبلشر کا قتل کرنے کے برابر ہے، اس لیے اس سے پرہیز کریں۔ لیکن نوجوان ایسے پیغامات کو سننے اور سمجھنے سے بالکل پرہیز کرتے ہیں۔ اس چیز نے کتاب کی فروخت اور لکھاری کے معاوضے پر براہ راست اثر ڈالا، جس کی وجہ سے اب کتاب اور کہانی کا وہ معیار نہیں رہا جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک تھا۔ جبکہ مجلد کتب کے باقاعدہ خاتمے کےلیے بھی نوجوانوں کی طرف سے آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو اس سوال کا جواب دینے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے کہ اگر مجلد کتب ختم ہوگئیں تو پی ڈی ایف کس چیز کی بنائی جائے گی اور جب معاوضہ ہی نہیں ملے گا تو کوئی لکھاری کیونکر لکھے گا؟ ان کتاب سے محبت کرنے والوں کا یہ جنون ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر کتاب پی ڈی ایف میں بدل جائے اور ان کے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں دستیاب ہو، اسی لیے ان کے پاس ہر وقت ہزاروں پی ڈی ایف کتابیں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ تمام ’کبھی وقت ملے گا تو پڑھیں گے‘کے ٹیگ کے ساتھ برسوں سے پہلی دفعہ کھلنے کی منتظر ہیں۔
چھٹی کا دن سو کر گزارنے اور سفر کو فلمیں دیکھ کر کاٹنے والا یہ طبقہ پھر بھی کتابوں کی ڈاون لوڈنگ سے باز نہیں آتا اور اپنے خزانوں میں مسلسل اضافہ کرتا ہی رہتا ہے، لیکن ان خزانے سے استفادہ کب اور کیسے ہوگا، اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔
اس ساری صورت حال سے پرے ایک اور سوال بھی ہے کہ آخر ان کتابوں نے ہمیں دیا کیا ہے؟ ہم جب فکری سوچ و نشوونما، روح کی غذا، بالیدگی۔ اور نجانے کون کون سے مشکل الفاظ کے ساتھ خود کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس لفاظی سے پرے حقیقت حال کا سچا سوال یہ ہے کہ تہتر سال کی نصابی اور غیر نصابی کتب کا آج کے نوجوان پر کیا اثر پڑا ہے؟ عزم، ہمت اور حوصلے کے بارے میں ہمارے نوجوان کو پتہ بھی نہیں ہے۔ نوجوانوں کے ادب، تمیز اور برداشت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے اور جس نوجوان کا جتنا زیادہ مطالعے کا دعویٰ ہے وہ دوسروں سے اتنا زیادہ اکھڑ اور بدتمیز واقع ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کا ایک عکس ہے جو بتاتا ہے کہ آج کے نوجوان کو کسی سے بات کرنے کی کوئی تمیز نہیں۔ اسے اختلاف کرنے اور اختلاف رکھنے کے سلیقے کا پتہ ہی نہیں۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ شرم جہاں گھروں سے ختم ہوتا جارہا ہے وہیں سوشل میڈیا پر تو بالکل نظر نہیں آرہا۔ اپنے سیاسی اور مذہبی مخالفین کی تضحیک میں ہمارے نوجوان کمال رکھتے ہیں۔
فوٹو شاپ سے بنائی گئی تصاویر اور جھوٹی لغو باتوں پر مبنی پوسٹیں تو اب سوشل میڈیا پر برائی ہی نہیں سمجھی جاتیں اور ان سارے کاموں میں جنس کی کوئی تفریق بھی حائل نہیں بلکہ لڑکیوں نے ٹک ٹاک سمیت دوسری وڈیو ایپس پر فحاشی اور عریانی کا جو طوفان اٹھایا ہوا ہے اسے دیکھ کر اسلامی اور مشرقی تہذیب جانے کب کی بے موت مرچکی ہے، جس کا ثبوت گھر والوں کی خاموشیوں میں ملتا ہے۔ آپ کے ذہن میں جو اِکا دُکا مثالیں آ رہی ہیں انہیں ملک کی نوجوان آبادی کے مقابل رکھیں تو نکلنے والی فیصد ہماری طرف سے جواب سمجھئے گا۔ آپ ضرور یہ کہیں گے کہ ارے نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے، ہمارے نوجوان بہت قابل محنتی اور پڑھاکو ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن معذرت کہ نوجوانوں کی برائیوں پر ایسی ہی پردہ پوشی نے آج ہمارے نوجوانوں کا یہ حال کردیا ہے۔ ہمارے آج کی نوجوان نسل کا وقت گزارنے کا انداز اور مصروفیت اس کی تعلیم اور معاشرے میں لکھے اور پڑھے جانے والے ادب کی بخوبی عکاسی کرتی ہے۔
ہاں اگر آپ یہ کہیں کہ ہمارے معاشرے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کتابیں پڑھتے ہی نہیں ہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ چند فیصد بوڑھوں کے لیے اتنا ادب تخلیق کرنے کا کیا فائدہ؟ بلکہ بوڑھوں کےلیے اب کسی بھی طرح کا ادب تخلیق کرنے اور کتابیں چھاپنے کی کوئی خاص وجہ اور ضرورت ہو تو بتا دیں؟ حاصل گفتگو صرف اس قدر کہ تہتر سال کی نصابی اور غیر نصابی کتب، عالمی معیار کے ادب اور نجانے کون کون سے بلند و بانگ دعوؤں کے بعد بھی نتیجہ اگر موجودہ نوجوان نسل کی صورت میں نکلنا ہے تو کیا یہ سوال برمحل نہیں، جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایف والوں نے بھی شور مچایا ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتاب اب عزت سے مر جائے تو بہتر ہے؟