ہمارے ملک میں آج کل بے شمار فتنے پائے جاتے ہیں۔ روزانہ نت نئے فتنے سر اٹھا کر اہل وطن کے لئے دکھ و پریشانی کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ کچھ فتنے ہمارے اپنے پیداکردہ ہیں جنہیں ہم خود پیدا کر کے معاشرے میں پھیلاتے ہیں اور کچھ فتنے انہی فتنوں کی پاداش میں قدرت کی طرف سے ہمارے اوپر مسلط ہو کر ہمارے رہے سہے چین و سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ ان فتنوں میں ارضی، سماوی اور فضائی فتنے، انسانی اور کائناتی فتنے، اندرونی اور بیرونی فتنے، بدنی اور جسمانی فتنے، ذہنی اور قلبی فتنے، اعتقادی اور فکری فتنے، عملی اور اخلاقی فتنیروحانی اور مادی فتنے، لسانیت و قومیت کے فتنے، صوبائیت و علاقائیت کے فتنے، ملکی اور بین الاقوامی فتنے، جہالت اور رسومات کے فتنے، جماعتوں اور پارٹیوں کے فتنے، مذاہب و مسالک کے فتنے، سیاسی و سماجی فتنے، انفرادی و اجتماعی فتنے، دینی و مذہبی فتنے اور فرقہ وارانہ فتنے، جدت پسندی و آزاد خیال کے فتنے، قدامت پسندی اور رجعت پسندی کے فتنے، کھیل اور کھلاڑیوں کے فتنے، اداکاروں اور اداکاراؤں کے فتنے، فنکاروں اور گلوکاروں کے فتنے، اساتذہ اور ٹیچروں کے فتنے، علماء و طلباء کے فتنے، مرشدوں اور پیروں کے فتنے، شاگردوں اور مریدوں کے فتنے، ارباب صحافت اور ایڈیٹروں کے فتنے، مصنفین اور رائٹروں کے فتنے، شعراء اور غزل خوانوں کے فتنے، امراء اور حکام کے فتنے، وزیروں اورمشیروں کے فتنے، قائدین اور لیڈروں کے فتنے، جلسے اور جلوس کے فتنے، قانونی، آئینی اور لاقانونیت کے فتنے، ڈکٹیٹروں اور جرنیلوں کے فتنے، مزدوروں اور کسانوں کے فتنے، صنعت اور صنعت کاروں کے فتنے، آجروں اور اجیروں کے فتنے، ارباب تجارت اور تاجر تنظیموں کے فتنے، کسبکاروں اور پیشہ وروں کے فتنے، سرمایہ داروں اور زرپرستوں کے فتنے، جاگیرداروں اور وڈیروں کے فتنے، خانوں اور سرداروں کے فتنے، چوہدریوں اور نوابوں کے فتنے، شہزادوں اور شہزادیوں کے فتنے، مادرپدرآزاد اور مغرب پرستوں کے فتنے، ٹی وی ٹاک شوز اور اینکروں کے فتنے، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے فتنے، ضمیرفروشی اور ملت فروشی کے فتنے، مختلف پارٹیوں اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے فتنے، منصب اور عہدوں کے فتنے، افتراق و انتشار کے فتنے، قتل و غارت اور ڈکیتیوں کے فتنے، خود کش اور ڈرونز کے فتنے، اغوا برائے تاوان اور بم دھماکوں کے فتنے، فحاشی اور عریانی کے فتنے، نام نہاد غیرت اور بے غیرتی کے فتنے، تقریر و تحریر کے فتنے، تعریف و توصیف کے فتنے، حسن اور جوانی کے فتنے، عشق اور محبت کے فتنے، منگنی اور شادی کے فتنے، مال و دولت کے فتنے، غربت اور افلاس کے فتنے، اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے فتنے، ظلم اور بربریت کے فتنے، روایات و خرافات کے فتنے، پیروی اور تقلید کے فتنے، تردید داور تنقید کے فتنے، تقابل اور تفاضل کے فتنے، تفاخر اور تنافس کے فتنے، غرور اور تکبر کے فتنے، اسراف اور تبذیر کے فتنے، جعل سازی اور ملمع سازی کے فتنے، تکلف اور بناوٹ کے فتنے، جھوٹ اور فراڈ کے فتنے، دھوکہ دہی اور خیانت کے فتنے، انکار اور نافرمانی کے فتنے، اختراعات اور بدعات کے فتنے، دہریت اور الحاد کے فتنے۔
