جب انسان کتاب سے دور ہوجائے گا تو وہ اپنی زبان،اپنے رسم ورواج،اپنی تاریخ،اپنی ثقافت،اور اپنے تشخص کا گلہ گھونٹنے کا مرتکب ٹھہرے گا اور علمی طور پر اپاہج ہو جائے گا دور جدید میں تحقیق یعنی ریسرچ کا عمل اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے گھروں میں بک شیلف ناپید ہوتے جارہے ہیں کتب سے مزین الماریاں تو نہیں مگر ہاں گھروں میں موبائل چارجنگ پر باریاں ضرور لگی ہوئی ہیں۔کتاب سے علم کو اپنی ذہنی یاد داشت میں محفوظ نہیں کیا جا رہا جس کا سب سے بڑا نقصان نسل نو کا حافظہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے جواں نسل ریسرچ کے عمل سے بھاگ کر گوگل پر سرچ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے،کتابیں خریدنے کی بجائے اب احباب سے درخواست کی جا رہی ہوتی ہے کہ بھائی مجھے فلاں بک کی پی ڈی ایف فائل بھیج دو۔ارے اللہ کے بندو!گوگل پر کوئی زیادہ عالم فاضل لوگ نہیں ہیں اور آپکو شائید معلوم ہی نہیں کہ کتب بینی سے دوری ہمیں دین سے دور،اپنی ثقافت سے دور،اپنے تمدن سے دور،اپنی زبان اور معاشرت سے دور لے کر جارہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہود و ہنود مختلف کتب میں تحریف کر کے انہیں گوگل پر چڑھاتے ہوں اور ہم وہاں سے جو کتب پڑھتے بھی ہیں وہ ہمیں کچھ علم دینے کی بجائے ہمیں خود سے بھی دور کر رہی ہوں کبھی غور کریں ذرا اس پہلو پر۔آپ کے خیال میں کیا دینی کتب میں تحاریف نہیں ہوئی ہوں گی؟قرآن پاک کے تراجم کو اغیار نے اپنے سانچے میں ڈھالنے کی جسارت نہیں کی ہو گی؟آپکے ادب و ثقافت کو ملیا میٹ کرنے کے لئے اغیار کب سے کام کر رہے ہیں آج کے نوجوان اپنی تہذیب و ثقافت کو اتنا نہیں جانتے جس قدر وہ ہندو تہذیب، کوریائی تہذیب اور انگریز کی تہذیب سے شناسا اور اسی کے رنگ میں رنگے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ہماری 80%سے زیادہ نوجوان نسل اپنی ثقافت سے بے بہرہ ہیں،اپنی تہذیب کا گلہ گھونٹ چکے ہیں نہ اپنی زبان سے آشنا اور نہ ہی پہناوے اپنی تہذیب کے انکے ابدان پر دیکھائی دیتے ہیں۔یہ سب ہوا کیسے؟فقط اپنی زبان و ادب،اپنی تہذیب،ثقافت اور تاریخ کو نہ پڑھنے کے سبب۔آپ کسی بھی ٹیلی ویژن کے تفریحی پروگرام پر نظر دوڑائیں سب سے پہلے تو جو حضرت اسکے میزبان یعنی اینکر صاحب ہونگے وہ اپنی زبان کا استعمال بس جزوی طور پر کرتے ہوئے نظر آئیں گے جیسے اردو انکے لئے ایک کڑوا گھونٹ ہو جسے وہ خود پر جبر کر کے نگل رہے ہوں اور انگریزی کو بولنا وہ کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھ رہے ہوں گے اس کے بعد جو لوگ اس پروگرام میں شامل ہوں گے وہ زبان و وجود سے انگریز دیکھائی دیں گے نہ انکے پہناوے میں کہیں آپکو اپنا تمدن نظر آئے گا اور نہ انکی گفتار میں کیونکہ انہوں نے اپنا تمدن،اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو تیاگ کر لیڈی گاگا، جسٹن بیبر اور ان جیسے لوگوں کی مشابہت اپنانا خود کے لئے اعزاز سمجھ رکھا ہو گا اور جو شور شرابے سے بھرپور بے ہنگم قسم کے گیت سنا رہے ہوتے ہیں وہ بھی قطعی طور پر ہماری ثقافت نہیں شاعری بقول شخصے جسے وہ گا رہے ہوتے ہیں اس میں شعریت نام کی بھی نہیں ہوتی بلکہ ادب سے نابلد شاعری گانا وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھ کر گا رہے ہوتے ہیں وجہ اس کی بھی وہی کہ اپنا ادب اور اپنے ادیب و شعراء اگر اس نسل نے پڑھے ہوتے تو دنیا میں کہیں بھی یہ اپنی ثقافت کے امین و پیامبر نظر آتے مگر افسوس یہ کہیں سے بھی اپنی ثقافت کے پیامبر نہیں لگتے بلکہ یو ں لگتا ہے جیسے یہ نام نہاد پاکستانی ہم نے امریکہ، برطانیہ،فرانس اور ہندوستان سے مستعار لیکر پاکستان کی نمائندگی کے لئے ثقافتی حلقوں میں گھسائے ہوئے ہیں۔ اگر یہی نسل نو اپنی زبان و ادب سے آشنا ہوتی تو پوری دنیا میں پاکستانی ثقافت کو پیش کر سکتی تھی،اگر یہ جواں نسل کتب بینی سے شغف رکھتی تو اسے اپنی تہذیب،ثقافت،ادب، اپنی زبان اور پہناوے بے حد عزیز ہوتے مگر افسوس! ایسا نہیں ہے جن قوموں نے میری قوم کو سرچ پر لگایا وہ آج بھی کتب بینی سے فیضیاب ہو رہے ہیں وہاں آج بھی کسی ادیب،دانشور یا شاعر کی کتب لاکھوں کی تعداد میں بک رہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے ادباء و دانشور اگر اپنی زندگی بھر کی پونجی جمع کر کے کوئی کتاب چھپوا بھی لیں تو انہیں گھر گھر جا کر دوستوں کو وہ کتاب دینی پڑتی ہے کہ بھائی صاحب یہ کتاب میں نے سال دو سال یا اس سے بھی زائد عرصے کی محنت شاقہ مکمل ذہنی عرق ریزی سے لکھ کر شائع کروائی ہے اسے لازمی پڑھیئے گا۔یہ المیہ نہیں تو کیا ہے؟یہ سانحہ ہے اور وہ بھی بڑا اندوہناک سانحہ بڑا خوش قسمت ہے وہ شاعر یا ادیب جس کی کتاب کی کوئی دو سو کاپی بک جائے وہ خوشیاں مناتے ہوئے نہیں تھکتا کہ میری کتاب دو سو کی تعداد میں بک گئی قابل صد افسوس ہے یہ بات کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں کسی دانشور کی شبانہ روز کی عرق ریزی کی قیمت یہ ملے کہ فقط دو سو لوگ کتاب خریدنے والے موجود ہوں باعث فخر نہیں باعث شرم بات ہے یہ کہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں ادب شناس صرف دو سو نکلیں جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں اب ذرا اسکو دیکھیں کہ کتنے فیصد لوگ اس ملک میں کتاب سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں کیا باعث ندامت نہیں یہ بات؟اگر یہی جواں نسل جواں عزم ہوکر کتب بینی کو اپناتی تو انکے پہناوے انکی بول چال اور انکے لہجے شائستگی اور مٹھاس کا ایک حسین امتزاج دیکھائی دیتے مگر شومئی قسمت کہ ایسا ہو نہیں سکا۔بہترین اور نادر کتب میں نے فٹ پاتھوں پر دیکھی ہیں،نایاب ترین کتب میں نے خوانچہ فروشوں کے خوانچوں پر دیکھی ہیں جس کے اوراق چاک کر کر کے وہ کبھی ان پر پکوڑے،کبھی کوئی پھل کاٹ کر اور کبھی پتیسہ رکھے بیچ رہا ہوتا ہے۔ایسا نایاب نہیں بلکہ کمیاب ادب،تاریخ اور ادباء کی محنت شاقہ کیساتھ میرے یہاں دیکھنے کو مل رہا ہے الحفیظ و الامان! اپنی کتب،ادب اور زبان سے دوری گویا اپنی تہذیب،ثقافت،مذہب اور تمدن کی خودکشی۔۔! خدارا کسی بھی طرح اپنی نسل نو کو اپنی زبان و ادب کی طرف راغب کریں یہ نہ ہو کہ پاک سر زمین پر ہمارے اپنے ہی وجود غیر ملکی سے لگنے لگیں جو کہ ہو چکا ہے اگر سب کچھ بچانا ہے تو قومی زبان کے نفاذ کو یقینی بنا کر اپنا اپنائیت والا نصاب تعلیم رائج کریں تاکہ ہمارا تشخص اور پہچان سلامت رہے جو کہ ختم ہونے کو ہے۔Mobile:03344954919 Mail:mhbabar4@gmail.com
کتاب سے دوری،علمی معذوری (تحریر:ڈاکٹر ایم ایچ بابر)
You might also like