الغرض بے شمار فتنے ہیں اور روز بروز ان فتنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مگر آج کل جو فتنہ عروج پر ہے اور جو فتنہ ہماری تہذیب کلچر اور اسلامی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، عریانی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے، وہ فیشن شو کا فتنہ ہے جو اسلامی تہذیب و کلچر اور مشرقی روایات کے بالکل خلاف اور مغربی ثقافت کی کھلی تبلیغ ہے۔ ان فیشن شوز میں جو جو لباس خواتین کو پہنایا جاتا ہے اور پورے ملک کی خواتین کو اس لباس پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے، شرافت اس لباس کو پہننے کی بالکل اجازت نہیں دیتی، نہ ہی مشرقی روایات اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں، نہ ہی غیرت کی دنیا میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ اسلام آباد،کراچی، لاہوراور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی فیشن شو کا انعقاد ہوتا ہے جن میں چند حیاباختہ مادرپدر آزاد، مغربی تہذیب کی دلدادہ، بے حیائی کو دعوت دینے والی خواتین عریاں اور نیم عریاں مغربی لباس پہن کر اپنے حسن کے جلوے دکھا کر پاکستانی قوم اور خصوصاً نئی نسل کو گمراہ کرنے کی دعوت دے رہی ہوتی ہیں اور ہمارے ٹی وی چینل بڑے شوق و ذوق سے بار بار فیشن کے نام پر منعقدہ بے حیائی کے ان پروگراموں کو دکھا کر مغربیت، عریانی اور فحاشی کو ملک کے اندر پھیلا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہماری مذہبی اور روایتی اقدار کا مذاق اڑائے اور قوم کو مغرب کی بے حیائی کی دلدل میں دھکیل کر مغربی ایجنٹوں کا کردار ادا کرے۔ کچھ عرصہ قبل پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکانے والی فحاشی اور عریانی کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والی ننگ انسانیت اداکارہ وینا ملک نے اپنے بازو پر آئی ایس آئی لکھوا کر بالکل عریاں تصویر ایک بھارتی جریدے میں شائع کرائی تو تمام الیکٹرانک میڈیا پر ہمارے ٹی وی چینلز نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے ایک ہیرو اور فاتح کی طرح پیش کیا اور اس کو اتنی کوریج دی کہ بڑے بڑے لیڈروں کو بھی اس پر رشک آیا ہو گا،ابھی حال ہی میں حریم شاہ اور صندل نامی لڑکیوں نے سوشل میڈیااور ٹی وی چینلزپرایسی دھوم مچائی کہ جیسے انہوں نے بہت بڑاکوئی تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ کیا ہمارا الیکٹرانک میڈیا کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والا میڈیا اپنے کرتوتوں پر غور کیوں نہیں کرتا، اخلاقیات کی حدود پھلانگ کر مذہبی اور قومی روایات کی دھجیاں کیوں اڑاتا رہا ہے۔ ایک طرف ملک کی اکثر آبادی غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان کے کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ دوسری طرف ملک کا ایک فیصد طبقہ مذہبی اور قومی روایات کو پاؤں تلے روند کر شاہانہ ملبوسات کی نمائش کر کے ۹۹فیصد عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر رہا ہے۔ ہمارے ملک کا ایک فیصد مالدار طبقہ عیش و عشرت، شباب و شراب کی خرمستیوں کو ہی اپنا مقصد زندگی بنایا ہوا ہے۔
امام شاہ ولی اللہ ؒملکوں کی تباہی و بربادی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، شہروں کی خرابی اس سے بھی ہوتی ہے کہ بڑے لوگ باریک زیورات، نفیس لباس اور عمدہ قسم کی عمارتوں اور اعلیٰ درجے کے کھانوں اور حسین و جمیل عورتوں کی طرف راغبت ہو جاتے ہیں اور ان کی یہ رغبت اس سے زیادہ ہوتی ہے جس کا تقاضا ارتفاقات ضروریہ کرتے ہیں یا جن کا پایا جانا ضروری ہے جن کے بغیر لوگ رہ نہیں سکتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ایسے پیشے اختیار کرلیتے ہیں جن سے ان امراء کی خواہشات پوری ہوتی ہیں۔ جب انسانوں کی ایک اچھی خاصی جماعت ان پیشوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ زراعت اور تجارت کے پیشوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور شہر کے بڑے بڑے لوگ ان پیشوں میں بڑے بڑے اموال خڑچ کرتے ہیں اور شہر کے دوسرے مصالح چھوڑ دیتے ہیں تو آخرکار یہ چیز لوگوں کے لئے تنگی کا باعث بن جاتی ہے خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو ضروری پیشوں میں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے کسان، تاجر، کاریگر ان پر دگنے ٹیکس لگا دئیے جاتے ہیں، اس سے شہریت اور معاشرہ کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ نقصان ایک عضو سے دوسرے عضو کی طرف سرایت کرتا ہے یہاں تک کہ سب لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ بیماری اسی طرح معاشرہ اور شہر کے رگ و ریشے میں پھیل جاتی ہے۔ جس طرح باؤلے کتے کے کاٹنے کا زہر آدمی کے تمام جسم میں پھیل جاتا ہے، یہ وہ نقصان ہے جو انہیں دنیا میں پہنچتا ہے اور وہ نقصان جو دینی طور پر انہیں لاحق ہوتا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ نے بڑے حکیمانہ انداز میں مالدار لوگوں کی ان خرمستیوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے نقصانات کو بیان کیا ہے۔ جب قوم کی بیٹیاں دیکھیں گی کہ فیشن شو میں پیشہ بھی ملتا ہے، شہرت بھی ملتی ہے اور دیگر خواہشات بھی اعلیٰ درجہ پر پوری ہوتی ہیں تو تمام لڑکیاں دیگر ضروری کاموں کو چھوڑ کر اس پیشے کو اپنائیں گی جس سے عریانی اور فحاشی بہت زیادہ بڑھے گی اور ہر لڑکی وینا ملک بن شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے خواب دیکھے گی۔ کیا ہمارے ارباب اختیار و اقتدار اور ٹی وی چینلز قوم کی بیٹیوں کو وینا ملک بنانا پسند کرتے ہیں، اگر کرتے ہیں تو ڈوب مرنے کا مقام ہے اور اگر نہیں دیکھنا چاہتے تو پھر ان حیا باختہ فیشن شوز کو بند کیوں نہیں کرتے اور ان کی اشاعت کو کیوں نہیں چھوڑتے اور ہماری مذہبی جماعتیں اور مذہب کا درد رکھنے والے لوگ اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے اور اس بڑھتی ہوئی بے حیائی کو سیلاب کی صورت اختیار کرنے سے کیوں نہیں روکتے۔ یہی وہ ہمارے پیدا کردہ فتنے ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتے ہیں جس کی وجہ سے ظالم اور کرپٹ حکمران ہم پر مسلط ہیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، غربت اور مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ دن بدن نئے نئے عذاب قدرت کی طرف سے ہماری پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔
فیشن شو ایک تباہ کن فتنہ (حافظ مومن خان عثمانی)
You might also like